شمال کی جنگ : افسانہ از، نعیم بیگ

شمال کی جنگ

 شمال کی جنگ : افسانہ از، نعیم بیگ

ڈئیرمارتھا

مجھے امید ہے کہ میرے خطوط تم تک پہنچ رہے ہوں گے۔ دراصل جس شخص کو میں یہ خطوط پوسٹ کرنے کو دیتا ہوں وہ ایک نادار بنسری نواز پٹھان لڑکا ہے۔ اس کی ٹانگ گزشتہ جنگ میں بم شیل لگنے سے کٹ گئی تھی۔ اب یہاں چھوٹے موٹے کام کر کے گزارہ کرتا ہے۔ بنسری بجانا اس کا شوق ہے اور تمیں یاد ہوگا جب میں یہاں آنے کا قصد کر رہا تھا، تو مجھے ایک بنسری چاہیے تھی۔ وہ بنسری میں نے اسی لڑکے کو دینی تھی۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ اس دن کتنا خوش تھا، جب میں نے اسے سنہرے تانبے کی بنسری دی تھی، تو وہ دیر تک اس بنسری کو دیکھتا رہا۔ اس کا چہرہ بنسری دیکھ کر کھِل سا گیا تھا۔ جب میں نے اسے بجانے کو کہا تو اس نے اپنی پرنم پلکیں اوپر اٹھائیں اور کہا، ابھی نہیں۔

میں اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا لیکن جب اگلے دن شام کو وہ ایک دُھن تیار کر کے مجھے سنانے آیا تو یقین کرو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ محبت کی وہی اداس دُھن تھی۔ جس کے سُر دل کے تاروں کو چھیڑتے ہوئے پہلے ہی میری روح میں اتر چکے تھے۔
جانتی ہو وہ دھُن کون سی تھی؟ تم نے بھی یہ دھن سنی ہوئی ہے وہی سیمفونی والی، ’وہن آئی ایم لیڈ اِن ارتھ‘‘ ۔۔۔۔’جب مجھے زمین کے اندر لِٹا دیا گیا‘۔

یاد آیا تمیں، ہم نے یہ دھُن براڈوے میں ایک ساتھ سنی تھی اور تم رو پڑی تھی اور کئی دنوں تک روتی رہی تھی۔ مجھے تمہیں چپ کرانے کے لیے ایک بار پھر براڈوے لے جانا پڑا، اس بارگی ہم نے کامیڈی شو دیکھا تھا۔

یہ اداس دھن سن کر میں نے اسے پوچھا۔ یہ دھن تم نے کہاں ے سیکھی، تو اس نے بتایا کہ ایک مغربی عورت کو یہاں قید کر لیا گیا تھا، جو دو سال یہاں رہی تھی اور میری خدمات اس کے سپرد تھیں۔ میں اس کے متفرق کام کرتا تھا اُسی نے مجھے یہ دھن سِکھائی تھی میں نے سنا تھا کہ وہ بعد میں مسلمان ہو گئی تھی۔ میں سمجھ گیا تھا وہ یووان ریڈلِی (۲) کی بات کر رہا ہے۔
اوہ میں خط بند کرتا ہوں، کوئی آ رہا ہے!
تمارا اپنا ٹِم
مقام نامعلوم، مورخہ ستمبر ۲۰۱۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیئر مارتھا

صبح بخیر۔۔۔ کیا تمہیں کل رات نیند آئی تھی؟
میں تو رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ اب یہ نہ پوچھنا، کیوں؟
ہاں، میں تم سے پوچھنا بھول جاتا ہوں کہ جو آرپائن کے پرپل ایمپرر پودے (۳) میں نے گزشتہ سال گھر کے پچھلے صحن میں لگائے تھے کیا انہوں نے اس موسم خزاں میں پھول دیے تھے کہ نہیں۔ بس تم وہیں سے اونچی آواز میں بتا دینا تمہاری آواز مجھ تک ہمیشہ پہنچ جائے گی۔
آج کل یہاں کچھ عجیب سی صورتِ حال ہے۔ کئی ایک دنوں سے یہاں بمباری رکی ہوئی تھی، لیکن کل رات سے پھر شروع ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہاں مقامی باغیوں کو مزید کُمک اور نفری مل گئی ہے اس بار وہ یہاں فوج کو سخت جواب دیں گے۔ لیکن میرے لیے عجیب بات تو یہ ہے کہ یہاں باغیوں میں ہر نسل اور ہر ملک کا آدمی ہے۔ تم تو جانتی ہی ہو ۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں اپنے مذہب کے پرچار کے لیے زمین چاہیے اور آزادی چاہیے، تاکہ یہ پوری دنیا کی نسل انسانی کو سدھار سکیں۔ کتنی بودی وجہ ہے نا! خیر یہ سب سیاسی باتیں ہیں وہ تو سب کچھ میں ’ آج کی ڈائری‘ میں اخبار کو بھیج چکا ہوں۔
مجھے کبھی کبھار یہاں بالکل ایسے لگتا ہے جیسے دنیا بھر کے لوگ اس علاقے میں کچھ اور کرنا چاہتے ہیں اور وہ کیا ہے مجھے معلوم نہیں ہو سکا؟
تم صحیح کہتی تھی، میں غبی اور کند ذہن صحافی ہوں۔ مجھے پھول بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
یہی دیکھ لو ایک سال کی مدت میں میر ا یہاں صرف ایک ہی دوست بنا ہے وہی بنسری نواز لڑکا۔ ہاں میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ وہ لڑکا کل آیا تھا، کہہ رہا تھا، راستے بند ہوتے جارہے ہیں، ہولناکی چاروں طرف پھیل چکی ہے، اگر تمیں نکلنا ہے تو ابھی نکل لو ورنہ چند روز تک یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بھلا کوئی اس سے پوچھے جنگ سے زیادہ ہولناکی اور کیا ہوگی، کئی ایک دھائیوں سے یہاں پوری ایک نسل لڑ کر مر چکی ہے۔ اور پھر اس کے بعد اگلی نسل لڑتی رہی ہے ۔ اب تیسری نسل یہ جنگ لڑ رہی ہے۔ پچھلی نسل پہلے اسی فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہی تھی، دوسری بار یہ سب آپس میں لڑے، اب جنگ فوج کے خلاف لڑ رہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ اگلی بار یہ دونوں مل کر کسی اور کے خلاف لڑ پڑیں۔
ویسے مجھے ملک کے بڑے شہروں سے بھی کچھ خبریں پہنچتی ہیں، چونکہ وہ میرا علاقہ نہیں، لہٰذا ان خبروں کو میں رپورٹ نہیں کرتا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کو کام کرنے دیتا ہوں، وہ کہتے ہیں اب تو تقسیم در تقسیم نے اس خطے کے کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اب آخری جنگ شاید گھر گھر ہو ۔ بلکہ تقریباً ہو ہی رہی ہے۔
یہ سب لوگ آخر کیا چاہتے ہیں؟ ناکامی ان کا مقدر کیوں بن رہی ہے؟
اچھا خط بند کرتا ہوں۔ بنسری نواز آنے والا ہے ہم نے کہیں جانا تھا۔

