قومی اثاثہ کہانی از، اسامہ الحویج العمر

Osama Alomar
Base photo by Nina Subin via New Directions

قومی اثاثہ، Bag of the Nation

مصنف، اسامہ الحویج العمر (دمشق، شام)

ترجمہ از، جنید جاذب (کشمیر، بھارت)

چھت کی الماری سے میں نے بڑا سا وہ بیگ نیچے اتارا جو دادا سے مجھے ورثے میں ملا تھا۔ یہ اتنا روشن اور رنگیں تھا گویا دھنکوں کا کوئی دریا اس سے پھوٹ رہا ہو۔ میں نے اسے کاندھے پر اٹھایا اور گلی میں چل دیا۔ اور پھر آنکھیں موندے اٹکل پچھو میں نے وہاں موجود تمام اشیاء کے نمونے اس میں بھر لیے جن میں انسان، پتھر، ہوا، دھول، مٹی، پھول… ماضی، حال اور مستقبل … یعنی یہاں موجود تقریباً سب کچھ شامل تھا۔

میں نے وہ بھاری بَھرکم بیگ جو ہماری قومی ذہانتوں، بصارتوں اور حکمتوں کے عجائب سے لب ریز تھا اٹھایا اور ایک فخریہ احساس کے ساتھ دنیا کے دورے پر نکل پڑا۔

طے شدہ سفر کے سب سے پہلے ملک  پہنچ کر میں نے وہاں کے عوامی چوک کا رخ کیا اور اس کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر پورے زور سے آواز لگائی:

“خواتیں وحضرات …! پلیز متوجہ ہوں …! میں ایک دور دراز کے ملک سے آیا ہوں، لیکن اپنے ساتھ لایا ہوں رنگ ہا رنگ کے پھول اور خوش بُوئیں… افکار اور تصورات… تخلیقیت اور صلاحیتیں… بہاروں سے بھر پُور تاریخ اور میرے ملک کے دروازے پر دست بستہ کھڑا ایک روشن مستقبل… ۔”

میری پکار کی کشش نے کام کیا اور چوک میں کھُلنے والے ہر راستے سے ہر طرح کے لوگ میرے گرد جمع  ہوتے گئے اور تھوڑی ہی دیر میں اک جمِ غفیر بن گیا۔

“بتاؤ اجنبی… بتاؤ تمھارے پاس کیا ہے؟ ہمیں دکھاؤ…؟ اپنے ملک کے عجائبات دکھاؤ؟ تصورات دکھاؤ …؟ وہ صلاحیتیں دکھاؤ ہمیں؟” آوازیں تیز تر ہوتی گئیں۔

میں نے اپنا بھاری بیگ کاندھے سے اتارا،  ماتھے سے پسینہ پونچھا اور پورے اعتماد کے ساتھ لوگوں کے ہجوم پر ایک ترچھی نظر ڈالی۔ اس کے بعد آہستہ سے میں نے بیگ کا مُنھ ڈھیلا کیا اور پھر سب کے سامنے اسے کھول دیا۔

مگر یہ کیا …!

بیگ کے کھلتے ہی طنز کا ایک جوہری دھماکا ہوا اور میں ہوا میں بے دخل ہو کر رہ گیا۔

چند ثانیے ہوا میں معلق رہنے کے بعد میں زمین پر آ گرا۔ آس پاس کے لوگوں کا ہنس ہنس کے برا حال ہو رہا تھا۔ کچھ ایک تو اپنے پیٹ پکڑے زمین پر رینگ رہے تھے۔ عورتیں اور بچے حقارت سے مجھے تَک رہے تھے۔ باقی لوگ مڑ کر اپنے اپنے کاروبار کی طرف جا رہے تھے۔

اس حیرت ناک سانحے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میرے اندر بڑی بڑی دراڑیں پڑ گئیں۔ ہجوم میں سے ایک شخص آگے بڑھتا ہوا میرے پاس آیا اور میرے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا آئینہ تھما کر ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔

میں نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ اُف…

میں دہشت سے کانپ اٹھا۔ میرا چہرہ بری طرح جھلس کر بگڑ چکا تھا، اور یہی حال میرے ملک کی شہرت اور شبیہ کا بھی تھا! میرے ملک کو اس قدر نقصان ہو چکا تھا کہ اب صدیوں نہیں تو بھی دھائیوں تک اس کی بَھرائی ممکن نہیں تھی۔

“میرے ملک … تو نے میرے ساتھ یہ کیا کیا… نہیں نہیں میں نے… میں نے تیرے ساتھ یہ کیا کر دیا۔”


اسامہ العمر کے تعارف کے لیے ملاحظہ کیجیے:

اسامہ العمر دمشق (شام) کے فکشن نگار از، یاسر چٹھہ


میں نے اشک بار آنکھوں سے چوک کے گرد دیکھا جہاں اب کوئی نہیں تھا۔ اپنی  لہو لہان روح کو سہارا دیتے ہوئے میں آہستہ آہستہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن دھڑام سے زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ بار بار کی کوشش کے بعد بالآخر میں اٹھنے میں کام یاب تو ہو گیا لیکن میری ٹانگیں اب بھی کپکپا رہی تھیں۔ گویا میری ساری خود اعتمادی ان پنڈلیوں میں ٹِکی تھی۔

میں نے قومی اثاثے کے راکھ ہو چکے بیگ کی طرف دیکھا… طنز کے جوہری دھماکے کے اثرات دیکھے…! آنسو، میرے  ویران چہرے کی اونچائیوں گہرائیوں میں سے راستہ بناتے، ٹپ ٹپ نیچے گر رہے تھے۔ میں نے بیگ اٹھا کرسمندر میں پھینک دیا اور خود نا جانے کس طرف نکل لیا۔