بلب

Iftikhar Baloch

بلب

افسانہ از، افتخار بلوچ

لوگ دیہاتوں سے ہجرت کرنے لگے۔ دریاؤں کے پانی کم ہوئے تو زراعت کو گرہن لگ گیا۔ شہر آباد تو تھے ہی اب کسی بیل کی مانند ہر سمت میں پھیلتے چلے گئے۔ نئی نئی آبادیاں قائم ہوئیں لوگ مکان بنانے لگے۔ عالم داد کالونی بھی اسی پھیلاؤ کی کوکھ سے پیدا ہوئی۔ شہر کی مرکزی شاہ راہ کے آخری سرے سے بائیں طرف کو ایک سڑک کھینچ کر کم و بیش ایک کلومیٹر کے فاصلے کے بعد یہ کالونی تعمیر نو تھی۔ اس ایک کلومیٹر کی سڑک کے ارد گرد کا علاقہ مختلف قسم کی جھاڑیوں سے اٹا ہوا تھا جس کے کچھ صاف حصے پر مغرب کے وقت سے پہلے تک کرکٹ کھیلی جاتی تھی۔ سڑک کے ارد گرد درخت بھی تھے یوں شہر کی نسبت یہ علاقہ ذرا سبز تھا اور لوگ اس ہریالی کو پسند کرتے تھے۔

عالم داد کالونی کے اندر سو کے قریب مکانات تھے جن کے مکین شہر میں کاروبار کرتے یا ملازمت کرتے تھے یوں ان کا کالونی سے صبح کے وقت جانا ہوتا اور مغرب کے بعد ان کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو جاتا جو رات کے گہرے ہونے تک جاری رہتا۔ باقی سارا وقت یہ سڑک سنسان رہتی۔ اس سڑک پر روشنی کے لیے صرف ایک کھمبا نصب تھا جس کا بلب عصر کے بعد سے جلنا شروع ہوتا اور دن کے پہلے پہر تک جلتا رہتا۔ اس کے بعد بلب بند ہو جاتا۔

عالم داد کالونی کے لوگوں کی دل چسپی کا باعث ایک ملنگ تھا جو رات کو بلب کے نیچے  سڑک پر پیروں کے بل بیٹھا رہتا اور سارا دن شہر کی مرکزی شاہراہ پر چہل قدمی کرتا رہتا۔ اس کے گرد سے اٹے ہوئے بال ایک دوسرے میں پیوست ہو چکے تھے اور داڑھی ضرورت سے زائد بڑھ چکی تھی۔ ملنگ کے کپڑے جو شاید کسی دور میں سفید تھے بے خودی کا دور سہتے سہتے کالے ہو چکے تھے۔

کسی کو اس ملنگ کی تعریف اور تاریخ کے متعلق علم نہ تھا اور نہ کبھی اس نے کسی سے بات کی نہ بھیک مانگی۔ وہ ساری رات بلب کے نیچے بیٹھا رہتا اس کے قریب سے گاڑیاں یا موٹر سائیکل زن سے گزرتے تو ایک نظر گردن اٹھا کر دیکھتا پھر سڑک کی ساخت گھورنے میں محو ہو جاتا۔ کچھ تصوف پسند لوگوں کا خیال تھا شاید یہ ملنگ کسی درگاہ کا کھویا ہوا مجاور ہے باقی لوگ اسے معمولی افیونچی سمجھتے انہیں اس کی حالت سے سروکار نہ تھا۔ مغرب کے بعد سے کرکٹ کے گراؤنڈ میں ٹولیاں بیٹھ جاتیں جن کے ارکان میں زیادہ نو جوان ہوتے بحث اور قہقہوں کی ملی جلی آوازیں بلند ہوتیں۔ کہیں پر کوئی تمباکو کو ہتھیلی پر مسلتے نظر آتا اور کہیں بوتل لڑھکی ہوئی نظر آتی۔

