کیرولین جنگل میں

Naseer Ahmed, the writer

کیرولین جنگل میں

(بَہ نام  نریندر مودی)

از، نصیر احمد 

شب سیاہ میں گم کردہ راہ کیرولین ایک گھنے جھنڈ میں شمعوں کی طرح  روشن اپنی آنکھوں کی مدد سے کسی رستے کے نشانات ڈھونڈ رہی تھی کہ کیرولین نے چند سرگوشیاں سنیں اور سرگوشیوں کا پیچھا کرتے کرتے جھنڈ کے درمیان ایک قطعے تک پہنچی۔ جہاں چند الاؤ دہک رہے تھے۔ وہاں رنگ بَہ رنگے جانوروں کا ایک اجتماع سا برپا تھا مگر کچھ عجیب سا تھا، جانور نہ پورے جانور نظر آ رہے تھے اور نہ کوئی اور شے۔ کوئی عجیب سی مخلوق تھی۔ جانور سمجھو تو وہ انسان لگنے لگتے تھے اور انسان سمجھو تو جانور لگنے لگتے تھے۔ غول و جنات جانو تو فرشتے اور پریوں جیسے دکھنے لگتے تھے۔ ہر لمحے ان کے روپ بدلنے لگتے تھے۔ کیرولین تو ماہیت، نوعیت، خاصیت اور خصوصیت کی تفہیم کی بھول بھلیوں میں کھوئی دیدے گھمانے لگی کہ بھالو جیسا  ایک جانور بول پڑا۔

کیرولین، کب تک یوں دیدے گھماتی رہو گی؟ تمھیں دیکھ کر تو کرش (ایک ہندی مووی) والی لڑکی یاد آ رہی ہے مگر ہم تو اور طرح کے جناور ہیں۔ ایسا ہی ہے ہم ویسے نہیں ہیں جیسے دکھائی دینے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ اسرار و رموز کے سلسلے ہیں۔ بڑے پیچیدہ معاملے ہیں۔ سب کچھ تمھیں بتائیں گے کہ بڑی دیر سے منتظر تھے کہ کچھ تنہائی میسر ہو اور تمھیں اپنا احوال بتا سکیں۔

تمھاری تو حیرانی ہی نہیں جا رہی؟ ہم تمھیں جانتے ہیں، تمھارا بڑا ذکر ہوتا رہا ہے اور تم سے تو ہم آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ہمارے درد کا درماں تو تم ہی کرو گی۔ ہماری اصل شکلیں اور ہیں، وہ بھی تمھیں دکھا دیں گے۔ اصل میں ہم جناور بھی نہیں ہیں لیکن جیسے خواجہ نے کہا ہے اور عھدیہ جانم نے گایا ہے کہ ہر سخن وقتی و ہر نکتہ مکانی دارد۔ تم تو فارسی جانتی ہو گی کہ جو تمھارے بارے میں بتایا گیا ہے اس کی تجسیم تو حافظ کی غزل ہی کر سکتی ہے۔ اور تمھارے بارے میں یہی سنا ہے کہ دنیا سے تو دھوکے کھا جاتی ہو، لیکن اپنی تو تمھیں خبر ہے۔ بہ ہر حال کہنا یہی چاہتے ہیں، سب کچھ فاش کریں گے مگر بات جب اس مرحلے تک پہنچے گی۔

