درد نا تمام 

Mir Nasrullah Sajidi میر نصراللہ ساجدی

درد نا تمام

 کہانی از، میر نصراللہ ساجدی

آخر ہمارے اصرار پر شبیر نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔

“جون کا مہینہ تھا اور کڑکڑاتی گرمی۔ میں اور نصر صبح کے نکلے ہوئے تھے۔ اور چار بج چکےتھے۔ سورج کی گرمی اور تیز شعاعیں ہمیں پناہ لینے پر مجبور کر رہی تھیں۔ آخر کار ہم اس اجڑی ہوئی جھونپڑی کے نزدیک آ کر رکے۔ ہمارے ارد گرد پرانی سیستان کے کھنڈرات تھے۔ مردہ گرم اور خشک۔

ادھر ادھر خاموش اور سیدھے درخت تمازت آفتاب سے پناہ مانگ رہے تھے۔ گرم ہوا جہنم کی لُو معلوم ہو رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ شاہ خاور آج پورے جوبن پر ہیں اور پوری قوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انسان تو کیا حیوان بھی نظر نہ آتا تھا۔ سیستان جو کبھی نوابوں اور سرداروں کی آرام گاہ اور جائے پناہ تھی آج خود سورج کی گرمی سے مغلوب، خالی خالی اور سوئی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

شاید اسی لیے کہ اس وقت نو جوان تھی اور زندگی سے بھر پُور اور آج بوڑھی تھی۔ اور زندگی سے بے زار۔ شاید وہ عروج تھا اور آج زوال۔

ہمارے گلے خشک ہو رہے تھے۔ ہماری آنکھیں پیاسی معلوم ہوتی تھی اور ہم فوراً آرام گاہ اور ٹھنڈے پانی کے لیے بے تاب تھے۔

وہ اجڑی ہوئی جھونپڑی ان تمام چیزوں کا وعدہ کر رہی تھی۔ اور ہم اس کے باہر کھڑے ہو گئے۔

ہم نے جھونپڑی میں جھانکا، لیکن ہھماری آنکھیں ابھی اندھیرے کی عادی نہ تھیں اور اسی لیے ہمیں کچھ نظر نہ آیا۔

“کون” ہے؟ اندر سے آواز آئی۔

“راہ گیر” اندر آنے کی اجازت ہے؟ ہم نے کہا۔

“ تشریف لائیے۔”

اور ہم اندر چلے گئے۔ اندر واقعی ٹھنڈک تھی۔ ہمارے ہوش و حواس درست ہوئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا جہنم سے بہشت آ گئے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد ہماری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے لگیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مختصر سی اور سادہ سی جھونپڑی تھی۔ لیکن نہایت صاف اور ستھری ۔ وہاں چند ایک برتن تھے اور ایک مٹی کا گھڑا۔ ایک بوڑھا نحیف و نزار انسان گھڑے کے نزدیک بیٹھا تھا۔

“پانی کا ایک گلاس لے لیجیے گا،” اس نے کہا۔

“جی، شکریہ۔”

اس نے ہمیں ایک پانی کا گلاس اور مٹھی بھر چنے دیے۔ ہمیں گویا ایک نئی زندگی مل گئی۔ میں جھونپڑی کے اندر ہر چیز کا بَہ غور معائنہ کرنے لگا۔ یکا یک مجھے ایک قبر سی نظر پڑی۔

“وہ کیا ہے؟” میں نے سوال کیا۔

“ کچھ نہیں حضور!” اس نے جواب دیا۔

کچھ تو ضرور ہے! کیا اٹھ کر دیکھ سکتا ہوں؟ میں نے پھر کہا۔

“قبر ہے۔” اس نے کہا۔

“کس کی؟” میں نے فوراً پوچھا۔

“ماہکاں“ کی۔

“خوب بھئی” ماہکاں کون؟ شبیر نے بھی دل چسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ اس سے تو ایک زبردست رومان وابستہ معلوم ہوتا ہے۔ ہاں اور میری زندگی کا آخری راز بھی ہے۔”

اور ہمارے کہنے پر اس نے بیاں کرنا شروع کر دیا۔

“یہ چٹیل میدان جو آپ کو نظر آ رہا ہے آج سے چند سال پہلے ایک سر سبز اور خوش حال گاؤں تھا۔ بوڑھے اور جوان سبھی قسم کے لوگ رہا کرتے تھے۔ بڑے خوش حال اور دولت مند۔ اور آپس مین نہایت صلح صفائی سے زندگی کے دن بسر کرتے تھے۔

گاؤں زندگی سے بھر پُور تھا اور جوانی سے لب ریز تھا۔ گاؤں کی لڑکیاں صبح کے وقت گاؤں کے کنویں پر پانی بھرنے جمع ہوتیں۔ گویا گاؤں کی خوب صورتی کنویں کے ارد گرد جمع ہوتی۔ سب خوب صورت تھیں، مگر ماہکاں ان سب سے زیادہ حسین تھی۔