یہ لوگ حسبِ توفیق جب عالمِ خمار سے بیدار ہونے لگتے تو بہکتے قدموں کے ساتھ واپس آنا شروع ہوتے ایک نظر حیرت اور سرشاری سے اس ملنگ کو دیکھتے، مگر ملنگ نے کبھی توجہ نہیں کی تھی۔ ایک دو مرتبہ تو کچھ شریر نو جوانوں نے اس کے آگے شراب بھی رکھی مگر ملنگ نے نہ کوئی توجہ نہ ہی کوئی جواب دیا بِالاآخر نو جوان اسے طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

ایسی ہی ایک رات تھی جب تین نو جوان اپنے اپنے حصے کی شراب کے آخری گھونٹ پی رہے تھے اُن کی آواز کی رفتار دھیمی ہو چکی تھی اور آنکھوں میں ہلکی ہلکی جلن ہو رہی تھی۔ پہلے نو جوان نے آخری گھونٹ حلق سے نیچے بھیجتے ہوئے کہا:

“آج تو میں اس ملنگ کو پلا کر چھوڑوں گا۔ یہ دیسی کے نشے میں ایسا پاگل ہوگا کہ ناچے گا اور پھر میں اس پر پیسے لٹاؤں گا۔”

یہ بات سن کر باقی دو ہنسنے لگے۔ وہ نشے کی سیڑھیاں طے کرتے کرتے خلا تک آ پہنچے تھے اور زمین کہیں نیچے رہ گئی تھی۔ باقی دونوں کو یہ منصوبہ پسند آیا اور وہ حمایت کرنے لگے مگر یکایک ایک بولا:

“ابے کیا بکواس لگا رکھی ہے؛ شراب تو ختم ہو گئی گرو دیکھ بوتل خالی ہے۔” اس انکشاف پر تینوں بے ہنگم ہنسنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر سڑک پر آ گئے ان کے لیے قدم رکھنا محال ہو رہا تھا۔ ایک نو جوان نے ہاتھ میں خالی بوتل پکڑ رکھی تھی۔ ملنگ کے سامنے پہنچ کر اس نے بوتل رکھتے ہوئے کہا:

“ہاں جانی! پیے گا ولایتی ہے تیرے کام کی ہے۔”

ملنگ زمین گھورنے میں مصروف رہا اسے سروکار نہیں تھا کہ کوئی اس کے سامنے کھڑا کچھ پوچھ رہا ہے۔

“ابے یار بوتل خالی ہے اسے نہ چھیڑ دیکھ یہ ہم سے زیادہ نشے میں ہے۔” دوسرے نو جوان نے بیزار ہوتے ہوئے کہا:
“بوتل میں وہ شراب ہے جو نظر نہیں آتی راجے۔” بوتل رکھنے والے نو جوان نے مترنم لہجے میں کہا اور ملنگ کے آگے اپنا سوال دُہرایا۔

ملنگ کی بے توجہی دیکھ کر سوال کرنے والا نو جوان بے زار ہو گیا۔ کچھ توقُّف کے بعد وہ آگے بڑھا اور زور سے ملنگ کے کندھے پرلات دے ماری۔ ملنگ کو جیسے عالم فردوس سے بے دخل کر دیا گیا ہو، وہ چونک کر اٹھا اور تینوں پر جھپٹ پڑا مگر وہ تینوں بھاگ اٹھے۔ بھاگنے سے ان کے نشے نے ایک کروٹ لے لی۔


متعلقہ تحریر:

بدن میں ڈھلا چاند کہانی از، جواد حسنین بشر


چند قدم دوڑنے کے بعد رکے تو دیکھا کہ ملنگ اپنی جگہ پر بیٹھ چکا ہے اور بوتل غائب ہے۔ نا جانے ایک نو جوان کو کیا سوجھی کہ اس نے پتھر اٹھا کر ملنگ کو مارا مگر شاید ملنگ اسے بلب کی جگہ نصب نظر آیا اور پتھر بلب کو جا لگا۔