ابھی تو تعارف  کا مرحلہ درپیش ہے کہ تعارف کے بَہ غیر بات کرنا کچھ نا مناسب لگتا ہے۔ میں بھالو پرتاپ ہوں۔ میں بہت بڑا انجینئر بننا چاہتا تھا لیکن اب محض ایک بھالو ہوں۔ کیوں ہوں، تھوڑی دیر میں بتاتا ہوں۔ یہ جن کی خارش نہیں تھمتی، اداس ریچھ ہیں، یہ شکر بنانے کے کارخانے قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ ایسے کیوں ہیں؟ تھوڑی دیر میں بتا دوں گا۔ یہ جو گجری گیدڑی ہیں، یہ نباتات کی ماہر بننے کی آرزو مند تھیں اور خود کو شاخ نبات کہا کرتی تھیں۔ اب یہ گیدڑی ہیں، کیوں ہیں تھوڑی دیر میں کارن تمھارے پلے پڑ جائے گا۔ اور یہ اپنے  خوک خاردار سماجی کارکن بننےکی تمنا دل میں بسائے بیٹھے تھے، اب بس گڑھے ہی کھودتے رہتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ بس چند لمحے صبر کرو، سب کچھ ظاہر ہو جائے گا۔ اور یہ ربابہ روباہ ہیں، یہ عدا لت میں  منصف بننا چاہتی تھیں، اب تمھاری طرف دیکھ کر یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ٹھہر جائیں یا کھسک لیں۔ اس کی وجہ بھی تمھارے سامنے آ ہی جائے گی۔ اور یہ جن کے چہرے پر ‘تن تو پہ تو واروں من تو پہ واروں’ نقش ہے یہ کائیٹل کتے ہیں۔ تم ذرا دھیان دیتی رہنا، ان کا کچھ پتا نہیں کب ان کے من میں کاٹنے کا سودا سما جائے۔ یہ نیتا بننے چاہتے تھے لیکن اب تمھاری ہتھیلیوں میں شکر کی جستجو میں مگن ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ تمھیں معلوم ہو جائے گا۔ اور یہ گپھاہ کے گرگ تمھاری طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، یہ اڑ کر گگن چھونے کی اِچھا دل میں پالتے رہے ہیں۔ اب بس ٹیکری پر ہی آسن جمائے رکھتے ہیں، اور گگن دور ہی رہا، اس  کا سبب بھی تم جان لو گی۔ بس ذرا دھیرج رکھو۔

ارے ادھر خوش نما خر بھی ہیں، یہ دانش کدے کے منتظم اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ اور یہ دانش کدے کے منتظم اعلیٰ بن بھی گئے ہیں، اس کے لیے مگر ہمیں دانش کدے کے معانی بدلنے پڑے۔ ابھی تمھیں سب کچھ نہیں تو کچھ نہ کچھ پتا چل ہی جائے گا۔ اور یہ  کتیا خوں خوار خاتون ہیں، یہ شاعرہ بننے کی آرزو مند تھیں، وہ نہیں ہو سکا، اب ہر آتے جاتے پر بھونکتی ہیں اور بڑے بڑوں کو کاٹ کھاتی ہیں اور خون آلود بانچھیں پھیلا کر وحشیوں کی طرح قہقہے لگاتی ہیں۔

ایسا کیوں ہوا؟ ابھی بتائے دیتا ہوں۔ اور یہ باقی سب بھی کچھ نہ کچھ بننا چاہتے تھے۔ لیکن بن نہ سکے، اس بابو بوز نے کی طرح جو اب ہنس ہنس کر سائیکل چلا رہا ہے مگر دل میں  وفور اشک سے تہیہ طوفان کیے ہوئے ہے۔

کیرولین ہنس کر کہنے لگی، وجہ ابھی تھوڑی دیر میں معلوم ہو جائے گی۔

یہ بہت اچھی بات ہے کہ تم ہم سب سے ڈری ہوئی نہیں ہو۔ ورنہ ہمیں یوں اکٹھے دیکھ کر  بڑے بڑے دلاوروں کے دل دہل جاتے ہیں۔ مگر تم کیوں ڈرو، تم امر ہو، لافانی، لا زوال، تم تو درماں ہو، تم تو مداوا ہو، تم تریاق ہو، تم مسیحا ہو، ہماری نجات دہندہ۔ تم ہی تو ہمیں ہماری اصلی شکلیں لوٹاؤ گی۔ مجھے پتا ہے تمھیں میرا قصیدے کی طرف یہ گریز کچھ بھایا نہیں مگر اتنی بڑی خاتون کے کچھ  حقوق بنتے ہیں اور ہم جناور سے بن تو گئے ہیں مگر تم ایسی خاتون ہو جس کا احترام ہی کر سکتے ہیں کہ تم زندگی ہو۔ صرف زندگی نہیں بل کہ اس کے معانی میں جتنا بھی حسن ہے، تم وہ جمال ہو۔ تم خود دیکھ لو، تم سے دوری نے ہمیں کتنا بد صورت، بے ڈھب اور بے ڈھنگا سا بنا دیا ہے کہ تمھاری بھی حیرانی نہیں جا رہی۔

