میں راستی نہیں راست فاطمہ ہوں

منزہ احتشام گوندل

میں راستی نہیں راست فاطمہ ہوں

کہانی از، منزہ احتشام گوندل

اس کی میت صحن میں پڑی ہے۔ سارے گھر کو سناٹے نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ وہ لڑکی مرگئی ہے جسے سب سے زیادہ دکھی میں نے کیا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ مربھی سکتی ہے۔ اسٹریچر سے اس کی میت کو چارپائی پر منتقل کیا جارہا ہے۔ ایسے میں اس کے بال بکھر رہے ہیں۔ اس کے لمبے، سیاہ اور ریشمیں بال، وہ زندہ تھی تو تب بھی اس کے قابو میں نہیں تھے اب تو وہ مرگئی ہے، حیرانی ہے کہ اس کی زلفیں ابھی بھی زندہ ہیں لہراتی اور ہلچل مچاتی ہوئی۔

میں دیکھ رہا ہوں اگرچہ اس کے بہت قریب آ کے اسے دیکھنے کا حق نہ مجھے تب تھا جب وہ زندہ تھی اور نہ ہی اب ہے جب کہ وہ مرچکی ہے۔

میں اس گھر کی چھت پہ کھڑا ایک روزن سے اسے دیکھ رہا ہوں۔ وہ اسے اسٹریچر سے چارپائی پر منتقل کرچکے ہیں۔ اس کی ادھ کھلی آنکھوں کے نیچے اس کی ناک پھیلی ہوئی لگ رہی ہے۔ جب وہ زندہ تھی تو اس کی ناک ایسی ہرگز نہیں تھی، بلکہ بہت استوار اور ستواں تھی، یہ ناک ہی تو تھی جس کی خوب صورت تشکیل کے کارن اسے ہر تکبر اور نخرہ جچتا تھا۔

اب رونا پیٹنا اور آہ و بکا شروع ہو چکی ہے۔ میں اس کے ہاتھ دیکھنا چاہتا ہوں مگر عورتوں نے اب اس کی میت کو گھیر لیا ہے۔ جسموں کی دیوار کے درمیاں اس کا ساکت وجود لاچار پڑا ہے۔ دکھ ! ہائے یہ کس بلا کا نام ہے؟

میں کوئی دکھ محسوس نہیں کررہا ہوں۔ راستی مرگئی ہے۔ جسموں کی دیوار کی اُوٹ میں، میں یہاں سے اب ہٹنا چاہتا ہوں مگر کیا ہوا ہے کہ میری ٹانگوں کو فرش نے جکڑ لیا ہے۔ اب مجھے گِھسٹ کے کہیں جانا ہے۔ کہاں جانا ہے؟

کہیں نہ کہیں تو جانا ہے۔ میں اس کے گھر کی چھت پہ کب تک کھڑا رہ سکتا ہوں، کبھی نہ کبھی تو مجھے دیکھ ہی لیا جائے گا۔ راستی میرے والد کے گھر کے قریب رہتی ہے۔ وہ گھر میرے والد کا گھر اس لیے ہے کہ میں اب وہاں نہیں رہتا، باپ نے ایک سال قبل مجھے عاق کردیا تھا، میری ماں میرے بچپن میں عدم کو سدھار گئی تھی کیونکہ اس کی بچہ دانی میں زہر پھیل گیا تھا۔ جب میں تھوڑا سا بڑا ہوا تو میں نے اپنی پُھوپھی کے مُنھ سے بچہ دانی میں زہر پھیلنے سے متعلق سنا، وہ ہماری ہمسائی اماں روشن کے ساتھ باتیں کررہی تھیں۔

اماں روشن راستی کی ماں ہیں جو اس وقت اس گھر کے قنات کے نیچے ڈھکے صحن میں راستی کی میت کے سرہانے بیٹھی سینہ کوبی کر رہی ہیں۔ بھاری بدن کی بطخ کی طرح مٹک مٹک کے چلتی اماں روشن کے چہرے پہ اذیت ہے۔ اس کے بعد کی باتیں مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے اپنے کوارٹر پر پہنچا ہوں۔

رات کا پہلا پہر بیت رہا ہے۔ طاہر کمرے میں نہیں۔ میں جانتا ہوں وہ اس وقت کہاں ہوگا۔ دکھ کو بھلانے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ اس نے کسی عورت کے کپڑے اتارے ہوں گے، اور عورت کی عُریاں چھاتی میں مُنھ دبا کے پھوٹ پھوٹ کے رونے کو بے قرار ہوا ہوگا، بھلا یہ غم کو بھلانے کا کتنا موثر طریقہ ہے۔ پیشہ ور عورت حیران ہورہی ہوگی، وہ بدن کے معاملے کو دماغ کے ساتھ کیسے سمجھے اور اگر اس کے کاروبار کے بیچ جذبات آنے لگیں تو کاروبار کا کیا ہو۔

