پانچ جولائی، ایک کہانی 

اعظم کمال

پانچ جولائی، ایک کہانی

کہانی از، اعظم کمال

دو کردار

ایمزین اور نواز

پہلا باب

میری ماں نے مجھے کھجور کے درخت کے نیچے جَنا ہے۔

جب کہ میرا باپ ننگے پاؤں تپتی مٹی پر اینٹیں سینچ رہا تھا۔ اور میری ماں نے ہڈیاں توڑنے والے درد کے با وُجود کوئی چیخ پکار نہ کی کہ اس کی آہ و بکا میرے باپ کے کام میں مخل ہوں، اور میرے باپ نے بھی ہزار ہا درد چپ چاپ سہے ہیں… میری ماں کی وفائیں…

ایمزین، ہم وفا میں گُھلے لوگ ہیں۔

ہمارے دیس میں ہزار ہا پگڈنڈیوں پر روزانہ نو جوان لڑکیاں اپنے سروں پر خوابوں کے ٹوکرے لادے وفا کے سودے میں چپ چاپ درد سہہ جاتی ہیں اور میری جان اسی طرح نو جوان لڑکے کھیتوں، بازاروں اور دفتروں میں ہر روز زندگی سے نبرد آزماء ہیں کہ وہ ان ٹوکروں میں لادے خوابوں کی تعبیر بن سکیں۔

میرا دیس وفا کی زمیں ہے۔ تم میرے ساتھ چلو تمھارا ملک ڈاکووں کے پہرے میں جھگڑا ہوا ملک ہے۔

بھلا لٹیروں کے گھات میں وفا کیسے پھلے پھولے گی۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں لیکن تمھارے ملک کے گھٹن زدہ ماحول میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گا، ایمزین نے جواب دیا۔

تم محبت میں سیاست کو کہاں سے لے آئی ہو؟ محبت اور سیاست ازل سے الگ الگ ہیں۔

تم ایک مَضحَکہ خیز بات کر رہے ہو۔ ماڈرن نیشن سٹیٹس میں ریاستیں انسانی وجود کے ہر گوشے کو کنٹرول کرتی ہیں۔ جدید ریاستیں تمام انسانوں کو اپنے نظریات کے سانچے میں ڈھالتی ہیں: کبھی قومیت کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی اعلیٰ افکار کی بناء پر۔


آپ کے ذوق کی نذر:

ہم زاد افسانہ از، ضیغم رضا

لوڈنگ زون افسانہ از، بلال مختار

کن فیکون کہانی از، اعظم کمال


تو کیا اس ملک میں ریاست اپنے نظریات کا پرچار نہیں کرتی؟

بالکل کرتی ہے، لیکن یہاں پر نوعیت قدرے مختلف ہے۔ یہاں پر نظریات ایک ڈائیلاگ کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں، چِہ جائی کہ ریاست ہمیشہ اس طرح کے ڈائیلاگ کو طاقت کی بنیاد پر dominate کرتی ہے، لیکن چوں کہ مختلف فکر کے لوگ اپنی ہسٹری کی بنیاد پر اپنا اپنا منفرد وجود رکھنے کے لیے مُصِر ہوتے ہیں، اس لیے ریاست کبھی بھی یک طرفہ بیانیہ نافذ نہیں کر سکتی۔

لیکن تمھارے ملک کے حالات میں تو پہرے داری ہے، ایک جبری تسلط ہے۔ چوں کہ جبری تسلط انسانوں کو ان کے تشخص اور تاریخ سے مُنقَطِع کر دیتا ہے اور یہ اِنقِطاع ایک ایسے خلا کو جنم دیتا ہے جس کو کرنے کے لیے انسان کسی بھی نظریے، یا فکر پر ایمان لے آتا ہے۔

تم مانو یا نہ مانو، تمھارا ملک ایک ایسی راہ پر چل پڑا ہے جہاں ریاست ایک خاص فکری نصب العین کی تربیت و ترویج کر کے ایک ایسی نسل کی تشکیل کرے گی جس کا تمھارے کلچر، فکر اور تاریخ کے ساتھ کوئی رشتہ، تعلق نہیں ہو گا اور وہ نسل نہ صرف تمھاری نسل کے ساتھ، بَل کہ دوسرے معاشروں کے ساتھ  مسلسل ایک conflict کی صورت میں رہے گی۔

آج کا دن لکھ لو، “5 جولائی 1977؁ء تم اور تمھاری آنے والی نسلوں پر ایک فکری جنگ مسلط کر دی جائے گی، اور آنے والی ہزار ہا نسلیں اس فکری تعصب سے نہیں نکل پائیں گی۔

میں بھی کھجور کے درخت کے تلے تمھارے بچے جننا چاہتی ہوں، لیکن ان بچوں کی پروان، فکری تعصب کے ماحول میں نہیں کرنا چاہتی۔

میں ایسے بچے جننا چاہتی ہوں جو اپنی آزاد فکر کے سایے میں ایک بھر پُور زندگی جِئیں۔ وہ مجھے تمھارے ملک میں اگلی کئی صدیوں تک ہوتا نظر نہیں آتا۔

میں تمھیں نہیں روکوں گی کہ تمھاری ماں کی بوڑھی پسلیاں اور تمھارے باپ کے بوڑھے ہاتھ اب مزید اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔

جاؤ اُن کو اُن کے حصے کی راحت دو، لیکن میں تمھارے ساتھ چاہتے ہوئے بھی نہیں جا پاؤں گی۔

آخری باب

ایک خبر۔ ملتان میں دھماکا؛ 100 افراد ہلاک۔ تصویر دیکھ کر اپنے آفس میں بیٹھی ایمیزین کی آنکھیں آنسووں سے تر… اس میں نواز کی تصویر بھی شامل تھی۔