بوجھ

Junaid Jazib
جنید جاذب

بوجھ

افسانہ از، جنید جاذب (جموں کشمیر، انڈیا)

کام کا بوجھ کچھ ہلکا کرنے کے لیے اس نے ایک مشین خرید لی تھی۔ اور یہ فیصلہ اس کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ اب نہ صرف اس کا وقت بچ رہا تھا اور مشقت کم ہو گئی تھی بل کہ فصل کی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔

اپنی سال بھر کی ضرورتوں کا حساب لگانے کے بعد اُس سال کچھ اناج اس نے مارکیٹ میں فروخت بھی کر دیا تھا۔ پھر بھی نئی فصل کے تیار ہو جانے تک اس کے پاس پرانا غلہ پڑا تھا جو خراب ہونے لگا تو اس نے کچھ ناداروں کو بلا کر دان کر دیا۔ اگلے سال انھی لوگوں کو لگا کر اس نے کھیت سے متصل بے کار پڑی زمین سے خود رو پیڑ پودے کٹوائے اور اس میں بوائی کر دی۔

اپنے خالی وقت کو اس نے دوسری مشغولیات میں بانٹ لیا۔ سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینا اب اس کے لیے آسان تھا۔ جلد ہی اس کا شمار معاشرے کے سر کردہ لوگوں میں ہونے لگا۔ گھر، کھیت، کیچڑ، جنگل، تالاب کے گرد گھومنے والی زندگی میں اب گویا نئی ترجیحات نے جگہ بنا لی تھی۔

صحت تو خیر اس کی پہلے بھی بہت اچھی تھی اب چُوں کہ جسمانی محنت نہ کے برابر تھی اس کا ڈیل ڈول مزید نکھر گیا۔ یہ سب مشین کی بَہ دولت ممکن ہو پا رہا تھا جو کسی نعمتِ غیر مترقبہ کی طرح آ کر اس کی کایا پلٹ رہی تھی۔

خون پسینے سے سینچے ہوئے ان تین دیو قامت پیڑوں کو کاٹ بیچنے کا دکھ اسے ضرور ہوا تھا جن سے مشین کی قیمت ادا کی گئی تھی لیکن اب وہ پوری طرح مطمئن تھا۔ مشین اپنی قیمت سے زیادہ قیمتی تھی۔

سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ ایک دن اچانک مشین چلتے چلتے رک گئی۔ پچھلے سالوں کا تجربہ استعمال میں لاتے ہوئے اس نے بہتیرا کوشش کی کہ کیل پُرزے کَس کر اسے ٹھیک کر لے لیکن نا کام رہا۔ اس سے پہلے جب بھی کبھی اس میں مرمت کی ضرورت پیش آئی تھی آسانی سے ہو گئی۔ لیکن اس بار وہ سارے حربے اور ارد گرد کے سبھی مستری آزما چکا تھا۔ دس دنوں کے انتظار کے بعد شہر سے پہنچنے والا انجنیئر بھی ہار مان کر جا چکا تھا۔

کھیتی کا موسم جا رہا تھا اس لیے فی الحال اسے اپنے آپ پر ہی تکیہ کرنا تھا۔ سٹور سے پرانے اوزار نکال کر وہ کھیت کی طرف چل پڑا۔ اس روز اسے احساس ہوا کہ بڑھاپے نے اس کے جسم پر حق جمانا شروع کر دیا تھا۔

کام شروع کرنے سے پہلے اس نے سوچا کہ پہلے مشین کو کھیت سے باہر ہٹا دے۔ اس نے مشین بَہ مشکل کاندھے پر اٹھائی اور کھیت کے اس حصے کی جانب چل دیا جہاں کچھ کباڑ رکھا تھا۔

“کہاں جا رہے ہو؟” یہ آواز مشین کی تھی۔ لیکن وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کر گیا۔

“میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟” اب کی بار مشین کا ایک بڑا سا پرزہ زور سے اس کی کمر پر آ کر بجا۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔

“تمھیں کھیت سے باہر رکھنے جا رہا ہوں۔”

“اچھا تو جب تک میں کام کی تھی ساتھ چمٹائے رکھا، اور اب کام کی نہیں رہی تو مجھ سے چھٹکارا چاہتے ہو۔”

“ہاں ایسا ہی سمجھو۔”

“لیکن میں تمھیں چھٹکارا دوں تب نا!” مشین کے دو پُرزے لڑھکتے ہوئے اس کی گردن کے گرد حمائل ہو گئے۔

“کیا مطلب؟” وہ کچھ سہما لیکن آگے بڑھتا گیا۔

“مطلب یہ کہ اب تم مجھے اپنے کاندھے سے اتار نہیں سکتے۔”

“اوہم م م… دیکھتے ہیں، ” اس نے پورا زور لگا کر اس بوجھ کو پھینکنے کی کوشش کی۔

لیکن مشین نے اس کا اوپری دھڑ جکڑ لیا۔ اس نے اپنے بازووں میں پوری ہمت جٹا کر پھر کوشش کی کہ اس آفت کو اپنے جسم سے الگ کر سکے لیکن اس بار مشین کی پکڑ اور زیادہ مضبوط بل کہ درد ناک تھی۔

ایک درخت کے منڈ کا سہارا لینا چاہا لیکن سوکھا ہوا پیڑ اندر سے سڑ بھی چکا تھا۔ اچھا یہ ہوا کہ وہ اس کے اوپر آ گرنے کی بَہ جائے اس کے چھوتے ہی دھڑام سے دوسری طرف جا گرا۔

“چلتے جاؤ” مشین نے گرفت کچھ ڈھیلی کرتے ہوئے حکم صادر کیا۔

مشین کا وزن ہر لمحے بڑھ رہا تھا اور وہ مسلسل چلتا جا رہا تھا۔ کھیت کھلیان، گاؤں، چراہ گاہ، تالاب، جنگل، پہاڑ، دریا، نالے سب پیچھے چھوٹ گئے لیکن وہ چلتا جا رہا تھا۔