بھالو نے یہ کہا اور وہ سب ایک آئرش گیت  گانے لگے جس کا میں ایک برا سا ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ہاتھ میں چھڑی

آنکھوں میں آنسو لیے

پیارے دیس جا رہا ہوں

اس کے بین سنتا ہوں

جانی

تمھیں تو میں جانتی ہی نہیں

دشٹوں نے تمھیں تو

مار ہی ڈالا

آنکھوں کی وہ نرمی کیا ہوئی

جس نے مجھے

جیت لیا تھا

ہائے یہ جنگ کے ڈھول

ہائے یہ بندوقیں

بچے اور مجھے چھوڑ کر

تم کیوں

بھاگے تھے

جانی

تمھیں تو میں جانتی ہی نہیں

ہائے یہ جنگ کے ڈھول

ہائے یہ بندوقیں

کیرولین یہ گیت سن کر اپنا چاند سا چہرہ اپنی سنہری زلفوں میں چھپا کر سسکنے لگی۔ الاؤ کی روشنی میں اس کی سنہری زلفیں بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ جیسے برسوں کے بچھڑے اپنے مل رہے ہوں یا پھر جیسے فرح جونم آئینے کے رو بَہ رو ہو۔

کیرولین کی سسکیاں تھمیں تو بھالو پرتاپ کہنے لگا، ہائے، اس وسیع کائنات میں کوئی تو ہے، ہمارا احوال سن کر جس کی آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں۔ دیکھو بد بختو بڑے لوگوں کی ہم دردی اور غم گساری سے کیسے امید جاگتی ہے۔ ہماری رہائی اب کچھ دور نہیں۔ کیرولین آ گئی ہے، اب سب اچھا ہو جائے گا۔

تو کیرولین اس جنگل کے ولی عصر، برادر بزرگ،  سنت سوامی اور آقا ٹارزن ہیں اور لگے بندھے دوچار کام ہی کرتے ہیں۔ ایک ان کا کام شکار کرنا ہے۔ جانوروں کا بھی کرتے ہیں، پنچھیوں کا بھی کرتے ہیں، رینگنے والوں کا بھی کرتے ہیں، ان کا بھی کرتے ہیں جو ابھی تک انسان رہنے پر اصرار کرتے ہیں اور ہم میں سے بھی جس سے کچھ خفا ہو جائیں، اس کا بھی کرتے ہیں۔

دوسرا جنگل کے ارد گرد جو بستیاں ہیں ان پر ہم ایسوں کو حملے کے لیے بھی بھیج دیتے ہیں۔ ہم لوگ وہاں رہزنی، چوری چکاری، شبخون، دنگا فساد اور قتل و غارت کرتے ہیں جس کا انتقام لینے کے لیے ان بستیوں سے بھی لوگ آتے ہیں اور جنگل اجاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تیسرا کام ٹارزن کا جنگل کی لکڑیاں بیچ کر جنگل میں اور جنگل کے باہر جنگ جاری رکھنے کے لیے اسلحہ اکٹھا کرنا  ہے اور اپنے لیے جنگل میں اپنے لیے محل تعمیر کرنا ہے۔ اور چوتھا کام جناب ٹارزن کا یہ ہے کہ وہ جنگل کے کسی نہ کسی حصے میں آگ بھی لگائے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں جنگل میں شکار جاری رکھنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔

