اختیارات و وسائل کی مقامی سطح تک منتقلی؛ دائروں کا سفر

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

اختیارات و وسائل کی مقامی سطح تک منتقلی؛ دائروں کا سفر

از، اسد الرحمٰن 

پاکستان میں بنیادی جمہوریتوں کے الیکشن کا پہلا انعقاد غالباً 1956 میں ہوا تھا۔ اس کی بھی حدود غالباً شہروں تک یا سٹی میونسپلٹی تک ہی محدود تھیں۔ اس کے بعد ایوب صاحب نے بنیادی جمہوریتوں کی بنیاد پہ لوکل حکومت کا ڈھانچہ پیش کیا۔ اس میں انتخابی نمائندوں کی بَہ جائے اختیار بیُوروکریسی کے پاس زیادہ ہوا کرتا تھا۔

بھٹو صاحب جب نئے پاکستان میں منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی ایک قانون پیش تو کیا لیکن اس کو منظور کر کے انتخابات کروانے کی بھی ضرورت ہی کبھی نہ محسوس کی گئی؛ بل کہ آج تک پیپلز پارٹی میں لوکل حکومت کے خلاف ایک معاندانہ رویہ موجود ہے۔

اس کے بعد ایک بار پھر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا اور دو بارہ سے لوکل باڈیز کے انتخابات کے ذریعے اختیارات کی منتقلی کا ایک سوانگ رچایا۔ تاہم یہ بات کسی حد تک اہم ہے کہ پنجاب کے شمالی اور مشرقی اضلاع ( گُوجراں والا، روال پنڈی اور لاہور) میں جو سیاست پروان چڑھی، جس کا کسی حد تک تعلق ‘ترقیاتی’ کاموں سے جوڑا جاتا ہے، وہ اسی دور کی صورت میں سامنے آئی کہ جس میں ترقیاتی فنڈ نچلی سطح تک منتقل ہوئے۔


متعلقہ تحریر ملاحظہ کیجیے:

مقامی حکومت کو در پیش مسائل کا جائزہ از، ذوالفقار علی لُنڈ


بعد ازاں بے نظیر صاحبہ کی حکومت میں یہ ترقیاتی فنڈز ایک بار پھر صوبائی اور قومی نمائندوں کی جانب منتقلی کا سفر شروع ہوا جس کو اوجِ ثریا تک لے جانے میں اہم کردار میاں صاحبان کی حکومتوں نے ادا کیا۔ لیکن یہ سفر مقامی حکومتوں کی قیمیت پہ ہی ادا کیا گیا۔ اس کی قیمیت سب سے زیادہ دیہی علاقوں نے بھگتی کہ جہاں پہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ریاستی بیُوروکریسی اور  اداروں سے اوجھل رہے؛ جب کہ سیاسی نمائندے بھی اتنے بڑے حلقوں کی نا تو نمائندگی کر پائے اور نہ ہی ان کی ضروتوں کا خیال۔

ہندوستان ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں نوے کی دھائی کے بعد ایک ’بگ بینگ ڈی سینٹرلائیزیشن‘ (Big Bang decentralisation) کا آغاز ہوا کہ جس کی بنیاد پہ مقامی حکومتوں کے جمہوری ڈھانچوں کی بنیاد رکھی گئی۔ پاکستان میں بھی یہ تجربہ ایک نئی فوجی حکومت نے 2001 میں دہرایا لیکن 2008 میں ‘جمہوریت کی واپسی‘ کے بعد اس تجربے کو ہر جگہ پہ کالعدم قرار دے کر پہلے سے زیادہ ‘جمہوری” مقامی نظام لانے کی نوید سنائی گئی۔

پانچ سال تک تو کوئی ایسا نظام سامنے نہ آیا لیکن پھر سپریم کورٹ کے اصرار پہ جب 2015 میں انتخابات کروائے بھی گئے تو اس کے نتیجے میں اختیارات کی منتقلی کی جانب کوئی توجہ نہ دی گئی۔ بل کہ پنجاب کی حد تک تو قریباً پندرہ محکمے جن میں تعلیم، صحت، ماحولیات وغیرہ بھی آتے ہیں ان کو پہلے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت مقامی حکومتوں سے واپس لے لیا گیا؛ اور اب ایک بار پھر عمران خان کی حکومت نے دو بارہ پچھلی مقامی حکومتوں اور قانون کو کالعدم قرار دے کر ایک نیا بِل سامنے لانے کا اعلان کر رکھا ہے جس کی بنیاد پہ انتخابات شاید ہی کبھی ہوں پائیں۔

پاکستان میں سویلین اور ملٹری کے اس دائروں کے چکر میں مقامی حکومتوں پہ کوئی سنجیدہ بحث ہی موجود نہیں ہے۔ مقامی حکومتوں کو ہمیشہ ایک سیاسی انجنیئرنگ کے اوزار کے طور پہ دیکھا جاتا ہے جب کہ سیاسی جماعتیں ان کو محض ‘شور‘ (noise) سمجھتی ہیں۔

پاکستان میں سیاست ابھی تک مرکز مخالف، قومیتی اور صوبائی خود مختاری کے دائروں سے ہی باہر نہیں نکل پائی۔ اس کی وجہ سے آج بھی ایک عام (خاص طور پہ دیہات کا رہنے والا) شہری محرومی اور عدم نمائندگی کا شکار ہے۔ سوائے ایم کیو ایم کے دیگر کسی جماعت نے آج تک مقامی حکومتوں کو اپنے منشور کا سنجیدہ حصہ نہیں بنایا ہے۔

بڑی سیاسی جماعتیں جیسے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بھی ابھی تک صوبے اور ڈسٹرکٹ کے ما بین اختیارات کی تقسیم کے کسی فارمولے پہ متفق نہیں ہیں، جس کی ایک وجہ شاید ان جماعتوں کے قائدین کے اندر کا خوف اور غیر یقینیت بھی ہے۔

تاہم اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جماعتوں کو بیوروکریسی پہ زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ریاست کے وہی ادارے کہ جو نو آبادیاتی دور سے ہمارے خطوں میں ریاست کی رٹ بنانے کے لیے بنائے گئے تھے اپنا حصہ وسائل اور اقتدار میں بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