پائے جنوں میں زنجیر کانپتی ہے

زاہدہ حنا

پائے جنوں میں زنجیر کانپتی ہے

از، زاہدہ حنا

پاکستان میں سجاد ظہیر پر جو گزری، حسن ناصر اس سے واقف تھے، اسی طرح وہ پنڈی سازش کیس کی تفصیل بھی جانتے تھے۔ ان کے ذہن میں بھی پاکستان کے دیہاتوں اور کارخانوں میں جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزارنے والوں کا مستقبل سنوارنے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ وہ یہاں فیکٹری مزدوروں میں کام کرتے رہے، گرفتار ہوئے اور جب آزاد ہوئے تو ملک بدر ہوئے اور واپس ہندوستان واپس گئے لیکن وہاں ان کا جی نہیں لگا۔ ماں سے اور اپنے ہندوستانی دوستوں سے ان کا کہنا تھا کہ میری زندگی کا مقصد پاکستان کے پچھڑے ہوئے طبقات کی خدمت ہے۔ مجھے وہاں کے لوگوں کی بے آسرا زندگی بلاتی ہے۔

حسن ناصر نے تمام عیش و آرام تجتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان کا رخ کیا۔ شاید موت اسی طرح لوگوں کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ وہ یہاں آئے، کراچی کی مزدور بستیوں میں زندگی گزارتے ہوئے، اسٹڈی سرکل میں نوجوانوں کو ایک نئے سماج کے خواب دکھاتے رہے۔ دوبارہ گرفتار ہوئے اور پھر ان کی زندگی کا وہ سفر شروع ہوا جس کا اختتام لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کوٹھری میں ہوا۔ حسن ناصر ناز و نعم میں پلے ہوئے جوانِ رعنا تھے۔

ایک ایسے نوجوان، خوش حال خاندانوں کی لڑکیاں جن کا ہم سفر بننے کے خواب دیکھتی ہیں لیکن حسن ناصر کی آنکھوں میں عام انسانوں کی زندگی بدلنے کے خواب تھے۔ ان پر تشدد ہوا، ایسا بہیمانہ تشدد جسے وہ برداشت نہ کرسکے اور جان سے گزر گئے۔ ان کے ہم خیالوں نے ایوب خانی مارشل لا کے خوفناک دور کے باوجود ان کی رہائی کے لیے شور مچا رکھا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ حسن ناصر کہاں سے رہا کیے جاتے، ان کی روح تو ان کے جسدِ خاکی سے رہائی پا چکی تھی۔ چند ہی دنوں کے اندر ان کی ہلاکت کی خبر لاہور، پاکستان اور پھر دنیا بھر میں گشت کرگئی۔

یہ خبر ہندوستان میں ان کی والدہ بیگم علم بردار حسین تک پہنچی۔ وہ اپنے بیٹے کے جسد خاکی کو ساتھ لے جانے کے لیے لاہور پہنچیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس کا محکمۂ خفیہ، جیل کے اعلیٰ حکام اور پولیس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ 7 دسمبر 1960 کی رات جب حیدرآباد دکن سے آئی ہوئی زہرا علم بردار حسین لاہور میں سمن آباد کی طرف جا رہی تھیں۔ یہاں مدحت کاظم صاحبہ کا گھر تھا جہاں وہ چند دنوں کے لیے ٹہری ہوئی تھیں۔ حسن ناصر کی شہادت کا قصہ لکھنے والے میجر محمد اسحاق نے لکھا ہے کہ’’مزنگ چورنگی سے کار چوبر جی کی طرف روانہ ہوئی۔

بیچ میں جا کر بیگم صاحبہ نے ڈرائیور سے کار روکنے کو کہا اور مدحت کاظم سے فرمایا کہ وہیں قریب ہی حسن ناصرکی قبر سے ذرا فاتحہ کہہ لیں۔ جو وعدہ صبح کو انھوں نے ڈی آئی جی کو دیا تھا۔ وہی اس سے لے لیا۔ کہ کسی اور کو نہیں بتائیں گے۔ کار کو جنوب گھمانے کو کہا، کارکی روشنی میں ایک پر اسرار اور دہشت ناک سماں نظر آیا۔ قبرستان کی جھاڑیوں میں لوگوں کی بھیڑ لگی تھی۔ بہت سے پولیس کی وردیوں میں تھے اور بہت سے سفید لباس میں۔ ایک طرف بائیسکلوں کا ٹھٹ لگا تھا۔