کبھی اس پر الزام دھر دیتے ہیں کہ اس نے آتش زنی کی ہے، کبھی اس پر اور جب جناب ٹارزن یہ الزامات کسی پر دھرتے ہیں تو جانیے اس کی خیر نہیں۔ پہلے ایک شور مچتا ہے جس کے مچانے والے ہم ہی ہوتے ہیں، اس کے بعد وہ ملزم یا قفس میں ہوتے ہیں یا پھر مردہ پائے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ تو جنگل کے جس حصے  کو فردوس کہتے تھے، اس پر جناب ٹارزن نے چڑھائی کر دی اور وہاں کے سب لوگوں کو قید میں ڈال دیا۔ جو قید نہ ہوئے ان کی زندگی کو زندگی کہنا ذرا کٹھن کام ہے۔

اب تو بس دھندلی اور ملگجی یادیں ہی بچی ہیں لیکن ہمیں علم ہے کہ جناب ٹارزن کے جنگل میں آنے سے پہلے ہم لوگ انسان ہی تھے۔ اور انسان ہونے کے ناتے جناب ٹارزن کی اس مسلسل جنگ کے حوالے سے انسانی ذمے داریوں، تباہی اور بربادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تشویش، فکرِ فردا، آرزو و جستجو، رحم و کرم، محبت و مودت، شہریت، فیصلہ سازی، انسانی حقوق اور تہذیب سے منسلک دیگر چیزیں ہمیں پریشانی میں مبتلا رکھتی تھیں۔

ہم میں سے کچھ جنگل میں جاری ان مسلسل جنگوں کی افادیت اور ضرورت پر سوال اٹھانے لگتے تھے۔ کچھ کم بخت کبھی حد سے بڑھ جاتے تھے اور جناب ٹارزن کے حقِ حکومت پر سوال اٹھانے لگتے۔ جناب ٹارزن اگر چِہ جنگل میں بہت زیادہ مقبول تھے لیکن یہ سوال کبھی کبھی انھیں بھی پریشان کرنے لگتے تھے۔

ایک دن یونہی سوچتے سوچتے جناب ٹارزن بڑبڑانے لگے، انسانیت کے اس ڈھونگ سے بہت بے زار ہوں۔ میری اتنی شان دار پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ اپنا جنگل ہے اور اسے شدھ اور پوتر رکھنا ہے اور اگر انسانیت شدھی اور پوترتا کی راہ میں ایسی رکاوٹ بنتی ہے کہ کچھ ہو ہی نہ سکے تو ایسی انسانیت کا اچار ڈالیں گے۔ یہ ڈھکوسلا بند کرنے کی ضرورت ہے۔

اور یہ بڑبڑاہٹ تھوڑی ہی عرصے میں پالیسی بن گئی۔ اور اس پالیسی کے  ابتدائی پروگرام کے لیے ہمیں منتخب کیا گیا۔ ہمیں ہمارے انجینئر بننے، کارخانے قائم کرنے، ماہر نباتات بننے، سماجی کارکن بننے، نیتا بننے، منصف بننے، اڑ کر گگن چھونے اور کوی بننے کے سپنوں سے جدا کرتے ہوئے یہ نقلی چہرے دے دیے گئے اور کہا گیا کہ ان نقلی چہروں کی اصلی زندگی گزارنے کا ہنر سیکھیں۔ ہنر کیا، بس اینڈنا اور اونگھنا ہی ہے اور جناب ٹارزن کو سلامیاں دینی ہیں، ساس بہو کے کھیل دکھانے ہیں، اور ان کے مخالفوں کے خلاف شور برپا کرنا ہے۔

اتنا زیادہ شور کہ جس میں حسیات اور خرد کا آپس میں کوئی ناتا نہیں بن سکتا۔ آنکھوں دیکھا اجنبی لگنے لگتا ہے۔ یاد داشت کم زور ہو جاتی ہے۔ بوکھلاہٹ اور بد حواسی  چھا جاتی ہے۔ غیظ و غضب کی کیفیت مستقل ہو جاتی ہے جس میں کبھی کبھار بے معنی باتوں پر وحشیانہ ہنسی کا وقفہ آ جاتا ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ دھاڑ چنگھاڑ ہے کہ قہقہہ۔ یہ سب مسلسل کرنے سے ہم اپنے نقلی چہروں کی اصلی زندگی کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ اس قربت کا ایک عجیب نتیجہ یہ  ہوا ہےکہ ہمیں کھوئی ہوئی انسانیت یاد آنے لگی ہے، ہم اپنے اصلی چہروں کے لیے تڑپنے لگے ہیں۔ آرزوئیں لہلانے لگی ہیں، رشتوں میں سچائی تجربے کرنے کے لیے ہم ہڑکنے لگے ہیں۔ زندگی کے معنی کھوجنے کی آشا ہمارے برباد ذہنوں میں جگمگانے لگی ہے۔