اس کی جوانی چاند کی نقرئی کرنوں سے زیادہ پاک تھی۔

وہ مسکراتی تو یوں معلوم ہوتا گویا ہزاروں دوشیزگیاں اس کے لبوں پر رقص کر رہی ہیں۔

اس کے خیالات حسن اور عشق کی گھاتوں سے نا واقف تھے۔

اس کی غزالی آنکھوں میں کشش تھی۔ اس کی آنکھوں میں دنیا اور دنیا کے رنگ، رنگ اور رنگوں کے ترنم، ترنم اور ترنم کی لرزش، لرزش اور لرزش کی تصویریں، تصویروں اور تصویروں کا حسن، حسن اور حسن کی شعریت۔

غرض سب کچھ ان کی آنکھوں میں پنہاں تھا۔

اس کا چھوٹا سا دل غم فرد سے آزاد تھا۔

انہی دنوں اس کی ملاقات ایک نو جوان دیہاتی سے ہوئی۔ اور وہ اس کے اخلاق، اس کے مردانہ حسن اور اس کی پُر خلوص باتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ حقیقتاً اس عمر میں ہر چیز حسین معلوم ہوتی ہے۔ ملاقات نے دوستی کے شکل اختیار کی؛ اور دوستی آہستہ آہستہ محبت میں بدلنے لگی۔ وہ ان دنوں نہایت قانِع اور شاکر نظر آتی تھی۔

انہی دنوں گاؤں میں کالج کا ایک نو جوان چھٹیاں بسر کرنے آیا۔

وہ شہری تھا۔ اعلیٰ کپڑے پہنتا تھا۔ اس کے ہاتھ ملائم تھے۔ ایک

 رنگین شام کو اس نے ماہکاں کو دیکھا اور ماہکاں نے اس کو۔ اور مخمور نگاہوں والی ماہکاں گھائل ہو کر ایک طرف چل دی۔ بے خود اور سرشار وہ نو جوان سے ملنے لگی۔ نو جوان کالج کا طالبِ علم تھا۔ عشق کے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے سمجھتا اور جانتا تھا۔ وہ روز عشق و محبت کے بناوٹی افسانے بیان کرتا تھا۔ اور ان کی قدر و قیمت جانتا تھا۔ لیکن ماہکاں ان باتوں سے بے خبر تھی۔

وہ کئی کئی گھنٹے دنیا کی آنکھوں سے بے خبر اپنے مستقبل کے متعلق سوچتی رہتی تھی۔ اور ان مختصر دنوں میں وہ اپنی زندگی کی مکمل مِعراج پر تھی۔


یہ بھی دیکھیے:

سارہ کہانی از، نادیہ عنبر لودھی

عمادالدین کی بیوی ایسی کیوں ہے؟ کہانی از، منزہ احتشام گوندل

کچی مٹی تو ہر جگہ کی ہی مہکتی ہے! انسان را، انسان را، انسان را… ۔ از، یاسر چٹھہ


اس نے ان دنوں اپنی جنت خود بنا رکھی تھی۔

اس کی چال میں اور زیادہ رعنائی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کے چہرے کی خوب صورتی اور زیادہ ترقی پذیر تھی۔ اور وہ دنیا سے بے نیاز تھی۔ اور دنیا اس سے بے خبر۔

زمانہ کروٹیں بدلتا ہے۔ اور کسی کے لیے مسرت اور کسی کے لیے ملال لے کر۔ آخر شہری کے جانے کے دن آن پہنچے۔ ماہکاں رونے لگی، “میں تمہارے بغیر کیسے زندگی بسر کروں گی۔ تمہارے وہ سارے وعدے کیا ہوئے۔ ہماری وہ تمام تجویزیں کدھر گئیں؟”

شہری نے اسے تسلی دی۔

گھبراؤ نہیں۔ میں جاؤں گا اور بہت سے زیورات اور روپیہ لے کر آؤں گا۔

تمہارے ساتھ شادی کروں گا۔

اور پھر شہر میں چل کر رہیں گے۔

کیا تم میرا انتظار نہ کرو گے؟

آنسو خشک ہوگئے۔ ماہکاں نے حلفِ وفا داری اٹھایا اور وہ چل دیا۔

وہ چلا گیا۔ ماہکاں کی آنکھیں ایسی مرجھا گئیں جیسے موسمِ سرما میں دریا۔ اس کے قدم ڈھیلے پڑ گئے اور وہ اس کا انتظار کرنے لگی۔

دن گزرتے گئے۔ ہفتے بیت گئے۔ ہفتے بیت کر مہنیے بن گئے۔ مہینوں نے سالوں کی شکل اختیار کر لی۔ اور وہ بھی ایک دوسرے پر جمع ہونے لگے۔

اور وہ اس کا انتظار کرتی رہی۔ مگر انتظار نے ملاقات کا روپ نہ دھارا۔ دیہاتی آیا۔ اس کو پرانے وعدے یاد دلائے۔ اس بے وفا کو بھول جانے کے لیے کہا۔ مگر اس کا ایک ہی جواب تھا،“میں تمہارے قابل نہیں۔” میں اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھارہ انتظار کروں گی۔

