پشتون ہوں، سٹریٹجک ڈیپتھ کا ایندھن ہوں

نقیب زیب کاکڑ

پشتون ہوں، سٹریٹجک ڈیپتھ کا ایندھن ہوں

از، نقیب زیب کاکڑ

دہشت گردی کے خلاف سٹریٹجیک ڈیپتھ کا ایندھن بھی پشتون تھا اور victim بھی معصوم پشتون تھا۔ جو ان کے مُہرے تھے ان کو اس وقت بھی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔ آج بھی ان سے ان کی جلسہ گاہیں بھری ہوتیں ہیں۔ پشتون بیلٹ میں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کی بجائے دہشت گردی کے ٹریننگ سینٹر کھولے گئے تھے۔ ان نوجوانوں کے آئیڈیئلز پروفیسرز، ڈاکٹرز انجنیئرز سماجی کارکن جیسے ہیرو نہیں تھے۔ بلکہ جو کوئی  جتنی شدت اور مزے سے قتل ہونے اور قتل کرنے کو تیار ہوتا تھا وہ ان کا ہیرو بن جاتا تھا۔

قصور ان نوجوانوں کا نہیں تھا کیونکہ کوئی نوجوان آگہی اور شعور  کے غیر جانب دارنہ مواقع حاصل کیے بغیر ایسے مصنوعی تعلیمی نظام میں غیرجانب دارانہ طریقے سے نہیں سوچ سکتا۔ یہاں اردو،عربی، فارسی اور پشتو لٹریچر ریاست کے مطلوبہ مقاصد کے لیے چھپتا تھا۔

مدارس جو دینی علوم کے نام پر ریاست کا کام ریاست کو بغیر تنخواہ کی فوج فراہم کرکے آسان بناتے تھے، ان مدارس کے فنڈز اور اخراجات عام ہائی سکولوں اور کالجز سے زیادہ ہوتے تھے، جو تا حال جاری ہے۔

جبکہ دوسری طرف قائداعظم یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی اور ملک کی دوسری یونیورسٹیز جن سے فارغ التحصیل آج کے غیر پشتون بیچلرز پشتونوں پر دہشت گرد کا ٹھپہ لگانے میں دیر نہیں کرتے، حقیقی بنیادوں پر علمی تحقیقات کا مطالعہ کرنے اور خود ایسی تحقیقات سرانجام دینے میں مصروف عمل بھی تھے، جبکہ پشتونوں کے سامنے جماعت اسلامی کے شدت پسندوں کو دانش مندی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

پڑھا لکھا پشتون بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتا تھا کیونکہ ایک بکواس پروپیگنڈہ نیم سیاسی دانش وروں میں یہ تھا کہ اہم اور اعلیٰ فہم سارے کا سارے ان شدت پسندوں میں ہی ہیں۔ اس طرح شدت پسندی کو دانشیانے bastion-ing intellectuality in the extremists کی کوشش ان شدت پسندوں سے لیا جانے لگا.

قوم پرستی، کمیونزم سوشلزم پر ان سے فتوے دلوائے گئے اور عام محافل میں ایسے سیاسی نظریات پر مباحثہ تو دور کی بات ان کو جاننے کے متعلق سوال کرنا بھی ریاست کو گالی دینے کے مترادف تھا۔ قوم پرستی کی سیاست نے ان پشتونوں کو دوبارہ آکسیجن اور سپیس فراہم کی جو کبھی سوشلزم او اور دوسرے نظریات حامل تھے۔

اس طرح ان خاموش آوازوں کو  دوبارہ جگہ مل گئی۔ ساتھ میں چونکہ ریاست نے خصوصاً عالمی سیاست میں اپنا نام عالمی ممالک کی فہرست میں ڈالنے کےلیے نیو لبرلزم کی ناک لگانے کے لیے ملک میں آزادئِ رائے کی خو ساختہ حد مقرر کی  جس سے کم از کم مباحثے کے کلچر کو تھوڑی بہت خلا میسر آگئی اس سے اور کسی نےفائدہ اٹھایا یا نہیں لیکن پشتون خصوصاً قوم پرست نوجوانوں نے پشتونوں کی محرومی کے سوال کو بہتر طریقے سے پیش کی۔

