آ بیل مجھے مار افسانہ : از، فرخ ندیم

آ بیل مجھے مار

آ بیل مجھے مار

افسانہ از، فرخ ندیم

’’واہ بار بریشو بڑا مال مارا ہے! کہاں سے آیا ہے یہ کالے بالوں والا بد بخت بچھڑا؟‘‘

’’دیکھنے میں تو یہ بچھڑا ہی ہے بڈھے کسان، مگر ہمارے لیے یہ گلیڈی ایٹر ہے، تم کیا جانو یہ کیا بلا ہے!‘‘

’’تو تم نے کوئی نیا کھیل شروع کردیا ہے ،آخر کہاں سے ملا ہے یہ معصوم گلیڈی ایٹر؟‘‘

ادھیڑ عمر بار بریشو نے داڑھی سے اوس صاف کرتے ہوئے سوال کی سیدھ میں جھونپڑی سے باہر کھڑے کسان کی طرف دیکھا جو صبح سویرے اپنے پالا مارے جسم کو تازہ دھوپ کی ٹکور کررہا تھا۔ اُونگھتے ہوئے برفانی ماحول میں جھونپڑی کی گود سے آنے والی تکلیف دہ آواز نے بار بریشو اور سانولے بچھڑے کے قدم گیلی یخ پگڈنڈی پہ روک دیے۔ بچھڑے کا ماس سہلاتے اور ہاتھ تلے ٹھنڈی جُھرجھری محسوس کیے بغیربار بریشو چڑھتے سورج کی سمت اشارہ کرتے ہوئے بولا،

’’ادھر سے …منڈی لگتی ہے… مگر تم کو مطلب ؟‘‘

’’وہ اس لیے‘‘ کسان نے اپنے سفید سر پہ ہاتھ پھیرکر تھوڑا سوچتے ہوئے کہا ’’سیانے کہتے ہیں کہ کر بھلا …ہو بھلا… اگر یہ سبق بھول جائے تو نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔‘‘

باربریشو نے پہلے مشرق اور پھر بچھڑے کو دیکھا ۔ اس کے بعد ایک آنکھ بند کرکے سورج کی طرف دیکھتے ہوئے بولا’’ابھی تک تو گھاٹے کاسودا میں نے نہیں کیا۔تم جلتے ہو میری سفارت اور میری ترقی سے۔ کمزور آدمی ہو نا ،اس لیے خطرات سے ڈرتے ہو،میری طرف دیکھ ،کل کیا تھا اور آج ایک کامیاب آڑھتی‘‘

کسان نے لکڑی کے ایک تختے پہ بیٹھتے ہوئے اور تاجرباربریشو کی آنکھوں اور داڑھی کو گھورتے ہوئے جواب دیا،

’’میں رہا کسان کا کسان اور میں اپنی محنت سے خوش ہوں ۔تمہارے آتشگیر کھیل کھلواڑ میری سمجھ سے باہر ہیں۔اگر تم سے ہمدردی نہ ہوتی تو چپ رہتا، وہ دیکھو پہاڑیوں کی گود میں درخت۔وہ سامنے جہاں تمہارے باپ کی قبر ہے۔ یہاں کبھی تمہاری جھونپڑی بھی درختوں سے باتیں کرتی تھی۔ ہم دونوں ان درختوں کی شاخوں میں جھولتے ہوئے پہاڑ ے یاد کیا کرتے تھے مگر ایک دن اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ تم دو دونی چار کے لالچ میں گاتے گاتے پہاڑ کے اُس پار اُتر گئے ۔ معلوم نہیں کیا ہوا ۔حالانکہ تم بھی میری طرح ایک سادہ سے کسان کے پُتر تھے۔‘‘

باربریشوکسان، قبر،کھیت اور اس درخت کو نظر انداز کرتے ہوئے اور اسکے بعد اپنے انتخاب کو فخریہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا،

’’تمہیں کیا معلوم پینڈوانسان ،جب یہ بچھڑا ایک خونخوار لڑاکا بیل بنے گا تو یہ پٹھا مالا ڈوس میں کیا تہلکہ مچائے گا۔ اس کرتب کی دہشت اور قیمت تمہارے ان خسی بیلوں سے کہیں زیادہ ہے جو خس و خاشاک پہ جگالی کر کے تمہیں خوش کردیتے ہیں۔ تم لوگوں نے ان کا استعمال سیکھا ہی کب ، یہ تمہارے اس کنویں کا پانی نکال کر فرض پورا کر دیتے ہیں اور تم سال بھر کے دانے کاشت کر کے سمجھتے ہو دنیا یہی کچھ ہے‘‘۔

