نامعلوم افراد کے’احسن طریقے‘ اور آزادیِ صحافت

عامر رضا
عامر رضا، صاحبِ مضمون

نامعلوم افراد  کے’احسن طریقے‘ اور آزادیِ صحافت

از، عامر رضا

اسلام آباد میں احمد نورانی پر حملے کے بعد ایک بار پھر یہ بحث ہو رہی ہے کہ ملک میں صحافی کتنا محفوظ ہے اور

صحافت کتنی آزاد؟

اس میں کوئی شک نہیں کی کہ ان 70 سالوں میں صحافت نے آزادی کے لیے ایک طویل جد وجہد کی ہے اور یہ جدوجہد ابھی تک جاری ہے۔ کارکن صحافیوں کی وہ تنظمیں جو کبھی صحافیوں کے حقوق اور ان کئ جد وجہد کے لیے بہت سرگرم تھیں اب وہ تھکاوٹ کا شکار نظر آتی ہیں۔

اس تھکاوٹ کی ایک وجہ سٹیٹ اور نان سٹیٹ عناصر کے صحافت پر دباؤ ڈالنے کے طریقوں میں تبدیلی بھی ہے۔

پہلے صحافیوں کو پتہ ہوتا تھا کہ ان پر دباؤ ڈالنے والے کون کون سے حربے استعمال ہوں گے۔

دباؤ ڈالنے والے ان پر ادارہ جاتی پریشر ڈالنے کی کوشش کرتے تھے، جن کا چہرہ اور نام پتہ معلوم ہوتا تھا۔

زیادہ تر قانونی کارروائی، سنسر شپ، پریس لاز کی آڑ، نوکری سے برخاستگی، مقدمہ، جیل یا پھر اخبار کی بندش وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کا ازالہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی فاضل جج کر دیتا تھا۔

صحافی سزا پاتے تھے کچھ عرصہ تک زبان بندی کے عمل سے گزرتے تھے لیکن اس کے بعد پھر خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑتے تھے اور نئے سرے سے ایک جدوجہد کا آغاز ہو جاتا تھا۔

ضمیر نیازی کی کتاب صحافت پابند سلاسل اس طرح کے معرکوں کی تاریخ رقم کرتی ہے جس میں صحافتی تنظیمیں دباؤ ڈالنے والے معلوم عناصر کے خلاف برسرِ پیکار رہی ہیں۔

اس وقت کی صحافی تنظیموں اور لیڈروں نے احتجاج ریکارڈ کروانے اور اظہار کی آزادی کو حاصل کرنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کیے۔

جو خبر سنسر کر دی جاتی تھی اس کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی تھی اور یہ خالی جگہ جبر اور استبداد کی بہت سی داستانیں بیان کر دیتی تھی۔ اس بات کا ابلاغ ہو جاتا تھا کہ عوام کے جاننے کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔

پھر نیا دور آیا جس میں صحافت پر دباؤ ڈالنے والے حلقوں نے اپنے طریقے تبدیل کر لیے اور دباؤ ڈالنے والے بے چہرہ ہو گئے۔

پہلے صحافی، ان افراد اور ان کے اداروں کو جانتے تھے کہ وہ کون ہیں لیکن آج کے دور میں وہ صرف نامعلوم افراد ہیں جو چشمِ زدن میں کہیں بھی نازل ہو سکتے ہیں۔

ان کے سروں پر سلیمانی ٹوپیوں جیسی کوئی چیز ہوتی ہے کہ سیف سٹی پرا جیکٹ کے کیمرے اندھے ہو جاتے ہیں۔

وہ میڈیا جو پلک جھپکنے میں مختلف وارداتوں کی سی سی ٹی وی فٹیج لے اڑتا ہے اور ایکسکلوسیو کا ٹیگ لگاکر چلاتا رہتا ہے، وہ صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی ویڈیو فیٹج حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

وہ میڈیا جس کے ذرائع اسے حکومت کے ایوان کی ایک ایک خبر دیتے ہوئے یہ تک بناتے ہیں کہ کس خاتون منسٹر نے کتنے لاکھ کا پرس اور میک اپ استعمال کیا، وہ بھی صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی خبر دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