کار کی سامنے کی بتیوں کی روشنی ان پر پڑی تو ایک بھگڈر مچ گئی۔ سب لوگ اِدھر اُدھر جھاڑیوں میں چھپنے کے لیے بھاگے۔ بیگم صاحبہ نے فوراً کار کو واپس گھمانے کو کہا۔ مدحت کا ظم کا ڈرائیور ابھی کار کو گھما ہی رہا تھا کہ پولیس کی ایک گاڑی بڑی سڑک سے ان کی سمت گھومی لیکن ان کی کار کو دیکھ کر فوراً ہی پلٹی اور سرپٹ بھاگی۔ گھر جاکر بیگم صاحبہ نے جو وضعداری کا خول بڑی محنت اور تردد سے بنائے رکھا تھا۔ چکنا چور ہوگیا اور وہ ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئیں کہ سنبھالے نہ سنبھلتیں تھیں۔‘‘

اور دوسرا منظر شہید حسن ناصر کی قبر کشائی کا۔ اسے بھی میجر اسحاق محمد نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’نئی لکڑی کا بنا ہوا تابوت ظاہر ہوا۔ اوپرکا ڈھکنا اٹھایا گیا۔ اندر کفن میں ملبوس ایک میت تھی۔ سر اور پاؤں سے کفن ہٹایا گیا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر صدیق حسین آگے بڑھا۔ میں نے ایک جھر جھری کے ساتھ اپنے ہوش وحواس قائم کیے۔ ڈاکٹر نے سب سے پہلے آنکھیں ملاحظہ کیں یہ ہڈیوں کے گول دائرے تھے۔

بیچ میں کچھ نہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر نے اطمینان کا ایک لمبا سانس لیا۔ مجھے شاہی قلعہ میں اپنی آنکھوں کو سورج کا لڑنا یاد آگیا۔ کیا واقعی حسن ناصر مرنے سے یا مارے جانے سے پہلے اپنی بینائی کھو بیٹھا تھا؟ میں لاش پر جان پہچان کے نشانات تلاش کرتا رہا لیکن نظرکسی مقام پر نہ رکی۔ لاش بہت گل سڑ چکی تھی حسن ناصر کی والدہ آگے بڑھیں بالوں کو ٹٹولا، ماتھے پر نگاہیں گاڑیں، دانتوں پر ایک ماہر دندان ساز کی طرح غورکیا، پاؤں کی ساخت دیکھی جس پر تلوؤں کے نشانات ڈھونڈ ناعبث تھا ۔ جلد تھی کہاں، سب کٹی پھٹی تھی۔ سینے سے ایک ہوک اٹھی، نفرت اور حقارت کی ندی امڈ پڑی ۔ معلوم نہیں ظالموں کے لیے کیا کیا بد دعائیں لبوں پر آئیں۔ پھر ماں کی تڑختی ہوئی آواز سنائی دی ’’یہ میرے بیٹے کی لاش نہیں‘‘ ساری خلقت ہکا بکا رہ گئی۔‘‘