کسان بار بریشو کو جانتا تھا۔ بڑبڑاتا رہ گیا کہ اس طرح کے خونی کھیل تماشے ہمیشہ چھُپے نہیں رہتے،اخبارات بھرے پڑے ہیں ایسی خبروں سے۔ شکر ہے میں نے اچھی تعلیم بھی حاصل کی اور تمہارے بہکاوے میں نہ آیا۔ مگر ہمیشہ کی طرح سنی ان سنی کرتا اور بچھڑوں کی تجارت کے نشے میں مدہوش تا جر اور اسکا سانولا سلونا بچھڑاکسان اور اسکا علاقہ پیچھے چھوڑتے چلے گئے۔

بیچارہ بچھڑا کچھ بھی نہ سمجھ سکا کیونکہ وہ صرف بچھڑی زبان سمجھتا تھا۔ بغیر سوچے سمجھے کوسوں دور چل سکتا تھا۔ بار بریشوکبھی شکر کبھی دانے اور کبھی آس پاس کے کھیتوں سے ہری ہری فصلیں کاٹ کر اسکو کھلاتا جا راہا تھا۔ جہاں کہیں چھوٹے چھوٹے پودے ملتے وہ انکو بھی اُکھاڑ کر بچھڑے کی ضیافت کرتا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک دو چوراہوں پر تو اس نے فانٹا اور مرنڈا سے بھی نونہال کی تھکن دور کی۔ یہیں، جہاں ایک چوراہے سے تھورا فاصلے پر چند گھروں پر مشتمل آبادی تھی اور دھوپ اوس چوس چکی تھی، ایک اخبار کا ٹکڑا اسکے ہاتھ لگا جس کو پڑھتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ لفظ سطر در سطر اس کی شریانیں کاٹ کھانے کو دوڑنے لگے۔ تحریر کچھ ایسی تھی کہ باربریشو کے ریشوں میں تھر تھلی مچ گئی۔ وہ بچھڑے کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے لگا جو اس کے سامنے بڑا ہو رہا تھا اور اس کے سینگ اتنے بڑے ہو رہے تھے جیسے بل کھاتے اژدہے پھنکارتے اس کی طرف بڑھ رہے ہوں اور اس کے سارے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہوں۔ یہ اس کا وہم تھا۔ اس نے سر کو جھٹکا اور بچھڑے کو چارہ دکھاتا آگے بڑھنے لگا۔ پہلے دوہرا اور پھر تہرا کر کے اس نے اخبار کے ٹکڑے کو اپنے سلوکے کی جیب میں ڈالا اور اپنے اٹل تجارتی نظریے کی لذت میں خود کلامی کرتا ہوا بڑے تجارتی شہر مالاڈوس پہنچ گیاجہاں کمپنی کے باقی دوست یاگونی، ایڈمنڈی، شائی لا کوت، میک لالو، ذولمیچی، گردینو، بیگلینو، فتنارتھی ( لوگ اس کو عرف کالی سنڈی بھی کہتے تھے) بِن ہائنا اور بوبی نازپاونڈکی اس کے انتظار میں کرنسی کی صلیبی جنگ پربحث کررہے تھے۔ فتنارتھی جسے عرفِ عام میں کالی سُنڈی کہا جاتا تھا،ٖ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے لوسی فیرو کا منشور پڑھ کر سنا چکی تھی کہ عالمی منڈیوں میں عزت طاقت کی ہے اور طاقت اپنے روپ بدلتی رہتی ہے۔ اس دور میں طاقت بیل کے سینگوں، اس کی رانوں، کھرُدرے کھرُوں، اس کے سخت سینے اور اس کے موٹے دماغ میں ہے۔

زمانے کی گاڑی کو بیل کے پیچھے اور بیل کو زمانے کے پیچھے لگائے رکھو۔ اور ہاں، آئندہ جو بھی جنگ ہو ہمیشہ کرنسی کے ریٹ پہ لڑی جائے گی۔ ایک موت ہمارے سِکہ کی تو سو کے قریب دشمن کی۔سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ بولتی جا ر ہی تھی کہ فی الحال بیل ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ ہماری بے پناہ اور ہمیشہ بڑھتی ہوئیunipolar طاقت۔ اسی کی خدمت میں ہم سب کی عظمت اور عافیت ہے ۔ یاد رہے کہ تناسب ہر حال میں برقرار رہنا چاہیے وگرنہ لوسی فیروکے فیصلوں کا ہم سب کو بخوبی علم ہے۔ اسکے تحفظات بھی ہیں کچھ… دور نہ کیے گئے تو سمجھ لینا ٹھیکہ ختم۔ دنیا میں ایک ہی کمپنی نہیں۔ کئی ہیں جو لوسی فیرو کے ایک اشارے کی منتظر ہیں۔ ہم سب کا انتخاب میرٹ پہ کیا گیا ہے۔ ہم نے ہر حال میں اپنی پرفامنس شو کرنی ہے اور تمام ٹارگیٹس اچیو کرنے ہیں۔ تاکہ ٹھیکہ کلچر کو مزید پانچ سال کی ایکسٹینش مل جائے ۔ yesکہتے ہوئے دو تین دفعہ اس نے اپنے سر کو اوپر نیچے حرکت دی اور میٹنگ برخاست کردی گئی۔