گم شدہ صحافیوں کی تلاش کے لیے جو کمشن بنائے جاتے ہیں یا قتل ہونے والے صحافیوں کی تحقیقات کے لیے جو کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں ان کی رپورٹیں منظر عام پر کم ہی آتی ہیں۔

ابھی تک جو بھی کمشن تشکیل دیے گئے ہیں ان میں سے کم ہی ایسے ہیں جن کی رپورٹس نے دن کا اجالا دیکھا ہو۔ان میں بہت کم رپورٹیں قومی اسمبلی یا پھر سنیٹ میں ڈسکس ہوتی ہیں۔

یہ کمشن اور تحیقیقاتی کمٹیاں بھی ان صحافیوں کے معاملات کی جانچ کے لیے بنائی جاتی ہیں جو مین سٹریم میڈیا میں کام کرتے ہیں یا نامور ہوتے ہیں۔

چھوٹے علاقوں اور اخبارات میں کام کرنے والے بہت سے صحافی بے چارے خود اتنے ’نامعلوم‘ ہوتے ہیں کہ وہ نامعلوم افراد اور دہشت گردوں کے ہاتھوں تاریک راہوں میں مارے جا تے ہیں اور ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔

جو ان حربوں سے بچ نکلتے ہیں تو ان کے لیے توہینِ مذہب کے قوانین کا پھندہ ایک بڑے ہتھیار کے طور موجود رہتا ہے۔ یہ ایسا پھندہ ہے جس پر لٹکانے کے لیے جلاد لانے کی زحمت بھی نہیں کرنا پڑتی بلکہ اردگرد کا کوئی بھی کوتاہ بین یہ کام آسانی سے کرنے پر تیار ہو سکتا ہے۔

صحافیوں کے گمشدہ، معذور اور قتل ہونے بعد جو المیہ شروع ہوتا ہے وہ زیادہ دردناک ہے۔

ان صحافیوں میں سے بہت کم ایسے ہیں جن کے اہل خانہ کی کفالت کے لیے کوئی فنڈ وغیرہ موجود ہو۔

میڈیا کے سیٹھوں نے اس سلسلے میں کوئی اہم اور خاطر خواہ ادارہ قائم نہیں کیا۔ ریاستی فنڈ بھی اگر ملتا ہے تو بڑی مشکلات اور جوتیاں چٹخا کر ملتا ہے۔

اس المیے کا دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔

صحافیوں کے خلاف نامعلوم اور دہشت گرد کارروائی سے تحقیقاتی صحافت جو کبھی کبھار نظر آتی تھی اب وہ بالکل دم توڑتی نظرآ رہی ہے۔

صحافت کا کام اب صرف اور صرف پبلک ریلیشنز یا پھر ذرائع سے فیڈ کی ہوئی خبروں کو شائع کرنا اور انہی خبروں پر تجزیہ کرنا رہ گیا ہے۔

اخبارات کی سپر لیڈ سے لے کر بیک پیج اور چینلز کی ہیڈ لائن سے لے کر نیوز پیکج تک، سب کا سب بیانات، پریس ریلز، سرکاری ہینڈ آؤٹس اور پریس کانفرنسوں پر مبنی ہوتا ہے۔

تحقیقاتی صحافت اقتدار کے ایوانوں اور اعلیٰ طبقے کے مفادات کے گٹھ جوڑ کو سامنے لانے کے لیے جو کام کرتی تھی وہ اب ختم ہو گیا ہے۔

اب صحافت اور صحافیوں کو صرف یہ کام سونپ دیا گیا ہے کہ وہ مقتدرہ حلقے کے مفادات کا تحفظ کریں اور ان کے بارے میں رائے عامہ کو ہموار کریں۔

جو صحافی سر خمِ تسلیم نہیں کرتا اس کے لیے گمشدگی اور نامعلوم افراد موجود ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ تازی مارا ترکی کانپا۔

صحافت کو دبانے والے افراد اب یہ جان چکے ہیں کہ خوف وہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جو سیلف سنسر شپ کو لاگو کروانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

جو کام صحافتی قوانین، عدالتیں،کوڑے اور جیلیں نہیں کر سکیں وہ چند نامعلوم افراد ’احسن طریقے‘ سے انجام دے رہے ہیں۔

بشکریہ: سجاگ