کیرولین، تم کہ لا زوال اور لا فانی ہو۔ تم ہمارے چہرے لوٹا دو۔ میں شری ردھر پرتاپ ہوں، میں بھالو نہیں ہوں۔ یہ گجری گیدڑی نہیں ہے بل کہ شاخِ نبات ہے۔ یہ خوک خاردار نہیں پنڈت گئوری شنکر ہیں۔ یہ ربابہ روباہ نہیں ہے، یہ رکمنی پانڈے ہے۔ وہ کائیٹل کتے نہیں ہیں بل کہ چندو لال گوکھلے ہیں۔ یہ بابو بوزنہ نہیں ہے بل کہ ہریجن ہزاریکا ہے، یہ گپھاہ کے گرگ نہیں ہیں بل کہ آدتیہ امروہی ہیں۔  یہ خوں خوار خاتون نہیں ہیں بل کہ شرتی آپٹے ہیں۔ جناب ٹارزن کے دیے ہوئے نقلی چہروں میں ہمارا دم گھٹتا ہے۔ جنگ میں مبتلا اس جنگل میں دم گھٹتا ہے۔ جناب ٹارزن کی موجودی میں دم گھٹتا ہے۔

کیرولین پیاری کیرولین، حسین کیرولین، اب سرکاری طور پر اس جنگل میں انسان صرف جناب ٹارزن ہیں۔ وہ اپنے من کی بات کہہ سکتے ہیں۔ اپنی مرضی سے ہنس بول سکتے ہیں۔ جو ان کا دل چاہے وہ لکھ سکتے ہیں۔ جو فرمان چاہے جاری کر سکتے ہیں۔جو خوشی ان کو بھائے ان کی ہو جاتی ہے ۔

کیرولین نے کہا، ہاں لیکن اس بات کا جاننا بھی تو ضروری ہوتا ہے کہ رضا ہوتی کیا ہے، تحریر کا معیار کیا ہے، اور ہنسا کس بات پر جا رہا ہے اور آزادی کے حوالے سے حقوق اور فرائض کیا ہوتے ہیں۔ صرف انسان ہونا کافی نہیں، منزل تو اچھا انسان ہے، اچھا انسان جو نہ صرف اپنے بل کہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔ اچھا انسان جس کے لیے سچ بہت اہم ہوتا ہے۔ اچھا انسان جس کے اعمال میں  جمہوری قوانین اور جمہوری اخلاقیات چمکتی دمکتی ہیں۔ اچھا انسان جو دوسروں کے لیے زندگی آسان کرتا ہے۔ اچھا انسان جو تہذیب کو فروغ دیتا ہے۔ اچھا انسان جو فردا کی فکر کرتا ہے۔ اچھا انسان جو محبت، رحم و کرم، ہم دردی، شفقت اور انسانیت سے تہی نہیں ہو سکتا۔

شری ردھر پرتاپ نے کہا، تم سب کچھ جانتی ہو کیرولین۔ ہمارے چہرے لوٹا دو، ہمارے نام ہمیں دے دو۔ ہمیں ہماری رضا عطا کر دو۔

کیرولین نے جواب دیا، رضا اور آزادی کوئی کسی کو کوئی عطا نہیں کر سکتا، پیارے شری ردھر پرتاپ، اس میں اپنی کاوش کا کردار بہت زیادہ اہم  ہوتا ہے۔