سوشل میڈیا نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ آج پشتونوں خصوصاً نوجوانوں  کو اس بات کا بہ خوبی علم ہو چکا ہے کہ ریاست کو اپنے حقوق سے باخبر پشتون ہر گز پسند نہیں۔ ان کو علم ہےکہ ریاست ان پشتونوں کو ہر گز غیرت مند نہیں کہے گی جو ریاست اور اس کے اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے حقوق کی مانگ کریں، یا انصاف کا تقاضا کریں۔

جب پاکستانی ریاست نے عالمی سیاست میں ہندوستان اور دوسروں کی ہم پلہ ہونے کی کوشش کی تو عالمی سیاست میں استحصال کے طریقے بدل گئے تھے۔ پاکستان پر تنقید ہونے لگی کہ آپ دہشت گردی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان شدت پسندوں کے ساتھ اس حد تک جا چکا تھا کہ شدت پسندی یہاں کے عوام کی پسندیدہ بننے لگی، مثلًا افغانستان میں مداخلت پر شدت پسند بیانیہ آنے لگا کہ وہ اسلامی ملک سے کفار کو بھگانے کے لیے وہاں مداخلت کر رہے ہیں۔

حمید گل برملا عوامی محافل میں اس بیانیے پر اتراتا ہوا سنا گیا ہے، اس طرح لفاظی اور جذبات ابھارنے کے جادوگر دانش ور اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے صوفہ نشین اور سکرین افروز مجاہدین بھی ٹی وی پر اس بیانیے کو اپناتے تھے۔

افغان فساد کی ترویج کے لیے پشتون شہروں میں موسیقی کی دُکانوں میں موسیقی بجانے پر پابندی لگنے لگی۔ میرے آبائی شہر پشین میں اس دوران میں نے موسیقی کی بڑی دکانوں میں طالبان کے ترانوں کے سوا کچھ نہیں، جن کو طالبان خود نعت کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ ترانے عوامی مقامات، بس، ٹیکسی ہر جگہ بجنے لگے۔ ہر جمعہ پشین شہر کے مرکز میں افغانستان میں لڑنے والے طالبان کے لیے دعائیں کی جاتی تھیں اور مختلف رہنماؤں کے پتلے جلائے جاتے تھے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ریاست شدت پسندی کو سٹریٹجی کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے اور اس سٹرٹیجی میں ایک ہی قوم ثقافت اور زبان کے افراد کو ایک دوسرے کے دشمن بنانا چاہتی ہے تو جب ان کو یہ بات کبھی سمجھ آئے گی کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا دھوکا ہوا ہے تو پھر وہ ایک غلطی، کسی دوسری غلطی سے سدھر نہیں سکتی۔ دوسری غلطی کون سی تھی؟

دوسری غلطی یہ تھی کہ وہ لوگ جن کو افغانستان کے ریاستی نظام کے خلاف متحرک کیا گیا تھا ان میں سے  کچھ ریاست کی چال سمجھ گئے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ پاکستان کے ریاستی نظام کے خلاف کھڑے ہوئے کہ یہاں بھی تو وہی نظام ہے جو سرحد کے اس پار ہے۔ لیکن یہ ریاست کے لیے اس لیے بھی مسئلہ نہ تھے کہ گِنے چُنے افراد ان کے اپنے بنائے ہوئے تھے، جن کو گرفتار کرکے وہ اس اقدام پر قابو پا سکتے تھے۔ جس کی مثال صوفی محمد کی بار ہا گرفتاری ہے۔

لیکن اب امریکہ سے فنڈز چاہیے تھے اور عالمی ممالک کو یہ دکھانا تھا کہ یہ دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتے، اس لیے ان کو جنگی انداز میں ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا گی۔ ان کے اس عمل کو بھی کوئی تنقید کا نشانہ نہ بناتا اگر اس جنگ میں عام ہشتون کی جان مال اور عزت محفوظ رہتی۔

