دشمنی جیسی دوستی

Naseer Ahmed
نصیر احمد

دشمنی جیسی دوستی

از، نصیر احمد 

ان سے تو میری کبھی نہیں بنی۔ وہ بہت بڑے تھے اور بڑوں کی چٹکیاں لینا، ان کو ستانا اور موقع ملے تو ٹکر تک بھی مار دینا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا؛ چاہے اپنا ہی سر کیوں نہ زخمی ہو جائے۔ کبھی آمنا سامنا ہو جائے تو ان کے ہونٹو ں پر ایک مہربان سا تبسم پھیل جایا کرتا تھا جس کا جواب میں اپنے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ سجا کر کرتا تھا، جیسے ان کی مہربانی بس دکھاوا ہی ہو۔ اس سے وہ چڑتے تھے جس کا مجھے وقتاً فوقتاً احساس ہوتا رہتا تھا۔

بات صرف اتنی نہیں تھی۔ سوچ میں بھی فرق تھا۔ میں شجرِ ظلمت کا مخالف تھا، مخالفت بھی مسلسل کیا کرتا تھا، لیکن مجھے ایک بہت گہرا احساس تھا کہ اس مخالفت میں مجھے تنہا نہیں ہونا چاہیے۔

اس مخالفت کے آغاز میں مجھے لگا کہ وہ تو شجرِ ظلمت کی جڑوں میں بیٹھے ہیں اور یہ جتنی تنہائی ہے انھی کی کارستانی ہے۔ لیکن بعد میں مجھے احساس ہو گیا کہ وہ شجرِ ظلمت سے مختلف ہیں۔ ان کو شجرِ ظلمت سے منسلک کیا جا سکتا تھا اور پیرانِ ظلمت نے یہ ناتا جوڑا بھی ہوا تھا، لیکن مجھے اپنی جستجو سے اتنی بات کی تفہیم ہو گئی کہ ان کا شجرِ ظلمت سے کچھ لینا دینا نہیں اور اس حوالے سے ہر طرف پھیلی ہوئی باتیں جھوٹی باتیں ہیں۔

لیکن اس تبدیلی سے بھی میرے اور ان کے تعلقات اچھے نہیں ہو سکے۔ اب یہ گِلہ تھا کہ شجرِ ظلمت ہے اور تہذیب بکھر رہی ہے اور یہ اتنے بڑے لوگ ہیں بس چپ چاپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کیا سب میری ہی ذمے داری ہے؟ کچھ ان کی نہیں بنتی؟ تنہا ہوں جا بہ جا پسپا ہوتا ہوں تو کیا ان کا بنتا نہیں کہ کبھی کچھ تسلی تشفی ہی کر دیں؟ دکھوں کے ارد گرد ڈرامے کو چُوں کہ میں شجرِ ظلمت کی کام یابی کی بنیادی وجہ سمجھتا ہوں، اس لیے دکھوں کے ارد گرد ڈرامے سے گریز کرتا ہوں وگرنہ ابھی جو میں نے کہا ہے بڑے ہی دکھ کی بات ہے۔ 

شاید کوئی بھی نہ سمجھے، لیکن وہ تو سمجھتے تھے۔ ایک طرح سے سوچا جائے تو میں یہ ان کے لیے بھی تو کر رہا تھا۔ مگر انھوں نے کچھ تسلی تشفی نہ کی اور میری مشکلیں بڑھتی گئیں اور میں یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دیتا کہ بڑے ہیں تو کیا، یہ کام کرنے کی ہمت تو مجھ میں ہی ہے۔

لیکن وہ شاید انتظار کر رہے تھے کہ میں کب ان سے مدد مانگوں مگر انھیں اس کے لیے بہت طویل انتظار کرنا پڑ گیا کہ ضدی تو میں بھی ہوں، مگر ایک دن مجھے ان سے مدد مانگنی ہی پڑی۔

وہ بڑی ہی سرد رات تھی۔ اتنی سردی کہ میں نے تین چار کمبل اوڑھے تھے، مگر پھر بھی ٹھنڈ ہڈیوں میں گُھستی جاتی تھی۔ بس ایسا لگتا تھا کہ اس سردی کا کوئی حل نہیں کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ شگفتہ کا فون تھا۔