یہ تقریباََ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا جب باربریشوتھکا تھکا ، پاؤں گھسیٹتا ہوا مگر خوش اور مطمئن مالاڈوس شہرکی سب سے بڑی حویلی پہنچ گیا جس کی ایک بڑی دیوار پر اتحاد بین العالمین لکھا تھا۔ غلام گردش میں کھڑے پہرہ داروں کو بچھڑا تھماتے ہوئے تھوڑی دیر میں وہ ہم خیال دوستوں کے پاس پہنچ گیا۔ بچھڑے کی آمد کی خبر ملتے ہی سب نے دستر خوان کا رُخ کیا۔ کھانے کے دوران عالمی منظر نامے میں اپنی خفیہ کمپنی یاگونی گروپ آف فیٹل انڈسٹریز کی اہمیت اور کردار پہ روشنی ڈالی گئی۔ اس کے بعد ”بیل پذیر” اور ” بیل یافتہ” خطوں کے درمیان فرق واضح کیا گیا اور سٹاک ایکسچینج میں Bullish رجحان کی خاطر بچھڑے کے عالمی اور تاریخی کردار پر واہ واہ کی گئی۔ باربریشو اور میک لالُو کی خدمات کے صلہ میں اُنہیں امن کا سب سے اہم انعام دلوانے کی سفارش بھی طے کی گئی۔ کھانے کے بعد سب دوست بچھڑے کو دیکھنے اور اس کا تعارف گھروں سے بچھڑے ہوئے دوسرے بچھڑوں اور تربیت یافتہ بیلوں سے کروانے اکھاڑے پہنچ گئے۔ نئے مہمانوں کی رزمیہ تربیت کے لیے گردینو کو مامور کر دیا گیا تھا۔ ایڈمنڈی نے تو کھڑے کھڑے اس کی اور باربریشوکی مراعات میں اضافہ کردیا ۔ اسی دوران تربیت یافتہ بیلوں کو شہر کی گلیوں بازاروں میں دندنانے کی تاریخیں بھی پکی کی گئیں۔ فتنارتھی کی بات دہرائی گئی کہ کسی بھی قسم کی گڑبڑکا مطلب ہے سامری لوسی فیرو کے عذاب کو دعوت دینا۔ بار بریشو نے اس اخبار کا ذکر بھی کر ڈالا جس میں نئی معاشی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کی گئی تھی۔ پھر اس نے اس کسان کے بارے بھی بتایا جو اسے راستے میں ملا تھا۔ کوئی قہقہہ نہیں لگا۔ سب کے سب سنجیدگی سے دیواروں پر چسپاں چارٹرز اور بچھڑوں بیلوں کی تصاویر دیکھنے لگے۔ بوبی ناز پاونڈ کی جانتی تھی کہ ماحول کو خوش گوار کیسے بنانا ہے۔ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی،

’’ٹینشن لینے کا نہیں… دینے کا ہے‘‘

اس جملے نے سوائے فتنارتھی کے سب کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیر دی۔

’’تنقید کا راستہ کرنسی کی طاقت روکتی ہے۔ ہم خیال لکھاریوں کے خوابوں کی تکمیل ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے رائے عامہ ہموار ہو سکتی ہے۔ ہر جگہ انوسٹمنٹ کی ضرورت ہے ۔ ورنہ بنا بنایا کھیل ختم ہو جائے گا‘‘ فتنارتھی سب کی طرف سنجیدگی سے نظریں گھماتی سوچنے لگی۔ ایک بار پھر خاموشی ایسے چھا گئی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔

’’دوسری اہم بات یہ کہ اپنی صفحوں میں اتحاد برقرار رکھنا ہوگا۔ عالمی منڈیوں میں اپناثرورسوخ بڑھانے کے لیے بچھڑوں بیلوں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی ضرورت ہے ۔سب سے اہم مقصد mutual interest ہے ۔ کھیل کا کنٹریکٹ ہی کچھ ایسا ہے۔ اس کے لیے آلِ بیل سے کوئی بھی بیل ہو یا بچھڑا،چلے گا۔ ان کی تربیت ایسی کی جائے کہ دنیا کا ہر کھیل اپنی اہمیت کھو جائے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اس کے sharesخریدیں اور ہماری کمپنی دنیا کی بے مثال تجارتی کمپنی بن جائے‘‘ ایڈمنڈی اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔ اس کے ساتھ ہی سارے لوگ اپنے اپنے فرائض سنبھالنے لگے۔

