منصف ہو اگر تم ۔ ۔ ۔

Masoom Rizvi
معصوم رضوی

منصف ہو اگر تم ۔ ۔ ۔

از، معصوم رضوی

ایک تھی کارلا،  بچپن سے جرم اور نشے کا ماحول ملا، ماں پیشہ کرنے والی عورت تھی سو وہ بھی بچپن سے جرم  کے راستے پر چل نکلی، بڑے خوابوں کی تعبیر کے لیے بوائے فرینڈ کیساتھ گاڑی چھیننے کی واردات کے دوران دو افراد کے قتل ہوئے۔ کارلا کو موت کی سزا ملی،  ٹیکساس جیل میں کارلا فے ٹکر جھگڑالو اور گالم گلوچ کرنے والی عورت کے طور پر مشہور رہی۔ کارلا کی زندگی میں اچانک انقلاب آیا جب اس نے بائبل کا مطالعہ کیا، روحانی سفر نے اسے یکسر تبدیل کر ڈالا۔

ایک سال بعد کارلا ایک ایسی فرشتہ سیرت مبلغہ کے طور پر ابھری جس کے زبان میں تاثیر تھی پھر پورے جیل کا ماحول تبدیل ہو گیا، بدترین مجرم بھی کارلا سے متاثر ہو کر گناہوں سے تائب ہو گئے۔ بات جیل سے نکل کر میڈیا تک پہنچی تو طوفان کھڑا ہو گیا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکہ میں کارلا بچاؤ مہم شروع کی جس کو عوام کی بھرپورحمایت ملی۔ روایات کے برخلاف مسیحی روحانی پیشوا پاپ جان پال نے موت کی سزا منسوخ کرنے کی سفارش بھی کر ڈالی۔ سزائے موت سے چند روز پہلے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کارلا نے کہا کہ مجھے موت کا کوئی خوف نہیں کیوں کہ میں جلد اپنے خالق سے ملنا چاہتی ہوں جو میری زندگی میں انقلاب لایا، پورا امریکہ اور میڈیا کارلا کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔

عوام نے گورنر ٹیکساس کے گھر کے باہر احتجاج کیا، اس وقت گورنر جارج بش تھے جو بعد میں امریکہ کے صدر بنے، بہرحال بحیثیت گورنر جارج بش نے جواب دیا مجھے کارلا سے پوری ہمدردی ہے مگر آپ لوگوں نے مجھے گورنر اس  لیے بنایا ہے کہ قانون پر عمل کیا جائے، اس لیے نہیں کہ مجرم کو معاف کروں، قاتل اگر فرشتہ بھی ہو تو سزا قانون کے مطابق ہو گی۔ سزائے موت سے صرف دو دن پہلے امریکی سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل پہنچی مگر رد کر دی گئی، فیصلے میں لکھا گیا اگر پوری دنیا کہے یہ کارلا نہیں بل کہ مقدس روحانی ہستی ہے تو بھی قانون میں قاتل کے لیے کوئی رعایت نہیں، ہم سب کو خدا کے سامنے ان دو افراد کا بھی جواب دینا ہے جنہیں واردات کے دوران قتل کیا گیا۔

ایک تھا مصطفیٰ کانجو، پنجاب کے سیاسی خاندان کا ہونہار سپوت، لاہور کے کیولری گراؤنڈ پر 17 سالہ نوجوان طالبعلم زین کو سب کے سامنے قتل کیا، مقتول کے ماموں کی مدعیت میں مقدمہ قائم ہوا، عینی گواہان کی فہرست طویل تھی مگر جانے کیا جادو چلا ماموں سمیت سب گواہ منحرف ہو گئے۔ انصاف کی متلاشی غمزدہ ماں کو منصف دلاسے دیتے رہے، ماں کانجو خاندان سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود طویل عرصے تک انصاف کے لیے کھڑی رہی مگر بالاخر ہمت ہار دی۔ ماں نے کہا قتل معاف نہیں کیا مگر مقدمہ لڑنے کی ہمت نہیں کیوں کہ میری دو بیٹیاں بھی ہیں، بیچاری ماں اور بیٹیوں کی تو کسی کو خبر نہیں کہ کہاں ہیں مگر سنا ہے مصطفیٰ کانجو بیرون ملک عیش کی زندگی گزار رہا ہے۔

ایک تھا شاہ رخ جتوئی، کراچی کے علاقے ڈیفنس کا رہائشی، امیر اور با اثر باپ کا چہیتا، چھوٹی سی بات پر نوجوان شاہ زیب خان کو گارڈز کی مدد سے سرعام فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ مقدمہ قائم ہوا۔ عدالتوں میں پروٹوکول کے ساتھ وکٹری کے نشان بناتا آتا تھا، دولت اور اثرورسوخ کی کمی نہ تھی۔ بالاخر دو سال بعد مقتول کے باپ سے خوں بہا کا معاہدہ ہو گیا اور سزائے موت کالعدم ہوئی۔ مگر اعلیٰ عدالت نے معاہدہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مقدمہ چل رہا ہے، اب تو چھ سال ہو گئے، سنا ہے کراچی جیل میں وی آئی پی مہمان ہے، دیکھیے دولت جیتتی ہے یا انصاف؟