پتھر لگتے ہی بلب ہلکے سے دھماکے کے ساتھ چکنا چور ہو گیا اور سڑک تاریکی میں ڈوب گئی۔ تینوں پھر دوڑ پڑے کالونی پہنچ کر انہوں نے اپنا سانس بَہ حال کیا اور چائے کے ہوٹل پر بیٹھ گئے۔
اگلی صبح ہوئی لوگ شہر گئے مغرب کے بعد واپس آنا شروع ہوئے۔ سڑک پر اندھیرا تھا اور ملنگ بھی غائب تھا مگر کسی کو یہ تبدیلی متاثر نہ کر سکی۔ رات کو نشے میں دھت ٹولیاں بھی واپس آ گئیں مگر تبدیلی اتنی معمولی تھی کہ کسی کو ادراک نہ ہو سکا۔

اسی کیفیت میں ایک مہینہ گزر گیا۔ اس دورانیے میں اکا دکا لوگ اندھیرے سے پریشان  ہوئے وہ بھی اس وجہ سے کہ ان کی آنکھیں کم زور تھیں۔ لوگ یہ سوچنے لگے کہ ملنگ کہیں ہجرت کر گیا ہے۔ پچھلے ایک ڈیڑھ مہینے سے نہ وہ سڑک پر بیٹھا دکھائی دیا تھا نہ ہی مرکزی شاہ راہ پر چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ وقت گزرتا رہا مگر گزرتے وقت کے ساتھ بہت ہلکی کیفیت میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا کہ اس اندھیرے سے ایک بلب کی روشنی بہتر تھی۔

محمد اکمل جن کا شہر میں کپڑے کا کاروبار تھا ایک رات کالونی کے انتظامی دفتر میں ایسے داخل ہوئے کہ ان کا گریبان پھٹا ہوا تھا اور کنپٹی پر سرخ نشان تھا سانس کسی ترک گھوڑے کی مانند دوڑ رہی تھی۔ انہوں نے آ کر اپنے ساتھ اس سڑک پر ہونے والی واردات کا بتایا۔ اُن کے بَہ قول اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو نقاب پوش ان کی نقدی، موبائل اور موٹر سائیکل چھین کر لے گئے تھے۔ انہوں نے اکمل صاحب کے برابر اپنا موٹر سائیکل لا کر پستول کے زور پر انہیں روکا تھا۔

دفتر میں موجود لوگوں میں حیرت کی لہر دوڑ گئی۔ روشنی کی غیر موجودگی نے انہیں جھنجھوڑ ڈالا۔ فوراً پولیس کو بلایا گیا۔ پولیس نے معمول کے مطابق رپورٹ تیار کی۔ دو چار سڑک کے چکر لگائے اور چلی گئی مگر یہ بات کالونی کے ہر گھر میں داخل ہو گئی۔ یہ علاقے میں ہونے والی ڈکیتی کی پہلی واردات تھی۔

اگلی صبح انتظامی دفتر کی جانب سے نیا بلب نصب کر دیا گیا۔ اس رات سڑک پر پھر روشنی تھی مگر ملنگ نہیں تھا۔

کچھ دن زندگی سڑک پر روانہ رہی مگر اگلی ہی رات کالونی کے رہائشی شہر کی میونسپل کمیٹی کے ایک ملازم کو لوٹ لیا گیا۔ اس نے آ کر بتایا کہ پھر اندھیرے میں واردات ہوئی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سڑک پھر اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے اور بلب ٹوٹ چکا ہے۔ انتظامی دفتر والے تلملا گئے وہ امن کی ضرورت کو خوب سمجھتے تھے۔ اب کی بار تو جسم خوف اور حیرانی کا مجموعہ بن گئے۔ ایک مرتبہ پھر علاقائی تھانے میں شکایت درج کرائی گئی اور پولیس سے گشت کی استدعا بھی کی گئی۔ میونسپل کمیٹی والے اگلے دن بلب بھی لگا گئے اور پولیس بھی مغرب کے بعد پٹرولنگ کرنے لگی مگر لوگ خوف زدہ ہو چکے تھے۔

کرکٹ کا گراؤنڈ کھیل کے لیے بھی بند ہو چکا تھا اور محفلِ جام و مینا کے لیے بھی۔ لوگ حتی الامکان کوشش کرتے کہ مغرب سے پہلے ہی گھروں کو لوٹ آئیں۔ مگر جن کو دیر ہو جاتی وہ اس سڑک سے گزرنا ایسے بیان کرتے جیسے دو دشمن ملکوں کی سرحد پار کر آئے ہوں۔ چند دن تو پولیس کا جوش و خروش رہا مگر دھیمے دھیمے ماند پڑنے لگا۔ اُن کی گاڑی سڑک کے ایک سرے پر کھڑی ہو جاتی اور دو سپاہی گشت کرنے کے لیے آگے تک چلے جاتے۔ ان دنوں میں پولیس نے سڑک کے ارد گرد تمام علاقہ چھان مارا مگر کوئی سراغ نہ ملا۔

ایک رات جب پولیس کے اہل کار گشت پر پہنچے تو سڑک پھر اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان کی حیرت میں اضافہ ہو گیا۔ کچھ وقت تک تو وہ گاڑی کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سڑک پر گھماتے رہے مگر آدھی رات کے وقت انہوں نے گاڑی سڑک کے ایک سرے پر روک دی۔ دو سپاہی گشت کرنے کے لیے آگے چلے گئے۔ جب وہ گاڑی سے ذرا دور ہو گئے تو اچانک ان کے سروں کے پچھلے حصے پر وار ہوا اور دونوں بے ہوش ہو گئے۔

اگلی صبح کالونی کے ہر شخص کی زبان پر اس واردات کا تذکرہ تھا۔ لوگ ڈاکوؤں کی اس دیدہ دلیری پر حیران تھے کہ انہوں نے پولیس کو نشانہ بنایا تھا اور خوف اتنا ہو چکا تھا کہ کالونی پر لوگوں کو کسی آسیب کا سایہ نظر آتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو بھی مشکوک سمجھنے لگے۔

اتنے بڑے واقعات میں ان تین نو جوانوں کو اپنا کام بہت معمولی محسوس ہوا۔ وہ یہ ادراک ہی نہ کر سکے کہ پہلی مرتبہ بلب ان کے ہاتھوں ٹوٹا ہے اسی لیے انہوں نے اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا۔ لوگ سوچنے لگے کہ کیا سب گناہ گار ہیں جو سب پر آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ جو بھی جواب ان سے بَن پڑتا وہ جواب کم سوال زیادہ ہوتا۔ اُسی دن بلب ایک بار پھر نصب کروایا گیا یہ انتظامی کمیٹی کے صدر عارف حمید صاحب نے کروایا۔ انہی کی سربراہی میں چیدہ چیدہ لوگ تھانے بھی گئے مگر پولیس کے لہجے میں جھجک واضح تھی۔

کچھ دن اور گزر گئے خاموشی رہی سڑک عصر کے بعد سے ہی اب ویران رہنے لگی۔ اس دوران ایک دو مرتبہ پولیس کی گاڑی سڑک پر گشت کرتے نظر آئی مگر وہ گشت لگاتے اور تھانے چلے جاتے۔

صائمہ عارف، جو عارف حمید صاحب کی بیٹی تھیں، شہر کی کمپنی میں ملازمت کرتی تھیں۔ ایک رات عشاء تک وہ واپس نہ آئیں تو پوری کالونی میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ ان کا فون بھی بند تھا۔ کمپنی رابطہ کرنے پر معلوم ہوا تھا کہ وہ عصر سے پہلے ہی کمپنی سے روانہ ہو گئی تھیں۔ پولیس کو بلایا گیا اور انہیں ڈھونڈنے کا کام شروع ہوا۔ جب لوگ سڑک پر پہنچے تو دیکھا بلب ایک بار پھر ٹوٹ چکا ہے۔ رات کے آخری پہر وہ سڑک کے کنارے ایسی حالت میں ملیں کہ ان کے دوپٹے سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے تھے اور مُنھ میں کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا۔

مرہم پٹی کے بعد جب وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ عصر کے وقت شہر میں چلنے والی بس نے انہیں مرکزی شاہ راہ پر اتارا۔ گھر پہنچنے کے لیے کالونی کی سڑک پر کوئی رکشا وغیرہ موجود نہیں تھا انہوں نے اپنے گھر رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ اسی کوشش میں انہیں ذرا دیر ہوئی بِالآخر انہوں نے پیدل گھر تک آنے کا فیصلہ کیا۔ مگر ابھی وہ راستے میں ہی تھیں کہ تین نقاب پوشوں نے جھاڑیوں سے نکل کر انہیں دبوچ لیا۔ پہلے زدوکوب کیا پھر پرس وغیرہ لے اڑے اور انہیں جھاڑیوں میں بندھا پڑا رہنے دیا۔

اس واردات کا شدید نفسیاتی اثر ہوا۔ ایک تو شام کو اس وقت یہ واردات ہوئی جب روشنی تھی دوسرا اس گھر کے فرد کو شکار بنایا گیا جس گھر کے سربراہ نے اس کالونی کی بے لوث خدمت کی تھی۔ لوگ ہڑبڑا اٹھے اب ان کا خوف شدید غصے میں بدل گیا تھا۔ مگر ڈاکو ان کے سامنے نہیں تھے سو وہ ایک دوسرے کو ہی مشکوک کر کر کے دیکھنے لگے۔ بلب کے بار بار ٹوٹ جانے سے بھی انہیں جھنجھلاہٹ تھی اور دن کی واردات کا تو یہ مطلب تھا کہ اب دن کو بھی اس سڑک سے نہ گزرا جائے۔ کالونی کو شہر کے ساتھ جوڑنے والی یہ واحد سڑک ہی تھی لوگوں اس سڑک کی رات سے تو جدا ہو سکتے تھے دن کو کیسے قربان کرتے!

اگلے دن انتظامی کمیٹی کی جانب سے چوکی دار متعین کرنے کی تجویز منظور ہو گئی۔ چوکی دار کا مقصد رات کو سڑک پر گشت کرنا تھا۔ اسی دن ایک اور بلب لگا دیا گیا مگر چوکی داری کے لیے کوئی رضا مند نہیں ہوا۔ تین چار دن کی کوشش کے بعد ایک شخص نے چوکی داری کی ذمے داری قبول کر لی۔
چوکی دار عصر کے بعد سے ہی سڑک پر گشت کرنے لگتا۔ وہ سائیکل پر سوار ہوتا اس کی بندوق کندھے سے لٹک رہی ہوتی۔ ہر چکر کے بعد وہ سیٹی بجا دیا کرتا۔ کبھی رات کو پولیس بھی اس کا ہاتھ بٹانے آ جاتی مگر کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد وہ لوگ چلے جاتے۔

یوں مزید کچھ اور دن گزر گئے سڑک کا بلب جلتا رہا اور واردات بھی کوئی نہ ہوئی۔

کچھ روز بعد حسبِ معمول چوکی دار گشت میں مصروف تھا کہ اچانک سڑک ہلکے سے دھماکے کے ساتھ اندھیرے میں ڈوب گئی۔

چوکی دار نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا سیٹی مُنھ میں لگائی مگر بجانے سے پہلے ہی درخت کے تنے کی طرح سڑک پر آ گرا۔ کچھ دیر بعد اُسے ہوش آیا تو اندھیرے میں اُسے کچھ سُجھائی نہ دیا۔ ہوا کے ہلکے جھونکے اُسے اور خوف زدہ کر رہے تھے۔ اس کے سر میں تیز ٹِیس ابھر رہی تھی۔ کسی طرح اس نے ہوش بَہ حال کیے اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ کالونی کی طرف روانہ ہو گیا۔ نہ اُس کا بٹوا رہا تھا نہ سائیکل نہ فون اور نہ بندوق۔ اسے تو بندوق سنبھالنے کی نوبت ہی نہیں دی گئی تھی۔