شگفتہ میری ایک بہت اچھی دوست تھی، لیکن جب ہم لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تھے تو ہم لوگوں کی دوستی ٹوٹ چکی تھی۔ بہت عرصہ وہ منظر سے غائب رہی تھی، لیکن جب ملے تو تھوڑے عرصے میں دوستی بہ حال ہو گئی کہ ہزار گِلوں کے با وجود ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ اور بہ حالی کے ساتھ ہی معلوم ہوا کہ پہلے دوستی ٹوٹی تھی، اس دفعہ شگفتہ خود ٹوٹ چکی تھی۔

تین بچوں کے ساتھ تنہا تھی اور اس کے لیے زندگی بہت ہی زیادہ مشکل ہو گئی تھی۔ کنبے کٹم والے تھے لیکن شگفتہ کے لیے انھوں نے اپنی ہستی نیستی میں تبدیل کر لی تھی اور دوست بھی تھے، مگر شجرِ ظلمت دوستی کی شکل تو مسخ کر چکا تھا، اس لیے دوستی بھی کچھ خاص مؤثر نہ تھی کہ شگفتہ کے لیے چیزیں آسان ہوں۔

شگفتہ کام کرتی تھی مگر کام بھی چھوٹ گیا تھا اور نیا مل نہیں رہا تھا۔ کسی زمانے میں شگفتہ اچھی خاصی خوش حال بھی تھی۔ اب خوش حالی سے شدید غربت کا سفر زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ غربت کی عادت ہو تو کہنا، مانگنا اور جھولی پھیلانا آسان ہو جاتا ہے لیکن خوش حالی کے تجربے کے بعد ممکن نہیں رہتا۔

ویسے تو وہ بہت حسین بھی تھی۔ میں نے اسے ایک دن ہنسی میں کہا بھی کہ یہ تم میڈیا کی پٹرپٹر کرتی کتیا کیوں نہیں بن جاتی؟ وہ کہنے لگی تمھارے بھی تو حالات اتنے اچھے نہیں ہیں، تم کیوں نہیں پٹر پٹر کرتے میڈیا کے کتے بن جاتے؟

میں نے کہا

آہ، انسانیت۔

وہ ہنس کر کہنے لگی۔

غریب ہی ہوئی ہوں ناں، یارا۔ انسانیت کیسے بھول جاؤں۔

پھر وہ دین دار بھی تھی اور آخرت میں جواب بھی دینا تھا۔ مجھے ایسی کوئی فکر نہیں تھی لیکن خود سوچ سوچ کر خیر و شر کے حوالے سے اخلاقیات میں نے بھی اپنے لیے طے کر لی تھیں اور ان اخلاقیات سے میری بھی وابستگی گہری تھی۔

شگفتہ کی تین بیٹیاں تھیں۔ جن کے نام اس نے ایرانی شہ زادیوں کے ناموں پر رکھے تھے۔ اشرف الملوک، شمس الملوک اور افتخار السلطنہ۔ اشرف بڑی تھی جو نوِیں میں پڑھتی تھی اور شمس ساتویں میں پڑھتی تھی اور افتخار چوتھی میں لیکن ان دنوں وہ گھر میں ہی پڑھتی تھیں کہ سرکاری سکول گھر سے دور تھا اور سکول کی وین کے پیسے بھی شگفتہ کے پاس نہیں تھے۔ افتخار کا نام مجھے اکثر بھول جایا کرتا تھا۔ ایک دن افتخار سے باتیں کرتے کرتے میں نے شگفتہ کو چھیڑنے کے لیے کہا:

یار بیٹا تمھارا نام بھول جاتا ہے، پتا نہیں کس کتیا نے اتنا مشکل نام رکھا ہے، افتخار السلطنہ،

افتخار مزے سے کہنے لگی.