خدا حافظ

تمہارا ٹِم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری جان مارتھا

کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا، کہ میں کسی بڑے تاریک غار کے اندر ہوں اور چاروں طرف اژدھے اپنے سر اٹھا کر مجھے دیکھ رہے ہیں، اس کا بھلا کیا مطلب ہوا؟ میں تو یہاں بالکل ٹھیک ہوں ،بس اب باہر نکلنا کم ہو گیا ہے علاقہ میں باغیوں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں، مقامی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے شہروں میں تباہی مچا رکھی ہے؛ بچوں، بڑوں، عورتوں کو بلاتمیز و تفریق قتل کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں۔ مجھے تو صرف یہی نظر آتا ہے صرف مذہب کی بنیاد پر یہاں زندگی گزارنے کی ایک سعی لا حاصل ہے۔ کیا یہ لوگ اپنے معاشی وسائل کو یوں حل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے، کہ چند صدیاں پیچھے جاکر ان کے لوگ آج کی زندگی گزار سکیں۔ وقت کا پہیہ الٹا کیسے چل سکتا ہے؟ فطرت کا اصول تو یہ نہیں۔
مارتھا تم بھی کہو گی کہ میں کیا اول فول بک رہا ہوں۔ اچھا تم ایک کام کرنا، چرچ جا کر میرے لیے خداوند سے دعا کرنا۔ مجھے ان انسانوں سے محبت ہوتی جا رہی ہے جو خود زندگی سے نفرت کر رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک ساتھ مکمل خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں مختلف سمتوں سے؟
مارتھا، مجھے تم بہت یاد آ رہی ہو میں کئی ایک دنوں سے بنسری نواز سے بنسری بجانا سیکھ رہا ہوں۔ کل میں نے وہی دُھن بجائی تھی۔۔۔۔
’’وہن آئی ایم لیڈاِن ارتھ ۔۔۔۔ ‘‘
یقین کرو مجھے ایسے لگا کہ میں واقعی دفن ہو رہا ہوں ۔۔۔ کیا تمہیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم دونوں اب نہیں مل سکیں گے۔
’جب میں زمین کے اندر لٹا دیا گیا۔۔۔
کیا میرے سب اعمال دھُل جائیں گے۔
اچھا اب خط لکھنا بند کرتا ہوں، اس وقت بم باری ہمارے گھروں پر ہی ہو رہی ہے ۔ گھڑی بھر کی بات ہے۔۔۔اب میں اپنے آپ کو کائنات کی آزاد فضا ؤں کے حوالے کرتا ہوں ۔تم تیار رہو ، ہم ایک ساتھ پھر براڈوے ضرور جائیں گے۔

تمہارا اپنا اور صرف اپنا ٹم

……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………….

عالمی صفحہ اخبار “دارالحکومت ‘‘ مورخہ ۵ اپریل ۲۰۳۲ ء
مختصر خبر (نامہ نگار) یہ خطوط شمالی علاقوں میں پہاڑوں کے دامن میں بسے ایک گاؤں کے پرانے تباہ شدہ ڈھیر سے برآمد ہوئے ہیں۔

حوالہ جات

(۱) انگریزی براڈوے دھن معروف کمپوزر ہنری پرسل (۱۶۹۵۔۱۶۵۹) نے لندن میں ۱۶۹۸.ء میں اوپیرا تھیٹر میں کوئین ڈیڈو اور شہزادہ اینس کے کرداروں پر پیش کی تھی۔ جو بعد میں انگلش کلاسیکل کا حصہ بنی۔

(۲) یووان ریڈلی (۱۹۵۸) برطانوی جرنلسٹ جو افغان وار ستمبر ۲۰۰۱.ء میں طالبان کے ہاتھوں اغوا ہو گئی تھی جب وہ برقعہ پہنے ہوئے افغانستان جا رہی تھی۔ رہائی کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

(۳) پرپل ایمپرر پھول موسمِ خزاں کے پت جھڑ موسم کے دکھ بھرے لمحوں میں بلاسم کرتے ہیں۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