اس طرح، روایت کے مطابق ، ایک ایک کرکے تربیت یافتہ بیلوں کو بھرے بازار میں کھلا چھوڑ دیاجاتا۔ اپنی تربیت اور دستور کے مطابق جب یہ تورو بیل زہربھری رفتار سے خاص وعام کو روندتے ہوئے اور پھر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچتے تو عالمی سطح پر تہلکہ مچ جاتا۔ یہ عجیب و غریب رسم کبھی کھیل کبھی تماشے کی صورت عا م انسانوں کی تفریح اوران کی ذہن سازی کے لیے طرح طرح سے پیش کیے گئے۔ کہیں کہیں سے سوالات بھی سر اُٹھاتے۔ کیونکہ بھرے بازار میں نوکیلے سینگوں والے بیلوں کو بے لگام کر دینا عام آدمی کی فہم سے باہر تھا۔ سول سوسائٹی کا مزاج چیک کرنے کے لیے بھی کئی بار ان تماشوں کا اہتمام کیا گیا۔ یاگونی بار بار تاکید کر رہا تھا کہ ہماری کامیابی حالات قابو میں رہنے سے مشروط ہے۔ چا ہے کچھ بھی ہو جا ئے۔ سکرپٹ کے مطابق ان کھیل تماشوں میں کئی بیل نقصِ امن اور فساد فی الارض کی علامت ٹھہرائے گئے ۔ بیلوں کی تخصیص بھی کی گئی، اچھے بیل اور برے بیل۔ اچھے بیل وہ ٹھہرے جو گلیوں بازاروں میں سنسنی اور تباہی پھیلانے کے بعد واپس اکھاڑوں تک پہنچ جاتے۔ اوربرے… وہ جو تباہی مچاتے منہ زور ہوجاتے اور پہاڑوں کی غاروں میں چھپ کر غارت گری اور وار کرتے۔

جگہ جگہ ان کی تصاویر چپکائی گئیں اور ایسی ایسی خصوصیات سے تصاویر کھینچی جاتیں کہ بعض اوقات تو گلیوں، بازاروں، اور سڑکوں پر دند ھناتے ہوئے خودبیل بھی اپنے آپ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے عوام کو باخبر رکھنے کے لیے باقاعدہ تنطیمیں تشکیل دی جاتیں اور ساتھ ساتھ ان کو پکڑنے والی ٹاسک فورس اور آخری خونی کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تشہیر بھی کی جاتی تاکہ سپر ہیروز کے لیے زیادہ سے زیادہ ہمدردی اور بجٹ اکٹھا کیا جاسکے۔ ماہر لسانیات سے رابطہ کیا جاتا تاکہ ایسے مرکبات اور اسمِ صفت استعمال کیے جائیں کہ سنسنی کالے بادلوں کی طرح مشرق، مغرب، شمال اور جنوب پھیل جائے ۔ ایک اخبار کی تحقیق کے مطابق کچھ چتکبرے بیل ایسے بھی ہیں جو اُڑ کر اُڑن تشتری کو اپنے سینگوں پہ اُٹھالیتے ہیں۔ ناسا کی رپورٹ کے مطابق مریخ پر انسانی زندگی ممکن نہیں کیونکہ کچھ علاقوں میں بیلوں نے سینگ کاشت کر دیے ہیں۔ مشہور چینل کی breaking newsکے مطابق کئی بیل ایسے بھی ہیں جو بندوں کے نمبروں کے مطابق جوتا پھینک سکتے ہیں۔ مزاح نگاروں نے تو حد کردی۔ پچھلے دنوں ایک ڈرامہ اسٹیج  ہوا جس کا دلچسپ نام تھا۔a  bull in need is a bull indeed ۔ ایک غیر سرکاری ادارے نے ایک شاعر بھائی سے بڑی دلچسپ نظم لکھوائی جس کا عنوان تھا bull bull ہزار داستان ۔ اس بیانیہ نظم میں کئی بار گل و bull bull کے درمیان مکالمے کوبڑے ڈرامائی انداز سے پیش کیا گیا۔

