چیلیانوالہ، پنجابی مزاحمت کا آخری مورچہ

Dr Shahid Siddiqui
ڈاکٹر شاہد صدیقی

چیلیانوالہ، پنجابی مزاحمت کا آخری مورچہ

از، ڈاکٹر شاہد صدیقی

تاریخ کے قدموں پر قدم رکھتا ہوا میں آج چیلیانوالہ کے میدان کی طرف جارہا ہوں، جہاں فرنگیوں کے خلاف پنجابی مزاحمت کی سب بڑی جنگ لڑی گئی تھی۔

کھاریاں سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ڈِنگہ اور وہاں سے 10 کلو میٹر کی مسافت پر چیلیانوالہ کا قصبہ ہے۔ یہ جون کا مہینہ ہے اورہوا رُک رُک کر چل رہی ہے۔

گاڑی میں میرے سامنے نقشہ ہے ، جس میں اہم مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ آج میں ان جگہوں کو دیکھنا چاہتا ہوں تاریخ کو قریب سے چُھو کرمحسوس کرنا چاہتا ہوں۔

1849ء میں جنوری کے یخ بستہ مہینے میں واپس جانا چاہتا ہوں جب جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تربیت یافتہ فرنگی فوج کو پنجاب کے شیرسنگھ اٹاری والا کی فوج نے بے بس کردیا تھا۔ ہماری گاڑی کھاریاں سے ڈِنگہ جانے والی سڑک پرگاڑیاں رواں دواں ہے۔ یہ جون کا روشن اور گرم دن ہے۔

باہر کے منظر تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں۔ میں سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ میرے ذہن کے پردے پر تاریخ کے ورق روشن ہونے لگتے ہیں۔ یہ اٹھارویں صدی کا منظر ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے بڑے حصے پر اپنا تسلط جما لیا تھا، لیکن پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت قائم تھی اورابھی تک فرنگیوں کے دستِ بُرد سے محفوظ تھی۔

رنجیت سنگھ نے سکھوں کے مخالف دھڑوں کوجمع کر کے 1801ء میں پنجاب میں ایک مضبوط سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی، جس کی سرحدیں کشمیر اورافغانستان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ رنجیت سنگھ کی فوج میں مختلف قوموں کے لوگ تھے۔ تربیت دینے کے لیے انتہائی تجربہ کارجنگی ماہرین ایلارڈ (Allard) اور ونچورا (Ventura) تھے، ان کا تعلق با لترتیب فرانس اوراٹلی سے تھا۔

اس کے علاوہ اس کی فوج میں جرمنی، یونان، سپین، روس، سکاٹ لینڈ اور برطانیہ کے ماہرین بھی شامل تھے۔ ان سب کو خطیر مشاہروں پر بھرتی کیا گیا تھا۔ خالصہ فوج میں توپوں کی بڑی تعداد تھی، یوں معاشی اور عسکری حوالے سے یہ ایک مستحکم سلطنت تھی۔

رنجیت سنگھ کو اس بات کا احساس تھا کہ اس کی سلطنت کی سرحدیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی سرحدوں کے قریب چلی گئی ہیں، یوں دونوں طرف ایک بے یقینی اور بے اعتمادی کی فضا تھی۔

رنجیت سنگھ کا انتقال 1839ء میں ہوا، تو اس کے بعد مختصر وقفوں سے مختلف سکھ حکمران تخت پر بیٹھے تھے، ان میں کھڑک سنگھ، نہال سنگھ، چند کور، شیرسنگھ اور دلیپ سنگھ شامل ہیں۔ دلیپ سنگھ کو1843ء کو تخت پر بِٹھایا گیا۔

رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد سکھ سلطنت کی گرفت کمزور پڑنے لگی اورپھر سکھوں اور انگریزوں کی پہلی جنگ (1845-1846) کے نتیجے میں جو معاہدہ طے پایا، اس کے مطابق کچھ علاقوں پرسکھ دربارکا تسلط باقی نہیں رہا تھا۔ اُدھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت آہستہ آہستہ پنجاب کی طرف قدم بڑھا رہی تھی، پھر اچانک 1848ء میں ہونے والے ایک واقعے نے اس سفر کو تیز کردیا۔

اپریل 1848ء میں ملتان میں سکھ حکومت کی طرف سے مقررکردہ گورنرمول راج تھا، جو ہندو تھا اورایک طویل عرصے سے ملتان کا گورنرتھا۔ برطانوی راج کی طرف سے دو نمائندے مول راج کے پاس بھیجے گئے، جنہوں نے اسے معزولی کا پیغام پہنچایا۔

مول راج نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور آنے والے دونوں نمائندوں کو قتل کرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے برطانوی راج کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس کی حمایت میں شیرسنگھ اٹاری والا نے بھی عَلمِ بغاوت بلند کر دیا اپنی فوج کارخ ہزارہ کی طرف کرلیا۔