شاید وہ سچا ہو۔

شاید وہ کسی حادثے سے دو چار ہوا ہو۔

شاید وہ بیمار ہو۔ اور شاید وہ… وہ مر ہی گیا ہو۔

وہ اس امید پر زندہ رہی کہ شاید وہ آ جائے… صرف امید پر…

امید… کم زوروں کے دل کا آسرا، بے وقوفوں کے دماغ کا سہارا، انسانی دماغ کی اختراع، جھوٹی تسلی دینے والوں کا تکیۂِ کلام۔ لفو لفظ۔ بے معنی حرف۔

دیہاتیوں نے اسے سمجھایا، منایا، ڈرایا، دھمکایا۔ مگر وہ چٹاں کی طرح مضبوط اور ثابت رہی۔

ماہکاں بوڑھی ہو گئی۔ تمام گاؤں کے اصرار کے با وجود اس نے دیہاتی سے شادی نہیں کی۔ وہ کم زور اور نا تواں ہو گئی۔ گاؤں میں پلیگ پھیل گئی۔ گاؤں والے وہاں سے کوچ کر گئے۔ رفتہ رفتہ گاؤں کی خوش حالی اور زرخیزی، سر سبزی معدوم ہونے لگی۔

آبادی کم ہوتی گئی۔

اور آخر کار گاؤں اجڑتے اجڑتے صرف اس کا جھونپڑی رہ گئی۔ مگر اس کے پائے استقلال میں ذرا جنبش نہ ہوئی۔

وہ اس امید پر، موہوم امید پر جس کو وہ سمجھتی تھی غلط ہے، لیکن زندہ تھی کہ شاید وہ واپس آ جائے۔

رفتہ رفتہ وہ مانوس ہوتی گئی۔ اسے انتظار میں لطف آنے لگا۔ وصال کی خواہش مرتی گئی۔ زمانے نے اس کو بدل دیا۔ وہ اور زیادہ بوڑھی ہو گئی۔ اس کی کمر خمیدہ ہو گئی۔ اس کا چہرہ زرد ہو گیا۔ اور اس کی

جوانی کا ایک بھی آثار باقی نہ رہا۔ لیکن وہ انتظار کرتی رہی۔ گھنٹوں سڑک پر بیھٹتی رہتی۔ شاید وہ آ جائے۔

آخر ملک الملوت نے اس پر اپنا تسلط آزمانے آ گئی۔ غریب کی زندگی کیا ہے۔ کاغذ کی ناؤ ہے۔ جب تک تیرتی تیرتی رہے۔ ہوا کا ایک جھونکا آیا، الٹی اور ڈوب گئی۔ اس کی زندگی بھی کاغذ کی ناؤ تھی۔ ہوا کے رخ پر، بہاؤ کے خلاف، امید کے رخ پر، حقیقت کے خلاف، وہ خاموش سڑک کی طرف دیکھتی رہی شاید وہ آ جائے۔

لیکن امید نے دھوکا دیا۔ وہ مر گئی۔ اور یہ ہے وہ قبر جہاں اس نے اپنی آخری سانسیں پوری کیں۔

بوڑھا آہستہ آہستہ سناتا رہا اور پھر یکا یک خاموش ہو گیا۔ شبّیر جیسے مسحور ہو، اور یکا یک ہوش میں آ جائے، بولا:

“لیکن آپ کون ہیں… شہری…؟

“نہیں۔ میں وہ ہوں جس کو اس نے دھتکارا۔ جس کی منت و سماجت کے با وجود، جس کے پاؤں پڑنے پر بھی، وہ کہتی رہی کہ میں تمہارے قابل نہیں۔ میں اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں اس کا انتظار کروں گی۔

میں یہاں پر بیھٹا ہوں۔ آپ لوگ جو راہی یہاں سے گزرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تن روح سے قائم ہے۔

اور یہ نہ کہے کہ وہ بے وفا تھی۔ اسے شہری سے عشق تھا۔ اور مجھے ماہکاں سے۔ محبت جب عشق بن جائے تو وصال سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔

بوڑھا خاموش ہو گیا۔ میں نے اپنا بٹوہ اس کے ہاتھوں پر الٹ دیا اور باہر نکل آیا۔ شبیر نے مجھ سے نا راضی کرتے ہوئے کہا، یہ تمُ نے کیا کیا۔ تمُ ایک کام یاب تاجر ہو کہ نو جواں جذباتی چھوکرے؛ کیا پتا اس نے یہ سب کہانی خود بنائی ہو، کیا پتا…؟

اور میں نے اسے بَکنے دیا۔ اسے کون سمجھاتا کہ میں ایک دفعہ یہاں آیا تھا۔ ماہکاں کو دیکھا تھا۔ کچھ دن رہا تھا۔ اس سے وعدہ کیا تھا۔ اور پھر ایسا بھولا کہ آج یاد آیا … ۔