دیکھا دیکھی اور لوگوں نے بھی علم بیلیات میں اضافے کی خاطر نئے نئے محاورے بنائے اور تراکیب اختراع کیں ، جیسے:As you bull so shall you bull ۔ ایک دلچسپ فلم بھی بنائی گئی جس کا نام’ الٹے بیل حویلی کو ‘ رکھا گیا۔ ہیجان پھیلانے کے لیے بیلوں کو جنگلوں ، بیابانوں ، سمندروں، پہاڑوں اور صحراؤں میں سر کے بل گھومتے، سینگوں سے فٹ بال کھیلتے ،کھُروں سے خندقیں کھودتے،دُموں سے ٹینک کھینچتے، سوئی میں دھاگے ڈال کرٹوپیاں سیتے اور گِدھوں کوؤں کے ساتھ بیٹھے سرکش فاختاؤں کو زنجیروں سے جکڑتے ہوئے دکھایاگیا۔ پھرتی ایسی کہ اُڑ کر ہیلی کاپٹر کے پروں میں سینگ پھنسا دیتے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دھماکہ ہو جاتا۔ یہ دھماکے صرف خلاؤں میں ہی نہیں ہوتے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلائے جاتے ۔ اوّل سے آخر تک ساری حشرسامانیوں کے نقشے یاگونی اور میک لالو کی زیرنگرانی تیارہوئے۔ معاشیات کا شعبہ شائلاکوت اور داخلی امور ایڈ منڈی کے پاس تھے۔ منڈیوں کا بے تاج بادشاہ شائلاکوت جانتا تھا کہ بیل کی ایک ایک ٹکر میں کروڑوں کی آمدنی ہے۔ اسی لیے جب بھی کوئی بیل اس کے سامنے لایا جاتا اس کے سینگ اور کھُر لشکتے ہوتے۔ہر بیل کے آخری کھیل سے پہلے وہ ایک فقرہ ضرور بولتا کہ یہ تور و مالا ڈوس مارکیٹ میں بڑا سرپرائز دے گا۔ نئے تورو کو دیکھ کر بھی وہ فوراًبول اُٹھا تھا “اگلی مارکیٹ اور اپنی عزت تیرے ہاتھ میں ہے بھائی” ۔ میک لالو کے ہاتھ میں ایک لاؤڈ سپیکر رہتا اور وہ ہمیشہ ایک بیل گاڑی پر سوار رہتا۔

وہ جہاں چاہتا سلطانی رتھ اُس کو پہنچا دیتی۔ہر جگہ استقبال کرنے والے بھی پہنچ جاتے۔ رائے عامہ ہموار کے لیے اسے بھی دُور دراز کے خطوں میں بھیجا جاتا۔ یاگونی کے کہنے پہ اس نے سبھی وزارتوں کو circular بھجوا دیے کہ کہیں بچھڑوں یا بیلوں کے ہاتھ کوئی ایسی شے نہ لگ جائے جس سے یہ کچھ سوچنے پہ مجبور ہو جائیں۔ احتیاط کے طور پر اور بوقتِ ضرورت ان کی آنکھوں پر کھوپے بھی چڑھادیے جاتے۔ بوبی نازپاونڈ کی فتنارتھی سے مختلف تھی۔ دنیا کی خبروں پر گہری نظر رکھتی اور جہاں بھی کوئی کمپنی کے خلاف بات کرتا ایڈمنڈی کی طرف ذو معنی نظروں سے دیکھتے tit for tat بولتی۔ اس سے پہلے یہ نیشنل جیو گرافک کے چینل میں بچھڑوں اور بیلوں پہ اپنے انداز سے فلمیں بنایا کرتی تھی۔

اب اپنی کمپنی کی تشہیر کے لیے اس نے ایسے ایسے چٹخارے دار jingles اورمضامین تخلیق کیے کہ بڑے بڑے ماہر تاجر بھی shares خریدے بن نہ رہ سکے۔ اس کے علاوہ، بزنس کی خاطر، bottom to top اورپھر top to bottom communication کر لیتی تھی۔ اپنے خاص انداز بیاں کی وجہ سے وہ یاگونی گروپ آ ف فیٹل انڈسٹریز میں میڈیا coordinator بن گئی۔ فتنارتھی زہرخند مسکراہٹ اور حشربرپالگائی بجھائی سے ہر قسم کی منڈی میں ایسی ضرب لگاتی کہ سبھی آڑھتی بولیاں بھول جاتے ۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ کالی سنڈی کی طرح جہاں سے بھی اُڑتی ہوئی گزرتی، زمین کی جلد پہ دھپڑ پڑ جاتے ۔ بچوں کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں، جلدوں میں سوئیاں سی چبھتی محسوس ہوتیں، بھوڑے کھانس کھانس کر پاگل ہو جاتے ۔عورتیں سر پٹخنے لگتیں، گلیوں بازاروں میں بین ہونے لگتے، جوان بیلچے کدالیں لیے اونچا اونچا بول کر اپنے ساتھیوں کو جمع کر تے، مرنے والوں کو دفناتے اور اپنی قسمتوں کو کوستے گھروں کو لوٹ جاتے۔ اسی دوران باربریشو کو فتنارتھی اشارہ کرتی ۔’’تمہیں ان کی اور انہیں تمہاری ضرورت ہے۔ بیل بناتے جاؤ اور پھیلاتے جاؤ، نئی اسائنمنٹ مبارک ہو‘‘