مزید دیکھیے: سیاسی نظریات سے عاری انتخابات یا چُنیوں کی جنگ


ایک تھا بھیرہ لاہور کا رہائشی سید رسول، قتل کے الزام میں جیل گیا، پورے آٹھ سال بعد عدالت نے بے گناہ قرار دے کر رہائی کا حکم صادر فرمایا، رہائی کو پروانہ جیل پہنچا تو پتہ چلا جرم نا کردہ کا سزاوار دو سال پہلے زندگی کی قید سے آزاد ہو چکا ہے۔

ایک تھی رانی بی بی، چنیوٹ کے قریب دیہات میں رہتی تھی، شوہر کے قتل کا الزام، والد، والدہ، بھائی اور کزن سمیت پورا خاندان گرفتار ہوا، سب کو عمر قید کی سزا ہوئی، والد کا قید میں ہی انتقال ہو گیا۔ انیس سال بعد نا کافی ثبوتوں پر لاہور ہائی کورٹ نے باعزت بری کیا۔ رانی بی بی کہتی ہے فیصلے کے خلاف اپیل کی کرنی تھی، پولیس نے چار سو روپے رشوت مانگی، پیسے نہیں تھے اس  لیے پورے خاندان کو انیس سال قید کاٹنی پڑی۔

ایک تھی کراچی کی اسما نواب، پسند کی شادی کا معاملہ تھا، والد، والدہ اور بھائی کے قتل کا الزام لگا، انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا ہوئی، سندھ ہائی کورٹ میں اپیل بھی کام نہ آئی، پورے بیس سال بعد سپریم کورٹ نے نا کافی ثبوتوں کی بنیاد پر رہائی کا حکم صادر فرمایا۔

ایک تھے خواجہ عبدالسمیع، کراچی کے متمول تاجر، 43 سال پہلے اسلام آباد کے سیکٹر ای 7 میں دو کنال کا پلاٹ 48 ہزار روپے میں خریدا۔ کوئی 35 سال پہلے خاندان مری گیا تو سوچا پلاٹ دیکھنے پہنچے مگر وہاں تو نہ صرف مکان بنا ہوا تھا بل کہ آباد بھی تھا۔ مقدمہ دائر کیا اور سی ڈی اے کو فریق بنایا، مقامی عدالتیں فیصلے دیتی رہیں مگر ساتھ ہی حکم امتناعی بھی جاری ہوتے رہے۔ جائیداد کی قیمت ادا کرنے پر قبضہ ختم کرنے کا دباؤ بھی ڈالا گیا، بالاخر پورے پینتیس سال بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے سخت حکم پر سی ڈی اے قبضہ ختم کروانے پر مجبور ہوئی، سمیع صاحب قبضہ لینے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ دولت مند تھے، ورنہ ۔۔۔۔۔

ایک تھے محمد صدیق، راولپنڈی کے رہائشی، 1961 میں ان کی زمین سی ڈی اے نے لی کسی منصوبے کے لیے مگر آج 57 سال بعد بھی متبادل زمین نہ مل سکی۔ حکومتی ادارے شہری کی زمین ضبط کریں تو متبادل جگہ دینے کے پابند ہیں مگر 73 سالہ محمد صدیق آج بھی انصاف کے لیے بھٹک رہے ہیں۔

پاکستان لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق جنوری 2018 تک ملک بھر میں تقریبا 19 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، صرف سپریم کورٹ کی پرشکوہ عمارت میں 38 ہزار مقدمات فائلوں میں دفن ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹس اور مقامی عدالتوں کے حوالے سے پنجاب میں 11 لاکھ، سندھ میں 94 ہزار، پشاور میں 30 ہزار، بلوچستان میں 6 ہزار اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16 ہزار مقدمات منصفوں کی راہ تک رہے ہیں۔

پاکستان میں انصاف، صحت اور تعلیم سے کہیں زیادہ مہنگا ہے، کاش کوئی انصاف کی نا انصافیوں پر بھی از خود نوٹس لیتا، کوئی اس محکمہ انصاف کے نظام کو سدھارنے کا بیڑہ اٹھاتا، کاش کوئی اس ملک میں واقعی انصاف قائم کرنے کا کرنے کا حوصلہ کرتا۔ مولا علی کا قول ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی کیساتھ نہیں

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے

مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے