بدن میں ڈھلا چاند

Jawad Husnain Bashar

بدن میں ڈھلا چاند

کہانی از، جواد حسنین بشر

وہ میرے سامنے بیٹھی ہے۔ اُس کا دُھلا دُھلا اور روشن تر چہرہ میری نگاہوں کو تھامے ہوئے ہے۔ میں فرش پر گھٹنے ٹیکے، اُس کی نرم ملائم گداز رانوں پر ہاتھ رکھے، اُس کے رُو بَرُو ہوں۔

میں نے ذرا دیر کو کھلی اور کشادہ کھڑکی پر نظر دوڑائی ہے۔ پورے چاند کی رات اپنے لبوں پر ایک دل نواز مسکان لیے کمرے میں جھانک رہی ہے۔ نرم لطیف اور تازہ ہَوا کے جھونکے، میری جان کی مہکتی سانسوں کو اپنے پَروں پر اٹھائے کمرے میں دیوانہ وار رقصاں ہیں۔ اور ماحول کو معطر کیے دے رہے ہیں۔

’’منظر کس قدر رومانوی ہے،‘‘ میں نے کھڑکی سے نظریں ہٹائے بنا کہا ہے۔ وہ میرے معنی خیز لہجے پر، پوری طرح سے مسکرائی ہے۔ اُس کے دَہن سے موتی اڑ کر، دیکھتے ہی دیکھتے، باہر چاند کے آس پاس، سُرمئی مدھم نیلگوں رات کے پردے پر ستارے بن کر چمکنے دمکنے لگے ہیں۔

میں نے پھر سے اپنی بے تاب نگاہیں اُس کے مسکراتے شفاف گلابی چہرے پر پھیلا دی ہیں۔ اُس پر سیاہ رنگ کس قدر جچتا ہے۔ پہلی بار جب میں نے اُسے دیکھا تھا تو وہ سیاہ لباس ہی پہنے ہوئے تھی،’’اور سرخ رنگ بھی؟‘‘ وہ ایک دم مدھر آواز میں بولی ہے۔ جیسے اُس نے میرے دل کی بات سُن لی ہو۔ وہ پھر بولی ہے،‘‘ ابھی کچھ دیر بعد آپ مجھے سرخ رنگ ہی پہنانے والے ہیں ناں؟ ۔۔۔’’ میں اپنے ہاتھوں سے پہناؤں گا۔‘‘

اور پھر میرے ہاتھ پھسلتے ہوئے، اُس کی نرم ملائم گداز رانوں کے آغاز پر ٹھہر گئے ہیں۔ چاند سیاہ بادلوں کے پیرہن میں چھپا ہوا ہے۔ اچانک چاند سرمئی مدھم نیلگوں رات کے پردے سے اتر کر میری جان کے بدن میں ڈھل گیا ہے۔ رات کے پردے پر صرف اُس کے داغ رہ گئے ہیں، اب گویا بدن میں ڈھلا چاند میرے سامنے بیٹھا ہے۔ بے داغ، سیاہ بادلوں کے پیرہن میں ملبوس، اس فرق کے ساتھ کہ اب اُس کے گردا گرد چاندنی کے ہالے میں ہلکا گلابی رنگ بھی نمایاں ہے۔

میری انگلیاں دونوں جانب سے، سیاہ پیرہن کے تکونی خیمہ دروازوں سے اندر کھسک رہی ہیں، اور پیرہن کسی پردے کی طرح اوپر اور اوپر اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ بدن میں ڈھلے چاند کا اوپری نصف اپنی تمام تر شفافیت، بے داغی اور پُر نوری سمیت میری نگاہوں پر آشکار ہو رہا ہے۔ بدن کے لطیف حاشیوں کے حصار میں، سڈول پن میں ڈوبے، تمام نشیب، تمام فراز، ہمیشہ کی طرح میری نگاہوں کو خِیرہ کیے دے رہے ہیں۔

اور پھر زیریں نصف، بادلوں کے پیرہن کے درمیان جیسے شگاف سا پڑ گیا ہو، اور پھر شگاف کے دونوں کنارے باری باری کھسکتے، اترتے، دور ہٹتے ہٹتے جیسے رات میں کہیں تحلیل ہو گئے ہیں۔ بدن میں ڈھلا پورا چاند میرے سامنے ہے۔ میری نگاہوں کو تھامے ہوئے۔

لمحات ٹھہر سے گئے ہیں۔ جذبات اور احساسات بھیگنے لگے ہیں۔ تم کس قدر خوب صورت ہو! میرے وجود نے سَر گوشی کی ہے۔ صرف آپ کے لیے، اُس نے پلکوں سے پیغام دیا ہو جیسے…

ماحول میں خنکی ہے۔ اُسے ٹھنڈ نہ لگ جائے، مجھے اپنا کام کر لینا چاہیے۔ میں جانتا ہوں، یوں ہلنے جلنے سے اُسے تکلیف ہوتی ہے۔ بازو اور ٹانگیں اور کمر، لیکن یہ ضروری ہے، اور مجھے ہی کرنا ہے، کوئی اور کیوں کرے بھلا۔ میں اِسے فرض سمجھتا ہوں، اُس نے میرے اندر کی خود کلامی سُن لی ہو جیسے۔ اُس کی آنکھوں میں تشکر جھلکنے لگا ہے۔

میں پوری توجہ اور احتیاط سے اُسے چُھو رہا ہوں، بس تھوڑی دیر، تھوڑا سا اوپر، ذرا اِس طرف، ہاں، بس ہو گیا، آہ، اُس کے ہونٹوں سے سسکاری سی بلند ہوئی ہے۔ میں جھجک سا جاتا ہوں ایسے میں۔ لیکن مجھے اپنا کام کرنا ہے۔ یس مائی لَو، مائی ڈیئر، ہو گیا، دیٹس لائک اے گُڈ گرل…

***

میں نے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر جھانکا ہے۔ چاند سرمئی مدھم نیلگوں رات کے پردے پر پھر سے جا ٹھہرا ہے۔ میری جان میرے سامنے بیٹھی ہے؛ وہیل چیئر پر۔

میں فرش پر گھٹنے ٹیکے اُس کے رُو بَرو ہوں، میرے ہاتھ اُس کے زانوؤں پر پشت کے بل رکھے ہیں، اور اُس کے نرم و نازک ہاتھ میری ہتھیلیوں پر سجے ہیں۔ سرخ رنگ اُس پر کس قدر جچ رہا ہے۔

‘‘اب خوش؟’’ اُس نے ایک دم چہک کر پوچھا ہے، جیسے پھر سے میرے دل کی بات سُن لی ہو۔ ‘‘ہاں! بہت خوش، my wife you are looking so so beautiful my love ’’، ۔۔۔’’سچ میں؟‘‘ وہ گنگنائی ہے، ’’ہاں ناں!‘‘میں نے آنکھ ماری ہے۔

کب تک میرا بوجھ اٹھاؤ گے۔ یوں ہی اپنے ہاتھوں سے میرے کپڑے بدلتے رہو گے۔ مجھے کھلاؤ پلاؤ گے۔ میں شاید کبھی ٹھیک نہیں ہو پاؤں گی۔ میرا یہ مفلوج پن شاید کبھی ٹھیک نہ ہو، اُس کے اداس لہجے میں بلا کی سوالیہ کاٹ ہے…


جواد حسنین بشر کی ایک روزن پر دیگر تحریروں کا لنک


’’ایسا مت کہو! تم ٹھیک ہو جاؤ گی، اور کیا کہا؟ میں کب تک ایسا کروں گا؟ وہ کھڑکی سے باہر چاند دیکھ رہی ہو؟ رات کے پردے پر مسکراتا چاند، اور اُس کے آس پاس ستارے۔ میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ میری نگاہیں اس منظر سے ہٹیں تو تمہارا دھلا دھلا اور روشن تر چہرہ، میری نگاہوں کو دیر تک تھامے رکھنے کے لیے میرے سامنے موجود نہ ہو۔ کبھی بھی نہیں چاہوں گا میں ایسا۔ یہ مجھے ہی کرنا ہے، کوئی اور کیوں کرے بھلا؟ میں اسے فرض سمجھتا ہوں۔‘‘

میں نے اُس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھام لیا ہے اور اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے قریب لے جا کر ہمیشہ کی طرح اُس کے ماتھے پر اپنے گہرے پیار کا لمس ثبت کر دیا ہے، جیسا کہ اُسے پسند ہے…

“میرا خوف دور کرنے کا شکریہ!‘‘ اُس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے نظر بھر کر دیکھاہے، اور میری آنکھوں کے کناروں پر بھی جیسے موتی سے چمکنے لگے ہیں۔