حسن ناصر کی مبینہ قبر کھولی گئی لیکن ماں نے اسے اپنے بیٹے کی لاش ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لاش بدل دی گئی تھی۔ تبدیلی کا سبب یہ تھا کہ حسن ناصر کی تشدد شدہ لاش ماں کے سپرد نہیں کی جاسکتی تھی۔ جیل حکام کا کہنا تھا کہ حسن ناصر ڈپریشن میں مبتلا تھے اور انھوں نے چھت کے پنکھے میں ازار بند باندھ کر خود کشی کرلی تھی۔ یوں بھی وہ انھیں ایک گمنام قبر میں دفن کرچکے تھے۔ کسی لاوارث کی لاش جب بیگم زہرا علم بردار حسین کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے کہا کہ میرے بیٹے کا قامت بلند تھا، یہ کسی بھی طرح وہ نہیں ہے۔ جیل حکام نے انھیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن انھوں نے اس لا وارث لاش کو اپنے بیٹے کی لاش تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور خالی ہاتھ واپس حیدرآباد دکن چلی گئیں۔ جس تابوت میں حسن ناصر کو زندگی کا آخری سفرکرنا تھا، وہ خالی رہا اور حسن ناصر لاہور کے کسی قبرستان کی گمنام قبر میں سوتا رہا۔ یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا۔

حسن ناصر کی زندگی، ان پر چلنے والے مقدمے کی تفصیلات اور ان پر ہونے والا ناقابلِ برداشت تشدد ہمارے علم میں ہی نہیں آتا، اگر میجر اسحاق محمد نے جان ہتھیلی پر رکھ کر تفصیلات اکٹھا نہ کی ہوتیں۔ وہ حسن ناصر کے عاشقِ زار تھے۔ ان کے عشق کی انتہا کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے 500 صفحات کی کتاب ’حسن ناصر کی شہادت‘ لکھی۔ حسن ناصرکو اگر ہم آج ایک لیجنڈ کے طور پر جانتے ہیں تو اس کا ایک سبب میجر اسحاق محمد بھی ہیں۔

حسن حمیدی مرحوم نے حسن ناصرکے لیے ایک طویل نظم ’’شہر سلاسل‘‘ لکھی۔

یہ خونِ ناصر ہے، جاوداں ہے

جو خوں بہاروں کا کارواں ہے

یہ خونِ ناصر ہے محترمِ ہے

یہ خونِ انسان کا عَلم ہے

یہ خون تاریخ کا عَلم ہے

وہ کون دیوانہ آرہا ہے

جو اپنی خوں گشتہ انگلیوں سے

چمن کی تاریخ لکھ رہا ہے

یہ کون مجرم ہے؟جس کے جرمِ وفا کی تحقیق ہورہی ہے

یہ کون باغی ہے جس کے پائے جنوں میں زنجیر کانپتی ہے

یہ کون رہبر ہے؟ جس نے مقتل میں آج قندیلِ خوں جلائی

یہ کون انساں ہے؟ جس نے انساں کو آج راہِ وفا دکھائی

یہ کون ہے جس کے دست و پا پر جگہ جگہ کہکشاں بنی ہے

ہے کون جس کے رگِ گلو سے دمکتی کرنیں اُبل رہی ہیں

حرم کے پروردہ کرگسوں نے، لہو سے کس کے وضو کیا ہے

فصیل اندر فصیل محبس میں کون یوں سُر خرو ہوا ہے

کہ آج ہر بوند اس کے خوں کی تجلی ٔ ارتقا بنی ہے

کہ آج مقتل کی خاک بھی سجدہ گاہِ اہلِ وفا بنی ہے

حسن ناصر نومبر 1960 میں رخصت ہوئے تھے، ظفر عارف 2018 میں گئے، سجاد ظہیر نے شاہی قلعے کی عقوبت گاہ کا ذائقہ چکھا۔ سردار نوروز خان کے پانچ جوان بیٹوں اور بھتیجوں نے دار و رسن کی شان بڑھائی۔ نذیر عباسی نے شہادت کا جام پیا، عظیم انسانی آدرشوں کے لیے زندگی وار دینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دار و رسن کی آزمائش سے سرخرو گزرنے والوں کی ایک کہکشاں ہے۔ سلام ان پر جو دوسروں کے لیے اپنی خوشیاں اور اپنی زندگیاں قربان کر گئے۔ سدا رہے ان کا نام پیارا۔

لیکن کبھی دل بھی دکھی ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے،کب ختم ہوگی دارو رسن کی یہ آزمائش؟ میں اسے کیا جواب دوں؟

بشکریہ: ایکسپریس اردو