ہم دونوں راستی کے گرد گھومتے تھے وہ راستی سے محبت کرتا تھا اور راستی مجھ سے۔ یہ شخص جو ہمیشہ سے میرا دشمن رہا ہے آج کی رات غم میں میرے ساتھ تھا۔

کیا غم دشمنی بھلا دیتا ہے؟ یا دشمنوں کا بھی سانجھا ہوتا ہے؟ کیا ہم دونوں کو خوش نہیں ہونا چاہیے کہ وہ درمیان سے نکل گئی جو ہماری مشترکہ پھانس تھی۔

عالم! عالم! اس نے مجھے جھنجھوڑا۔ وہ حواس میں نہیں ہے۔ طویل اور تاریک رات بیت گئی ہے۔ باہر کہیں سحر کے آثار ہیں۔
تم ساری رات کہاں تھے طاہر؟

عالم! جانتے ہو گولی اس کی دائیں چھاتی میں لگی تھی۔

کیا؟

میرے جسم کا ایک حصہ کٹ کر الگ ہوگیا ہے۔ اس کی چھاتی میں لگی تھی گولی ۔۔۔ گولی، گولی، گولی، چھاتی، چھاتی، چھاتی گہرے سیاہ اور لمبے بالوں والی میری محبوبہ جس کی چھاتیاں بہت خوب صورت تھیں۔ طاہر! کیا یہ طاہر جانتا ہے کہ میں اس کی ۔۔۔۔ اس کا بھائی، راستی، گولی، چھاتی، میں عالم ایک نامکمل اور بے بس مرد، طاہر کیا کائنات ہم چند عناصر سے باہر بھی ورود کرتی ہے۔

میری سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ گولی کہیں اور بھی لگ سکتی تھی۔ مگر گولی وہیں کیوں لگی۔ میرے ہاتھ اور ہونٹ آبلوں سے بھر گئے ہیں۔ تیز گرم ابلتا ہوا پانی میری آنکھوں کے ڈیلوں کو چیر رہا ہے۔
ہاں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتا چلا ہے، طاہر کی ٹھنڈی آواز آتی ہے۔ یہ شخص جو اس کی محبت میں مبتلا تھا کتنا پرسکون لگ رہا ہے اور میں، جسے وہ محبت کرتی تھی کتنا بد حال ہوں اس وقت۔

پوسٹ مارٹم کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ مجھے لگتا ہے میں اتنا چیخ کے بولا ہوں کہ میرے پھیپھڑے پھٹنے لگے ہیں۔ جب وہ سب کے سامنے اپنے بھائی کو بچاتی ہوئی اپنے بھائی کے دشمن کی گولی کا نشانہ بنی ہے۔ پھر پوسٹ مارٹم کی کیا ضرورت تھی۔ کیا ضروری تھا کہ اس کا ان چھوا بدن کند اوزاروں سے چیرا جاتا۔

طاہر نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر لٹا دیا ہے۔ ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک بیالیس انچ چوڑا سینہ لیے میں کسی مُردہ چھپکلی کی طرح بے بس اور بے جان پڑا ہوں۔ سوچیں میرے دماغ کے کسی گہرے خانے میں شگاف ڈال رہی ہیں۔ میری انگلیوں کی پوریں اس کے چہرے کی جلد کی نفاست سے آشنا تھیں، بے قابو بال اور اس کی کمر کا خم۔۔۔ ۔

راستی! تمہاری چھاتیاں کتنی مکمل ہیں، نہ زیادہ بڑی نہ چھوٹی ۔۔۔۔ اس نے گھبرا کر میرے چہرے کو دونوی ہاتھوں سے دور دھکیل دیا تھا۔

کتنی سخت ہے تمہارے چہرے کی روئیدگی، میرے گال چھیل دیے ہیں تم نے۔ اس کی آنکھوں میں شکایت تھی۔ وہ پہلا دن، پہلا موقع اور پہلا سبق تھا کہ عورت روح کے جتنی قریب ہو اتنا ہی لفظوں سے بِدکتی ہے۔ وہ نرم لمس، گرم سانس اور جسم کے اندر سے ابل کر بہتی روح کے متوازی چلتی ہے۔ میرے اندر حیوانی جذبے تھے اور میں بڑبولا تھا۔ وہ دور ہوگئی اور پھر نکل گئی۔

زندگی سے کسی کا نکلنا کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے؟ وہ زندگی سے نکلی نہیں، بلکہ زیادہ سرایت کر گئی ہے۔ طاہر ان دنوں میری معلومات کی رسائی میں نہیں، مجھے کبھی خواہش بھی نہیں ہوئی اس کے بارے میں جاننے کی کہ وہ کہاں ہے اور کیا کرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے وہ جیتا ہوا اور میں ہارا ہوا شخص ہوں۔ راستی کو سب سے زیادہ دُکھی میں نے کیا۔ اگر مجھے ادراک ہوتا کہ وہ ایک دن اچانک مر بھی سکتی ہے تو میں ساری کائنات چھوڑ کر اس کی آرزوؤں کی تکمیل کرتا۔ یہ دکھ اب میرا کلیجہ کاٹتا ہے۔


مارچ کے ابتدائی دنوں کی روشن دھوپ میں کھلے آسماں کے نیچے لیٹے لیٹے میں نے فضا کی وستعوں کو کھنگالا، دور دور تک کسی ذی روح کا نشاں تک نہ تھا سوائے ایک چیل کے جو بہت بلندی میں کسی قدر کاہلی سے اڑ رہی تھی۔
کاش میں بھی ایک چیل ہوتا

ایک پرانا خیال میرے اندر عُود کر آیا، بلندی سے دنیا کو دیکھنے کا یہ خیال مجھے ہمیشہ سے لاحق رہا تھا کہ میں کسی دوسرے سیارے پر بیٹھ کے دنیا کو دیکھوں۔ دوری سے یہ کیسی لگتی ہے۔ دوری سے دنیا کتنی پست، اور لایعنی لگتی ہوگی، لیکن ایک چیل کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنا زیادہ مضحکہ خیز ہے۔

اماں ٹھیک ہی کہتی ہیں، بے کاری انسان کو پاگل کردیتی ہے۔ اور میں تو ویسے بھی پاگل ہوں۔ میری ذات کو صرف بے کاری نہیں ہجر کا روگ بھی لاحق ہے۔ میں اماں کو کیسے بتاؤں کہ میرا بدن پچھلے کچھ مہینوں میں ایک بند قبر کے اندر کیسے چیتھڑا چیتھڑا ہوا ہے۔ کیسے میں نے ایک ایک کیڑے کی کربلاہٹ اپنے بدن کی ایک ایک نس میں محسوس کی ہے۔ سر سے لے کر پاؤں تک میں اپنے بدن کی decomposition میں پورے حواس کے ساتھ شامل رہا ہوں۔

چیل اوپر خلا میں اڑتی ہوئی نیچے زمین پر اپنی مٹیالی زرد گول آنکھوں سے کیا دیکھ رہی ہے۔ کیا چیل دیکھ سکتی ہے کہ نیچے یہاں میں لیٹا ہوا ہوں اور میرے سینے میں مٹتی ہوئی ایک لاش کی ہڈیاں ہیں۔ کیا چیل دیکھ سکتی ہے کہ نیچے زمین میں ایک قبر ہے جس کے اندر موجود میت رفتہ رفتہ معدوم ہورہی ہے۔

وہ ایک لڑکی ہے “راست فاطمہ” میں جس سے محبت کرتا تھا۔ وہ میرے پورے قالب کی انتہائی گہری سطحوں میں ایسے سرایت کرگئی تھی کہ مجھے کبھی نہیں لگا کہ اس کے علاوہ بھی میں کسی عورت کو چاہ سکوں گا۔ میرے تینوں خانے ان چھوٹی چھوٹی ریڈیائی چپوں سے تشکیل دیے گئے تھے جن میں ایک ہی شبیہ اترتی تھی۔

میں کہاں ہوں؟ شعور کی لچکیلی سطح سے کہیں آگے چلا گیا ہوں۔ جہاں کروڑوں مچھلیاں ایک وسیع سمندر میں تیر رہی ہیں، یا ایک خلا ہے جس میں کئی چیلیں اپنی مکار آنکھوں سے نشانہ لگائے اڑرہی ہیں۔

“راست فاطمہ” سے میں نے محبت کی۔ سر تا پا وہ میری الوہی خواہشوں کا دہکتا الاؤ تھی، مگر اس کا عجیب مسئلہ تھا۔ وہ لڑکی بہت سیدھ میں چلتی تھی۔ اس بالوں بھری سنڈی کی طرح جسے باہر سے کوئی تنکا چھو جائے تو وہ یک دم اپنے آپ میں سمٹ جاتی ہے اور اپنے اندر کی مرضی سے چاہے تو کسی جامن کے تنے پہ بڑے جاہ و جلال کے ساتھ چڑھ جائے۔