گردینو اندھیرے اور رات کا بادشاہ،کسی بھی بچھڑے کو اپنی طرف راغب کرنا، مختلف قسم کے چارے اور دانے دکھا کر ان کی بھوک بڑھانا اور میلوں اپنے پیچھے بھگانا اس کے دائیں اور کبھی بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔اور تو اور وہ تو بگڑے اور منہ زور بچھڑوں کا منہ بند کرنا اور ان کو اکیلے ہی یا نتھ ڈال سکتا تھا۔ ان صلاحیتوں کی وجہ سے وہ ترّقی کرتا کرتا اتحاد بین العالمین تک پہنچ گیااور فنون حرب و ضرب پہ مامور کر دیا گیا۔ دن رات کی وفاداری نے اسے اس مقام تک پہنچا دیا جس کے وہ خواب دیکھا کرتا تھا۔ دریاؤں کے کناروں پربڑے بڑے پہاڑوں کے پاس چھوٹے بڑے باڑوں میں بچھڑوں اور بیلوں کو سینگ لڑانے کی مشقیں کرواتا ۔ جب وہ انتقامی عفریت بن جاتے تو بڑے بڑے ٹرکوں میں لاد کر انہیں گلیوں بازاروں میں کھلا چھوڑ دیا جاتا۔

شائلاکوت کے فرائض میں بھی سفارت کاری کے ذریعے دُور دراز کے علاقوں کے خطوں میں جا کر سیاست دانوں اور حکمرانوں سے ملاقاتیں کرنا تھا۔ اس کی زریں زنبیل ہمیشہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی۔ نمونے کے طور پر کچھ چیزیں عطیہ یا خیرات بھی کردیتا۔ انسان دوست اتنا کہ ہر قسم کے قرضے کو امداد کا نام دیتا اور تلقین کرتا کہ سود کو interestکہا جائے تاکہ لینے یا دینے والے کو ناگ وار نہ گزرے۔ جہاں بھی ٹھہرتا باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کے بعدمشترکہ حکمت عملی کو قوموں کے وسیع تر مفادات سے مشروط کردیتا۔ اس طرح کے جملے اس کے فرائض کا لازمی حصہ تھے۔ اس نئی kitchen cabinet میں بیٹھے اتحاد بین العالمین کے یہ سر کردہ دس ہزاریے کسی خدا کے سامنے جوابدہ نہیں تھے۔ ماسوائے لوسی فیرو کے جو غربی غرور سے مالا مال ہمہ وقت گلوب کو شہادتی انگلی پہ گھماتا رہتا اور جغرافیائی کمزوریوں میں زیادہ سے زیادہ بیلیاتی بفرزون پھیلانے کی تاکید کرتا تاکہ قرض اور اسلحہ کی exportجاری رہے۔بھائی لوگوں کی دنیا میں اسکی زندگی کا طمطراق بے مثال تھا۔ وہ ایسادیوتاسمان X-2تھا جس کے فیصلوں میں undoنہیں تھا۔ یاگونی گروپ آف Fatalانڈسٹریز کے عہدیداران بخوبی آگاہ تھے کہ مہاگرو لوسی فیرو کے ایک اشارے سے کسی بھی سیاسی ثقافت کا رنگ fuck ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اس کمپنی کے سب لوگ scriptکی روشنی میں جگراتے کاٹ کر دنیا کی زمینوں اور پانیوں پر بیلوں کے کھیل سے حشر برپا کرتے۔

نئے سانولے تورو کی دہشت ناک شر پسندی جب یاگونی کے کانوں تک پہنچی تو اس نے بلا تاخیر اس انتقامی عفریت کو گلیوں اور بازاروں میں بے لگام کرنے کا کاشن دیا۔ اسکے ساتھ ساتھ لوسی فیرو کی اشیرباد اور نئے کنٹریکٹ کا بھی لالچ تھا۔ جنگلہ کھلنا تھا کہ تورو بیل لوگوں کو روندتا ہوا شہر کے مرکزی چوک پہنچ گیا۔ جہاں جہاں خفیہ کیمرے نصب تھے وہاں سے اس کی شورش کو آسانی سے قلم بند کیا گیا۔ آہ و بکا کرتے ہوئے لوگ اس کے آگے بھاگتے جا رہے تھے ۔ زندگی میں پہلا موقع تھا جب اس تورو کو اپنے سینگوں کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اس کے خیال میں پوری کائنات کے حواس پہ بچھڑا ہٹ سوار تھی۔ رگوں میں دوڑتے ہوئے خون نے جسم کو اور بھی جولانی بخش دی تھی۔ تربیت کے کٹیلے سفر نے یہی سکھایا تھاکہ کروٹ کروٹ کافرکرگسی دل اور آنکھیں ہیں۔ استاد کہتے تھے کہ کرودھ کو شریر کی بیماری نہ بناؤ بلکہ کرہء ارض پہ جو بھی مخالف ہو بس کاٹ کے کلیجہ ٹھنڈا کرو۔ اس نے گنتی تو نہیں کی لیکن ایسا دکھائی دے رہا تھاکہ جو بھی کاٹ کی زد میں آتا ایک دلخراش چیخ اس کے گلے سے نکلتی اور آنکھیں بند ہو جاتیں۔