انہوں نے بے گناہ لوگوں کے گھر اجاڑ دیے۔ بے گناہ لوگوں کو طالبان کہہ کر قتل کیا۔ لیکن اپنے چہیتوں کو پھر بھی انہوں سپیس دی کہ کہیں نکل سکیں۔ ہر دھاڑی والے پشتون کو دہشت گرد کہہ کر لا پتا کیا۔ بعد میں یہ سوچ کر کہ کہیں یہ اب ان کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں ان پر اس حد تک تشدد کرکے چھوڑ دیتے کہ ذہنی توازن کھو بیٹھتے۔

ان حالات کو دیکھ ہر اس انسان کو افسوس ہوسکتا تھا جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل تھا۔ پشتونوں نے کئی مرتبہ ان حالات سے نمٹنے کے لیے احتجاج کیا۔ لیکن جو احتجاج کرتے وہ رات تک غائب کردیے جاتے۔ زیادہ تر لوگ کراچی، سندھ کی طرف ہجرت کر گئے۔

کراچی میں پشتونوں کی اتنی بڑی تعداد پشتونوں کے  لیے یا ریاست کے لیے اعزاز کی بات نہیں بلکہ کراچی میں آدھے سے زیادہ پشتون ان مسائل سے تنگ آکر کراچی مزدوری کرنے چلے آئے ہیں۔ کیونکہ وہ ریاست اور طالبان کے درمیان سینڈوچ بن گئے ہوئے تھے۔ طالبان اس کو ریاستی کارندہ سمجھتے اور ریاست ان کو طالبان سمجھتے۔ یہ دونوں میں سے کسی ایک کے ہاتھوں قتل یا غائب ہوجاتے۔

یہ غائب شدگان افراد معمولی تعداد میں نہیں ہیں۔ اب تک کم و بیش 8000 ایسے کیسز پی ٹی ایم کے رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں مبالغہ کی گنجائش تو نہیں پر اس بات کا گمان ہو سکتا ہے کہ ایک کیس دو مقامات پر رجسٹرڈ ہونے کی صورت میں ان کی تعداد کچھ  کم ہوسکتی ہے۔

اپنی پچھلی بات کی طرف آتا ہوں۔ اس قتال اور انسانی المیے کو ریاست نہ پہلے چاہتی تھی کہ منظرِعام پر آجائے اور نہ اب۔ اس لیے  پشتونوں ہی کا مسئلہ بننے لگا۔ یہ قتال یہی تک محدود نہ رہا بلکہ کراچی میں موجود پشتون بھی اس الزام پر قتل ہونے لگے۔

لیکن نقیب محسود کے بہیمانہ قتل نے پشتونوں کو متحد ہونے پر مجبور کیا اور یہی موقع تھا کہ پشتون ریاست اور ریاست کے اداروں سے راؤ انوار سمیت تمام قاتلوں سے حساب مانگ لے اور گُمشدہ افراد کی وضاحت طلب کریں اور پشتون بیلٹ میں قائم غیر ضروری سیکورٹی چیک پوسٹ ختم کریں جہاں خواتین بچوں ور بزرگوں سے یکساں ناروا سلوک ہوتا چلا آیا ہے۔

اب جس ادارے سے پشتون سوال کررہے ہیں، وہ ریاست کے لیے مقدس اس لیے ہے کہ اس سےخود ریاست کے دوسرے ادارے ڈرتے ہیں۔ یہاں تک کہ عدلیہ ے متلعق بھی یہ غالب گمان ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے پیچھے کوئی پاگل، بچہ، یا نا سمجھ لوگ اور جذباتی نوجوان نہیں ہیں، بلکہ منظم سوچ کے حامل اعلیٰ دانش مندی کے حامل افراد موجود ہیں۔ نہ ہی ان کا ضمیر اتنا سستا ہے کہ ہمسائے کو مارنے کے لیے امریکہ یا کسی اور سے فنڈز یا امداد لے۔

پشتون پاسون کو سنجیدہ لینے میں پشتونوں سے زیادہ ریاست کا فائدہ ہے، لیکن ریاست چونکہ مشرقی اور طاقت کے نشے میں چور ہے اس لیے آنا اور نشے کا غیر عادی ہونا حل سے روکنے میں حائل ہو سکتے ہے۔