اتنے میں جنگل میں ٹارزن کی کڑکتی آواز گونجی: یہ بات کیرولین، کہتے ہیں صدیوں پہلے بندروں کو انسان بننے کی سوجھی۔ آرزو ان کی پختہ تھی۔ وہ انسان بن گئے۔ اب انسان بھالو بننا چاہتے ہیں، آرزو پختہ ہے، بن رہے ہیں، بن گئے ہیں۔ کوئی بھی اگر کچھ بننا چاہتا ہے تو بن جاتا ہے۔ میں نے ٹارزن بننا چاہا، آرزو خام نہیں تھی، میں ٹارزن بن گیا۔ باقی تو سب باتیں ہوتی ہیں، جواز، عذر، بہانے۔ کیوں شری ردھر پرتاپ جی؟

ٹارزن تنہا تھا لیکن نقلی چہرے بھی سفید پڑنے لگے۔ دیدے گھومنے لگے۔ ٹانگیں کانپنے لگیں۔ کھسر پھسر ہونے لگی۔ مُنھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

کیرولین نے کہا، بات کو بے راہ مت کرو۔ میں نے کہا تھا کہ اپنی کاوش کا کردار بہت زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اپنی کاوش سب کچھ نہیں ہوتی۔ تم ٹارزن اس لیے بن پائے کہ جنگل میں ٹارزن بننے کے لیے معاشرتی حمایت بہت زیادہ ہے۔

ٹارزن نے کہا، تو پھر میں اکیلا ٹارزن کیوں ہوں؟

کیرولین نے کہا، کیا تم واقعی ایسے سمجھتے ہو؟ نقالی کو بھول رہے ہو؟

ٹارزن: اوہ، میں سمجھا تھا لکڑی خریدنے والی کمپنی کی آزادی پسندی ہے۔ تو یہاں آزادی پسندی کھوکھلی نہیں ہے۔ مگر کسی کام کی نہیں ہے۔ رہی نقل کی بات، تو نقل نقل ہوتی ہے، اصل اصل ہوتا ہے۔

کیرولین نے مسکرا کر کہا، تمھاری تو زبان  ہی خاتون دشمن ہے۔ اور اصل کیا ہے؟ شونیہ شونیہ تک اصل کی بات پہنچتی ہے۔

ٹارزن نے ہنس کر کہا، پھر دیکھو شونیہ شونیہ کا جادو۔

یہ کہہ کر ٹارزن نے جھک کر چھرا گھونپنے کی ادا کاری کی اور زور سے چلایا، ہمینہ کہ ہست۔ کیرولین، تمھارے لا زوال ہونے کا دار و مدار انسان کی موجودگی پر ہے۔ تمھاری نگاہوں میں میں بد ترین ہی سہی مگر اکیلا انسان ہوں۔ میں یہاں سے ہٹ جاتا ہوں، پھر تم انھیں ان کی رضا، ان کی آزادی، ان کے نام اور ان کے چہرے لوٹا دینا۔ کیوں بھالو پرتاپ، اچھا سودا ہے ناں؟

بھالو پرتاپ نے گڑگڑاتے ہوئے کہا، جناب، سرکار، حضورِ والا، ہماری کیسی رضا، ہم کہاں آزادی کے مستحق ہیں، ہم تو اس لا زوال بنی حرافہ کو پھانس رہے تھے تا کہ حضور کا کوئی دشمن باقی نہ رہے۔

کیرولین نے کہا، ایک اور ٹارزن تو یہیں پیدا ہو گیا۔

یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی۔

ٹارزن وہاں سے ہٹنے لگا۔

نقلی چہروں والے کیرولین کے گرد گھیرا ٹالنے لگے۔

اور میں انسان نہیں ہوں، حیوان بھی نہیں، غول و وحوش بھی نہیں، فرشتہ بھی نہیں ہوں لیکن میں بھی وہاں سے چلا آیا۔ اب تم نے دیکھنا ہے آگے کیا ہوتا ہے؟ کیرولین کہ محبت کی علامت ہے تو جوکر کو اس کی حیات و موت کی خبر ضرور دینا کہ دونوں کی حیات و موت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