وہ کتیا یہیں بیٹھی ہے سر جی۔

اور شگفتہ مُنھ بنا کر کہنے لگی۔

بہت بڑے حرامی ہو تم نے جان بوجھ کر کہا ہے۔

ان بے چارے بچوں کے ساتھ ریس اِزم بھی ہو رہا تھا، جس سے مجھے سب سے زیادہ ہٹلر کی وجہ سے مسئلہ تھا۔ شگفتہ پڑھی لکھی تھی اور یہ بچے ان حالات میں بھی بہت اعلیٰ ادب پڑھ رہے تھے، جین آسٹن، ہنری فیلڈنگ، ٹامس ہارڈی پر لمبے لمبے لیکچر دیا کرتے تھے۔

مدد تو میں نے شگفتہ کی ویسے بھی کرنی تھی لیکن ان لائق فائق بچوں کو ان حالات میں دیکھ کر ذمے داری کا ایک احساس بھی بن گیا۔ اور سب سے بڑا مسئلہ تو تھا، شگفتہ کی مدد کیسے کروں۔ جتنے پیسے میرے پاس ہوتے تھے وہ فرح جونم اور اس کے بچوں کے اخراجات پر صرف ہو جاتے۔ فرح جونم معشوقۂِ جاں فزا تھی۔ اس کے حالات پر مجھے ایک اور کہانی لکھنی پڑے گی۔

اب محبت تو صرف کنبے کٹم والے ہی کر سکتے تھے، وہ کرتے بھی تھے لیکن ادھر سے ابلہ متکبر کی حکومت قائم ہو گئی تھی اور ہر چیز دس گنی مہنگی ہو گئی تھی۔ کچھ دوست بھی محبت کرتے تھے، کچھ مدد انھوں نے بھی کی، لیکن پوری نہیں پڑتی تھی۔ لیکن گزارا سا ہو جاتا تھا۔

یوں تو میرے دوست رشتے دار بہت زیادہ ہیں۔ کچھ مدّاح بھی ہیں، مگر اکثر نے مشکل حالات کی وجہ سے اور شجرِ ظلمت کے مختلف زاویوں پر میرے اعتراضات کی وجہ سے جان بوجھ کر دوریاں بھی پیدا کر لی ہیں جن کو ختم کر کے نہ میں شرمندہ ہونا چاہتا ہوں اور نہ کسی کو شرمندہ کرنا چاہتا ہوں۔

لیکن شگفتہ کی مدد کا ایک مشن تو میں نے بنا لیا تھا، اس لیے میں کوشش یہی کرتا تھا کہ اسے مایوس نہ ہونے دوں۔ دوست تھی اور دوستوں کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ وہ کچھ غصّیل بھی تھی اور دکھیا بھی بہت رہتی تھی، اس لیے زندگی سے اس کا مقابلہ قائم کرنے کے لیے اس کی کونسلنگ بھی کرنی پڑتی تھی۔ کبھی کبھی میں کچھ چِڑ بھی جاتا تھا جس سے شگفتہ ڈر جاتی تھی کہ اب یہ بھی مائل بہ پرواز ہے۔

شگفتہ نے معیار بھی بہت اونچے قائم کیے ہوئے تھے اور کچھ انسانوں کے بارے میں اس کا نکتۂِ نظر منفی بھی ہو گیا تھا۔ اس کے مجھ پر بھی اثرات ہونے لگے، لیکن مجھے جلد ہی سمجھ آ گئی اور میں نے اپنا پرانا مہربان سا رویہ بہ حال کر لیا۔

میں نے سوچا کہ کچھ پسِ منظر آپ کو بتا دوں۔ اس سارے معاملے میں آنسو، آہیں، دکھ، روگ، بھوگ اور بِجوگ بہت ہیں، مگر میں سپاٹ سے انداز میں کچھ سمجھانا چاہ رہا ہوں، اس لیے اس سب کو نظر انداز کر رہا ہوں کہ تفہیم کسی شدید جذبے کا شکار ہو کر کھٹل اور بے فائدہ نہ ہو جائے۔

مشکل ہی سہی مگر معاملات چل رہے تھے کہ شگفتہ کا فون آ گیا۔

یار بہت سردی ہے، ہمارے پاس کمبل نہیں ہیں اور افتخار کا تو تمھیں پتا ہے اسے سانس کی تکلیف ہے، اسے سردی لگ گئی ہے، اسے لے کر ہسپتال جانا ہے، کمبل بھی خریدنے ہیں، پاس کچھ نہیں ہے، کچھ بندوبست کر دو ناں۔

اس وقت؟

تو کس وقت کرو گے، جب افتخار مر جائے گی؟

ابھی دو دن پہلے ہی تو پیسے بھیجے تھے؟

تم نے کوئی قارون کا خزانہ تو نہیں بھیجا تھا۔ کچھ گراسری لیں اور افتخار کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی، سب ختم۔