دوسری طرف جمع تفریق میں مصروف اتحادی یاگونی کی سربراہی میں نئی حکمت عملی ترتیب دینے لگے۔ باربار تاکید کی جاتی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کیونکہ کچھ صحافی اور لکھاری جب ان کے اعمال پہ تنقیدکرتے ہیں تو قلم کی نوک تلے سر کچلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سو جولائی کے حبس کا ایک منگل چنا گیا۔ اس سے پہلے لفظوں کی یلغار سے رائے عامہ خریدی گئی۔ علمائے (چہار) سُو کو ہر قسم کے فتوے کااختیاربھی رازداری سے دے دیا گیا۔ جنتا کے سیوک ایڑی چوٹی کا زور لگا کر راج نیتی کو bullishکرنے لگے۔ پوری شدت اور سلیقے سے سارے گلوب کو ہیجان بخشاگیا۔ سنسنی ایسی دبنگ کہ ہمارے محلے میں لوگوں نے گجنی دیکھنا بند کر دی کیونکہ کیبل پہ پٹی چل رہی تھی کہ گجنی بھی بیل کی ناف سے نکلا تھا۔ شا ئی لاکوت کوتو اسی دن کا انتظار تھا۔ ایک طرف تو اس نے کھیل کے ٹکٹوں کے نرخ بڑھا دیے دوسرا مخالفین کے خلاف بڑے بڑے بینرز جگہ جگہ لٹکا دیے ۔ کھیل کی coverageکے لیے کئی کمپنیوں کے ساتھ ٹھیکے کیے گئے۔ عوام کی سہولت کے لیے کریڈٹ کارڈز کی دل کھول کر تشہیر کی گئی تاکہ کوئی شخص اس کھیل کے ڈرامائی مناظر سے محروم نہ رہ جائے۔

بے پناہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ اپنے اپنے ٹکٹ دکھا کر ایک ایک کرکے تماشائی موت کے اکھاڑے میں داخل ہونے لگے۔ دُور دراز کے علاقوں کے لوگ اپنے گھروں میں ٹی وی اسکرینوں سے چپک گئے۔ مخالفین بھی بینرز اور ڈنڈے اُٹھائے اکھاڑے کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ان کی زباں بندی کے لیے پہلے ہی پلان بنا لیا گیا تھا۔ مگر وہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے باوجود اسٹیڈیم کے اطراف پھیلتے چلے گئے۔ پنڈال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ ایک دروازہ کھلا اور ان کی آنکھوں کے سامنے وہی تورو تھا جو کچھ دن پہلے سڑک پہ سینگوں سے گاڑیاں بسیں اُڑاتا دکھایا گیاتھا۔ جس ڈھب سے اسے تیار کیا گیا تھا اسی ڈھب سے وہ مقتل میں گیا۔ خوبرو گلیڈی ایٹر کی طرح۔

بعض لوگوں کو اس پہ ترس آ رہا تھا تو کچھ یہ سمجھ رہے تھے کہ سا رے خرابے کی وجہ یہی بدرنگا بیل ہے۔ اس کے سامنے چاروں طرف کچھ سپر ہیروز سیدھے ہاتھ میں لمبی لمبی مگر سیدھی تلواریں اور بائیں ہاتھوں میں رنگین کپڑے یا چادریں اُٹھائے کھڑے ہو گئے۔ تورو کچھ سمجھ نہ سکا۔ ایک شخص نے اس کی طرف سرخ چادر اُچھالی۔ تربیت کے مطابق اس نے چادر کی سیدھ میں سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔ اس طرح کہ سارا ہجوم wooo کرتا نشستوں پہ جھولنے لگا۔ تور و رُ ک گیا پھر دوسرے شخص نے سیاہ چادر اُچھالی۔ اب کی بار تورو غصے سے گرد اُڑاتا ہواکھلاڑی کی طرف لپکا۔ تربیت کے مطابق اسے سرخ اور سیاہ چادروں میں ملبوں اجسام کو چیرنا پھاڑنا تھا۔ مگر، یک لخت کوئی آہنی چیز اسے اپنے جسم میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ باہر، مارکیٹ میں، بُلش ٹرینڈ عروج پہ تھا۔ اس نے اپنی سمت بدلی اور تیسرے پر جھپٹا۔ پنڈال میں بیٹھے یاگونی کے منہ سے نکلی لمبی سی’ سی‘ کی آواز محسوس کیے بغیر اس نے ایک کھلاڑی کو ہوا میں اُچھال دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ بھی سینگوں کی سنگینی آزماتا ایک اور تلوار اس کی گردن میں اُتار دی گئی۔ ایڈمنڈی اور شائی لاکوت اُچھل اُچھل کر کھلاڑیوں کی بہادری کوداد دینے لگے۔شیئرز کی ویلیو ایسے بڑھنے لگی جیسے بڑے سے غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے۔