اگلی صبح کالونی کے انتظامی دفتر کے باہر لوگ جمع تھے۔ اُن میں بزرگ بھی تھے نو جوان بھی تھے اور اس خوف کے ماحول کے تدارک کے لیے صلاح مشورہ ہو رہا تھا۔ ملی جلی آوازوں میں چند بار ملنگ کا ذکر بھی ہوا تھا جب ایک بزرگ نے سب کو خاموش کراتے ہوئے کہا:

“پولیس جو خود لُٹ گئی ہے۔ انہوں نے کتنے سرچ آپریشن کیے۔ کتنی بار گھات لگائی مگر یہ ڈاکو نظر ہی نہیں آتے۔ چلتے بندے پر ایسی خوف ناک خاموشی سے وار کرتے ہیں۔ اب تو ہماری چوکی داری بھی کوئی نہیں کرے گا۔ مجھے لگتا ہے اُس ملنگ کے ساتھ شاید ہم نے کوئی زیادتی کی ہے۔” بزرگ خاموش ہو گیا تھا۔ اس کی جُھریوں سے لدی ہوئی آنکھیں لوگوں کو دیکھ رہی تھیں۔

اسے یہ بات تنگ کر رہی تھی کہ جرم جتنی رفتار سے اس سڑک پر بڑھا یہ جرم نہیں یہ انتقام ہے!

مجمع سے آوازیں ابھرنے لگیں۔ وہ نو جوان بھی موجود تھے جنہوں نے ملنگ کو مارا تھا مگر وہ خاموشی پہنے کھڑے رہے۔

“اب اس کا حل کیا ہو گا؟” ایک طرف سے آواز ابھری۔ یہ آواز عارف حمید صاحب کی تھی۔ ان کی سوچ کسی دروازے پر آ پہنچی تھی۔ جہاں سے جرم اپنا روپ بدل کر نکل سکتا تھا اور اتنا ادراک کروا سکتا تھا کہ وہ جرم ہی نہ محسوس ہو۔

 “سارے پڑھے لکھے ہو۔ میری بات سمجھنا۔ ہم سے روشنی روٹھ گئی ہے۔ جب روشنی روٹھ جائے تو پھر پورے معاشرے کو خراج دینا پڑتا ہے۔ یہ خراج ہے جو ہم دے رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا قصور کیا ہے، مگر سزا سب کو مل رہی ہے اس کا مطلب ہے گناہ ہم میں سے ہی ہوا ہے۔ میں تو کہتا ہوں سارے چندہ جمع کر کے ایک بلب لو اور سڑک پر لگا دو۔ سارے جمع کرو ایک ایک روپیہ ہی آئے گا،” اُسی بزرگ نے غم زدہ لہجے میں کہا۔

چندہ جمع کرنا شروع ہوا ہر گھر سے ایک ایک روپیہ لے کر بلب لیا گیا۔ شام ہوتے ہی سڑک اپنے واحد بلب کی روشنی میں منور تھی مگر یہ وہ بلب تھا جس کی اہمیت اور چاہت عالم داد کالونی کے ہر فرد کو محسوس ہو رہی ہے گو کہ بلب سستا تھا مگر سب کی توجہ اور پریشانی اُسے خرید لائی تھی۔
سڑک پر واردات نہ ہوئی۔ مہینہ گزر گیا؛ چھ ماہ گزر گئے۔ سڑک پر مغرب کے بعد بھی لوگ گزرتے دکھائی دینے لگے اور کرکٹ کا گراؤنڈ بھی آباد ہو گیا۔