لیکن میرے پاس ابھی تو کچھ نہیں ہے؟

تو کیا افتخار مر جائے گی؟

ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔ کچھ سوچنے تو دو۔

میری بیٹی کی جان پر بنی ہے اور صاحبِ عالم تفکر اور تدبر فرمائیں گے۔ اب برا مت مان جانا، دوست ہو ناں، اور میں بہت پریشان ہوں۔

اچھا کچھ کرتا ہوں۔

لیکن سمجھ نہیں آ رہی تھی کس سے کہوں۔ بہت کم لوگ تھے جو محبت کرتے تھے اور بہت دور رہتے تھے۔ اتنے کم پیسوں کے لیے انھیں تنگ کرنا بھی ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ باقی اتنی دوریاں بن گئی تھیں کہ انھیں توڑنا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا تھا، اور جہاں کہیں کچھ امید تھی وہاں کچھ نہ کچھ قیمت بھی جڑی ہوئی تھی۔ یہ تو احسانِ عظیم ہو جاتا جس کی زندگی پھر قیمت چکانی پڑتی۔

سوچتے سوچتے ابلے کی بھی یاد آ گئی کہ ابلہ جب بہت بڑا کھلاڑی ہوتا تھا تو ہم لوگ اس کے آگے پیچھے ہی رہتے تھے۔ اب ابلہ حکومت ہے اور حکومت ابلہ ہے شاید پہچانے نا، مگر مدد تو شاید کر دے اور افتخار کا علاج ہو جائے۔

مگر یہ بات کہ ابلہ حکومت ہے اور حکومت ابلہ ہے ذہن میں ایسے گھسی کی امید مر گئی۔

ایسے میں وہ یاد آ گئے۔ ہمت کر کے ان کا نمبر ڈائل کر دیا۔

اس کے بعد امید سی بندھ گئی اور انتظار کرنے لگا۔ شگفتہ کے فون بھی آتے رہے اور میں اسے تسلی دیتا رہا کہ ابھی آتا ہوں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا میری پریشانی بڑھتی جاتی۔ ابھی پریشانی نے مایوسی کی طرف سفر آغاز کیا ہی تھا کہ ان کا ایلچی آن دھمکا۔ ایلچی نے ہی آنا تھا، وہ خود کہاں آتے جاتے ہیں۔ اگر وہ خود آتے تو میں ذرا زیادہ خوش ہوتا لیکن افتخار کے علاج کا بندوبست ہو گیا اور اچھے اچھے کمبل بھی مل گئے۔ اتنے اچھے تو تھے جنھیں دیکھ کر کم از کم شگفتہ ناک تو نہیں چڑھاتی۔ ڈاکٹر اور ایمبیولینس لے کر میں شگفتہ کے ہاں پہنچا اور جیسے ہی میں اس کے گھر میں داخل ہوا، اسے افتخار کو بازووں میں لپیٹے سسکتے دیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی شگفتہ بین کرنے لگی اور کہنے لگی

میری بار اتنی دیر کیوں کری؟

میں اب کیا جواب دیتا۔ دیر تو ہو گئی تھی۔ اگر خود کچھ ہاتھ پاؤں مارتا تو نہ ہوتی۔ ان کے بھروسے پر منتظر رہا اور دیر ہو گئی۔ 

انھوں نے بھی خوب بدلہ لیا مگر شگفتہ اور افتخار کا اس میں کیا قصور تھا۔

میں یہ سوچ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ اچانک میری نظر ان پر پڑی۔ وہ بھی ایک کونے میں راکنگ چئیر پر بیٹھے تھے۔ صاف نظر نہیں آ رہے تھے۔ صاف نظر آتے بھی نہیں۔ میں نے سوچا ذرا ان کا حساب تو لوں لیکن ارادہ بدل گیا۔ ان سے چھپا ہی کیا تھا کہ کچھ گِلہ کرتا۔ سو چا چلو دیکھنے آئے ہیں، حالتِ زار، دیکھ لیں۔ اب کیا فرق پڑتا ہے۔

یہی سوچ رہا تھا کہ فضاء میں نا گواری سی پھیل گئی۔ اور وہ اٹھ کر جانے لگے۔ وہ کب نا گواریاں سہنے والے تھے، سو چلے گئے۔ اب میں نا گواری کے منبع کا متلاشی ہو کر نگاہیں ادھر ادھر گھمانے لگا۔