ان کے خیال میں رِٹ آف دا کمپنی قائم ہو چکی تھی۔ تورو لڑکھڑایا۔ سنسناتی ہوئی سنسنی میں اس سورمے کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اسے یہ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جگہ جگہ اس کے جسم سے کیا رِس رہا تھا۔ وہ لڑکھڑایا مگر کچھ سانس باقی تھے۔ پہلے کھلاڑی نے پھر اس کی طرف سرخ چادر اچھالی۔ تورو رُک گیا۔ جونہی وہ چادر کی طرف لپکا پھر کوئی چیز اسکا سینہ چیرنے لگی۔ خون آلود کھروں سے بے نیاز وہ تابڑ توڑ حملے کرنا چاہتا تھا۔مگر ہمت جواب دے رہی تھی اور آہستہ آہستہ بصارت بھی جواب دینے لگی۔ پھر لڑکھڑایا اور اس کے ساتھ ہی گھوڑے پر سوارکپتان ہوا میں جھنڈا لہرارہا تھا۔ بائیں طرف بیٹھے نوجوان لڑکیاں لڑکے تورو کی حالت دیکھ کر نعرہ بازی کرنے لگے۔ ان کے نزدیک ہر ذی روح کو سوچ کی آزادی، انصاف اور حق ملنا چاہیے ۔کھیل کود میں کساد بازاری کیوں؟ نو مور بلڈ، نومور بلڈ کے نعرے لگنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وی آئی پی لاؤنج میں جوتے گرنے لگے۔

شور ایسا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دے۔”مجھے لگتا ہے یہ بیچارا وہی بیل ہے جو کبھی معصوم سا بچھڑا تھا”، یہ آواز اسی بوڑھے کسان کی تھی جو بارڈر پر باربریشو سے ملا تھا۔ وہ بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل تھا اور کرسیاں اٹھا اٹھا کر پھینک رہا تھا۔ انتظامیہ بھاگتی ہوئی ان کی طرف آئی۔ اس بھگدڑمیں کسی نے بڑا دروازہ کھول دیا اور باہر پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی میں مصروف لوگ بھی انتظامیہ کو دھکیلتے ہوئے اسٹیڈیم کے اندر داخل ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی کھیل شدید ہنگامے میں تبدیل ہوگیا۔ تورو نے اس تماشے کو دیکھنا چاہا۔ لیکن وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا اور دھڑام سے زمین پر گرگیا۔اس کے نتھنوں کے قریب سے اُڑتی دھول لوگوں نے دیکھی۔ زور کی آندھی چلی اور غبار آلود غدر جیسے ماحول میں یاگونی گروپ  fatal انڈسٹریز کو سارا ٹھیکہ ڈوبتا محسوس ہونے لگا۔ بہت بڑی گڑبڑہو چکی  تھی۔ یاگونی، ایڈ منڈی اور میک لالو گلا پھاڑ پھاڑ کے کہہ رہے تھے control, control کنٹرول …دل کھول کر داد دینے والے بیگلینو اور باربریشوکے دل بند ہونے لگے۔

مبہوت شائلاکوت کو ایسے محسوس ہوا جیسے احتجاجیوں کے سینگ اسے گھسیٹتے ہوئے دیوارِ گریہ سے پٹخ رہے ہیں۔ سب وزارتیں سفارتیں آندھی میں اُڑتی محسوس ہوئیں۔”فلاپ مینجمنٹ” لوسی فیرو نے بڑی سی ایل سی ڈی پہ نظریں گھاڑتے ہوئے کہا اور موبائل پہ ایک نمبر ڈائل کیا۔ سینہ کوبی کرتی سیڑھیوں سے اُتر تی بوبی ناز پاونڈ کی نے کالی سیاہ گاڑی میں فتنارتھی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جو چند لمحوں میں غائب ہو چکی تھی۔ ایڈ منڈی کے داخلی امور بُری طرح پِٹے جارہے تھے۔ گردینو آنکھیں پھاڑے نیا تماشا دیکھنے لگا۔ بوبی موبائل فون پر چیخ چیخ کر ہیلو ہیلو پکار رہی تھی مگر، اسی اثنا میں کسی طرف سے بینڈ نے قومی ترانہ بجانا شروع کیا۔ آندھی تھمی۔دیواروں پرلگی بڑی اسکرینوں پہ منظر بدلا۔ گردنیں مُڑیں، اورمانوس سی آواز آئی،

Mis queridos compatriotas,”

جس کا اردو زبان میں ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے:

’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