یہ صورت حال فرنگی اقتدار کے لیے ایک چیلنج تھی، جنرل گف (Gough) کی قیادت میں جدید اسلحے سے لیس ایک فوج کو پنجاب میں سکھوں کی بغاوت کے خاتمے کا حکم  صادر ہوا۔ جنرل گف اور شیرسنگھ کی فوج کا پہلا ٹکراؤ 2 نومبر کو رام نگر (موجودہ نام رسول نگر) میں ہوا۔ دوسرا ٹکراؤ اسداللہ پور ( بعض کتابوں میں سعد اللہ پور) کے مقام پرہوا۔

ان دو جھڑپوں سے جنرل گف کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اس کا پالا ایک بہادر اورذہین جنگ جُو شیر خان اٹاری والا سے پڑا ہے۔ اب جنوری کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ جنرل گف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ اس نے اپنے دل میں تہیہ کرلیا کہ اگلا معرکہ فیصلہ کن ہو گا۔ اس فیصلہ کن معرکے کے لیے چیلیانوالہ کے میدان کا انتخاب کیا گیا۔

اچانک ہماری گاڑی ایک جگہ رُک گئی۔ ”ہم ڈنگہ پہنچ گئے ہیں‘‘ ڈرائیور نے کہا، اورمیرے خیال کاسلسلہ ٹوٹ گیا۔ میں نے کہا، ہماری منزل چیلیانوالہ ہے جو ڈنگہ سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اب ہم چیلیانوالہ کی طرف جا رہے تھے۔ ہمارے دائیں بائیں گہرے سبز رنگ کے درخت تھے۔ یہ سفر فوراً ہی کٹ گیا اور پھر میرے سامنے وہ علاقہ تھا جہاں اس خطے کی تاریخ کی ایک خونی جنگ ہوئی تھی۔

وہ 13جنوری کا ایک سرد دن تھا۔ جب جنرل گف کی فوج جو جدید ترین اسلحے سے لیس تھی، جو تربیت کے کئی مرحلوں سے گزری تھی اور جس کے لیے جنوری کا سرد موسم بھی بہت ساز گار تھا۔ مقابلے میں پنجابی فوج کی قیادت شیر سنگھ اٹاری والا کر رہا تھا، جس کا باپ چھتر سنگھ بھی سکھ فوج کا ایک نامور جنگ جو تھا۔


مزید دیکھیے: پنجابی زبان اور معاشرتی رویے


اس دن چشمِ فلک نے اس سارے علاقے کو خاک  و خون میں نہاتے ہوئے دیکھا، توپ کے گولوں کی مہیب گھن گرج، بے قرار گھوڑوں کی ہنہناہٹیں، زخمیوں کی کراہیں۔ دن کے اختتام تک میدانِ جنگ لاشوں سے اٹ گیا تھا۔

دونوں طرف بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔ پورے دن کی سخت لڑائی کے با وجود جنرل گف کی فوج ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ اگلے دن چیلیانوالہ کے آسمان سے بادل خوب برسے اور موسم مزید سرد ہوگیا۔ اونٹوں پرانگریزوں کی لاشیں لاد کر میدان ِجنگ سے واپس لے جائی گئیں۔

چیلیانوالہ میں پنجابی فوج نے جس بے جگری سے اپنی سر زمین کا دفاع کیا، وہ مزاحمت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس لڑائی کے بعد جنرل گف کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا، یوں یہ ایک طرح سےاعترافِ شکست تھا۔

انگریزوں نے اس جنگ کی ایک یاد گار تعمیر کی ہے، میں اس یاد گار کے پاس کھڑا ہوں۔ یہ ایک بلند قامت صلیب ہے اور پھر ایک چاردیواری کے اندر ایک مینار ہے، جس پرچاروں طرف چار زبانوں، انگریزی، فارسی، اردو اورگورمکھی میں چیلیانوالہ کی جنگ کی تاریخ 13جنوری 1849ء کندہ ہے اور اپنی فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

میں چہار دیواری سے باہر نکل آتا ہوں۔ باہر بُڑ(مقامی پنجابی زبان کے لہجے میں بوڑھ کہتے ہیں) کے تین قدیم درخت ہیں۔ یہ درخت بھی یقیناً گواہ ہوں گے، جب شیرسنگھ نے جنرل گف کی فوج کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا اور اس خیال کوغلط ثابت کیا تھا کہ فرنگی فوج نا قابلِ شکست ہے۔

بڑ کے بوڑھے درخت سر جھکائے کھڑے ہیں شاید وہ اور میں ایک ہی بات سوچ رہے ہیں۔ یہ تو فرنگیوں کی یاد گاریں ہیں، مگران خاک زادوں کی یاد گاریں کہاں ہیں، جو اس سر زمین سے اٹھے اور جنہوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر اپنی مٹی کی حفاظت کی تھی، وہ جو اپنی آنکھوں میں حریت کے خواب لے کر نکلے تھے اور بے نشاں راہوں میں کہیں کھو گئے۔

اب شام کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ مجھے واپسی کا سفر درپیش ہے۔ گاڑی پختہ سڑک پر رواں دواں ہے۔ چیلیانوالہ کے ان بے نشاں زمین زادوں کو یاد کرتے ہوئے مجھے فیض احمد فیضؔ یاد آ گئے ہیں، جس نے ایسے ہی آشُفتہ سروں کے لیے کہا تھا:

جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم

ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم

لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم

اپنا غم تھا گواہی ترے حُسن کی

دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