دیکھا تو دروازے پر پیرِ ظلمت کھڑا تھا۔ چہرے پر ایک کریہہ استہزائیہ مسکراہٹ لیے۔ مجھے یقین تھا کہ اب یہ کوئی گھٹیا حرکت کرے گا۔ اور یہی اس نے کیا۔ ہمارے علاقے کا ایک توہین آمیز اشارہ۔ مٹھی بھینچ کر اس نے دائیں بانہہ ٹیڑھی کی اور مٹھی آگے پیچھے ہلانے لگا۔ میں نے بھی درمیانی انگلی اوپر اٹھا دی اور پرے دیکھنے لگا۔ پرے کیا تھا، افتخار کو سینے سے لپٹائے بین کرتی شگفتہ۔ میری آنکھیں نم ہونے لگیں۔ نم ہوتی آنکھوں کو معشوقۂِ جاں فزا نمبر سات کا یہ ڈائیلاگ یاد آ گیا جو اس نے بے وفائی کے جواز کے طور پر تراشا تھا۔ ‘تم جیسے بے حس سنگ دل شرابیوں کو پھول جیسے بچوں کے کب دکھ ہوتے ہیں؟ میں ابھی ایک مرد کو دیکھ آئی ہوں جو ایک بچے کے قتل کے دل خراش صدمے میں زار و قطار روتا رہا ہے۔ یہ ہوتے ہیں مرد، یہ ہوتے ہیں انسان، اور یہ ہم ہیں تم نہیں ہو۔

اس نا کامی پر وہ بات یاد آئی اور سوچنے لگا کہ ہم کہاں کے انسان؟ انسان تو وہی میڈم اور زار و قطار رونے والے مرد ہی ہیں، ہمارا رونا کہاں بنتا ہے۔ بس ہر دفعہ کی طرح جو اچھا ہو سکتا ہے، اس کو کچھ اور اچھا کرنے کی کوشش کریں گے جو وہ میڈم اور اور ان کی ہم دردیاں جیتنے والے کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔ بس زار و قطار روتے رہتے ہیں، پیسے بناتے رہتے ہیں، نام کماتے رہتے ہیں۔ ہمارے حصے میں اتنے خلوص کے باوجود نا مرادی ہی ہاتھ آتی ہے اور پھر یہ بھی جو ابھی اٹھ کر چلے گئے ہیں، یہ بھی تو مدد نہیں کرتے۔

اچانک یاد آیا کہ شگفتہ تھوڑی بے وقوف اور بے حد جذباتی بھی تو ہے۔

یہ تم کیوں بین کر رہی ہو؟

دیکھ نہیں رہے پاگل؟

میں دوڑتا ہوا باہر گیا اور ڈاکٹر کو لے آیا۔ ڈاکٹر سیدھا افتخار کی طرف گیا۔ اس کا اس نے معائنہ کیا۔ نبض وغیرہ چیک کی۔ تھوڑی دیر میں یہ خبر آ گئی کہ افتخار تو زندہ ہے۔ یہ خبر سن کر شگفتہ خوشی میں سسکنے لگی۔

یارا، یہ تو کرامت ہو گئی؟

کیسی کرامت؟ بس تم بے وقوف ہو۔

اور میں نے مسکرا کر دروازے کی طرف دیکھا۔ پیرِ ظلمت گھبرایا ہوا پلٹنے لگا تھا۔ اس دفعہ میں نے مٹھی بھینچ کر بانہہ ٹیڑھی کی اور اسے آگے پیچھے ہلانے لگا۔

لیکن اس کے با وجود میرے ان سے تعلقات اچھے نہیں ہوئے کہ اور وجوہات بھی بنتی گئیں۔ وہ شاید سوچتے تھے کہ مجھے بس متشکر ہی رہنا چاہیے اور میں اس معاملے میں کچھ اتنا اچھا نہیں ہوں، اس لیے میں نے ناراضی کی اور وجوہات تلاش کر لیں۔

لیکن ہمارے درمیان ایک بات طے ہو گئی کہ شجرِ ظلمت سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس بات کی تفہیم اور فردا کا آپس میں ایک گہرا ناتا ہے۔ ام

ید ہے کہ آپ بھی اس بات کی تفہیم کی کوشش کریں گے۔