میں اس کے لیے وہ تنکا اور “عالم” وہ جامن کا پیڑ تھا جس پہ وہ اپنی من مرضی سے سوار ہونا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش اور خوشیاں مجھے عزیز تھیں اور ایسا اتنی آسانی سے نہیں ہوا، بلکہ اس دست برداری کی راہ میں کئی بار میں نے خون تھوکا۔ مجھے ایسے لگتا تھا جیسے میرا لہو کسی نالی کے ذریعے کھینچ کر عالم کے قدموں میں ڈالا جارہا ہو۔

مرنے والوں کا اتنا غم کون کرتا ہے۔ میں تو بس سوچتا ہوں۔ “راست فاطمہ” مجھے اپنے آس پاس ہی محسوس ہوتی ہے۔ اور جب سے اس کے بدن کے ریشے گل سڑ کر اسے دوبارہ مٹی بنا چکے ہیں میں اس تربت کے تاریک مگر ٹھنڈے گڑھے میں نیا جنم لے رہا ہوں۔


ہم تین ہیں۔ راستی، روشی اور دوسی۔ راستی یعنی میں راست فاطمہ، روشی یعنی روشن میری ماں اور دوسی یعنی فردوس میرا باپ، باپ کی سلب سے ماں کی رحم تک کا سفر دیکھوں تو ایک جھٹکے یا لحظے کا ہے، مگر اس ایک لحظے نے کئی زندگیوں پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالا ہے۔ روشی میری ماں اور دوسی میرا باپ، اب زندگی کے زنداں میں ستم سہہ رہے ہیں۔ جبکہ یہاں میں کروڑوں حشرات کے معدوں سے ہوکر مٹی میں ڈھل گئی ہوں۔

یہ بات مجھے بہت خوب صورت لگتی ہے، انسان حیات کسے کہتا ہے؟ اس قید خانے کو جس کی اسیری میں وہ اکڑا پھرتا ہے۔ قاعدے، قانون، ڈر اور خوف جانے کون کون سی بندشیں ہیں جن کی اسیری میں ہے۔ بدن کے کلبوت پہ متفخر، کاش میں اسے سمجھا سکوں کہ روح کتنی آزاد شئے ہے۔ کسی سرحد اور ویزے کے بغیر۔

اس دوپہر جب میرا عزیز بھائی اپنے بپھرے ہوئے دوستوں سے جان بچا کر بھاگتا ہوا گھر کے مین دروازے سے اندر داخل ہوا تو میں مشوش ہوئی، میں فوراً دروازہ بند کرنا چاہتی تھی کہ اچانک مجھے اپنی دائیں چھاتی میں تیز جلن ہوئی جیسے کسی نے لوہے کی سلاخ لال سرخ کرکے گھسیڑ دی ہو۔ اس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کیا ہوا۔ اب آنکھ کھلی ہے تو میں نے اپنی آزادی کی وسعت کو گھنگالا ہے۔ بہت دور اور بہت بسیط۔

ماں باپ کے بعد مجھے جو شخص یاد آتا ہے وہ طاہر ہے۔ جب میں خاک بدن تھی تو “عالم” میرے لہو میں چکراتا تھا مگر جب سے خاک، خاک سے ملی ہے عالم بھی کہیں خاک ہوگیا ہے۔ میں ہمیشہ سے ہی “راست فاطمہ” تھی۔ سمجھوتے اور اداکاری سے دور، دوست تو دوست رہے ماں باپ کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل تھا۔ یہ صرف میں جانتی تھی کہ جہاں میرے دل اور دماغ کی مرضی نہیں وہاں میں عورت سے ناعورت ہوجاؤں گی۔ مگر وہ نہیں سمجھتے تھے۔

سمجھتے بھی کیسے۔ کیا سمجھوتوں کے پروردہ لوگ بھی کبھی سمجھ سکے ہیں کہ محبت اور خواہش کیا چیز ہے۔ وہ اس میں اختصاص نہیں کر پاتے کہ سمجھوتے میں صرف جسم میسر آتا ہے روح کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، مگر انہیں سمجھوتے کے ساتھ بدن اور روح دونوں درکار ہیں۔ اس کے لیے تو اداکاری کرنی پڑتی ہے جو کہ میں نہ کر پائی کیونکہ میں راستی نہیں راست فاطمہ ہوں۔