ووٹ کے تقدس کو پا مال ہونے سے بچائیں

سرفراز سخی

ووٹ کے تقدس کو پا مال ہونے سے بچائیں

از، سرفراز سخی

ووٹ انگوٹھا اور نیلی چھاپ لگانا نہیں، نہ ہی کسی طور اس کے معنی انگشتِ نر پر مارکر سے سیاہ نشان لگوا لینے کے ہیں، ووٹ دینے کا مختصر سا وقت در اصل پانچ سالوں کا سفر ہے جو ہم سب نے کسی نہ کسی صورت مل جل کر ہی کرنا ہے، یہ نہ  صرف ہمارے بل کِہ ہماری آنے والی نسلوں اور موجودہ نسل کے روشن مستقبل کا فیصلہ ہے۔

ووٹ سیاہ الفاظ و اشکال سے سجا کوئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں، یہ ہمارے معاشرے میں موجود ہر فرد کا اظہارِ رائے ہے جسے ہم اک چھوٹی سی چھاپ کی زبانی کہتے ہیں، جو ہمیں مکمل حق دیتا ہے  اپنے انتخاب کا، یہ ہماری صحت و سقم کا ضامن ہے، یہ ہمارے خریف و ربیع کا سر سبز نغمہ ہے، یہی ہمارے گھروں کے لیے وجہِ رونق ہے، یہی ہمارے موسموں کے لیے بادل ہے یہ ہی برکھا ہے، یہ چھوٹی سی نیلی  چھاپ ہمارے شہروں میں ہوٹلوں، گیراجوں، گھروں، بس اسٹاپس، اسٹیشنوں پر پائے جانے والے چھوٹوں کے لیے اسکولوں کی تعمیرات کا معمار ہے۔

یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ ہم سب کے لیے باعث راحت و سکون ہے، یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ ہماری صلاحیتوں کی علم بردار ہے اسی سے ہمارے اوصاف کو جلا ہے، یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ ہمارے بہتر روزگار  کے لیے جد و جہد ہے، یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ جنریٹرز کے شور، بیٹریز کی چارجنگ کے سر درد سے نجات ہے، اسی نیلی چھاپ میں ہماری ملکی معیشت کا دار و مدار ہے، یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ ہر رنگ و روپ نسل و زبان کی پاسبان ہے۔

یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ موسمِ گرما کی کڑی دھوپ میں ہمارے لیے سائبان ہے، یہی چھوٹی سی نیلی  چھاپ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی بدولت گاؤں گاؤں شہر شہر غریب کو کھاتی بھوک سے بچانے کا ذریعہ ہے، یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ ہمارے سوکھے ہوئے دریاؤں میں روانی کی آس ہے، یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اسفل سے اعلیٰ مقام پر لانے کی امید ہے، یہی چھوٹی سی نیلی چھاپ جسے  ہم ووٹ کہتے ہیں، اس کی حقیقت اس سے بہت منفرد ہے، جسے ہم نے سرِ بازار دھکے کھاتے دیکھا ہے اور پسِ دیوار ہچکیاں بھر بھر آنسو بہاتے سنا ہے، اس کی یہ بھیانک شکل جو آج ہمارے سامنے ہے ہماری اسی چھوٹی سی نیلی چھاپ کے باعث ہے، یہ کرسیوں پر رونق افروز ہمارے حالات سے کھلواڑ کرتے سیاسی خدا ان کا ہونا نہ ہونا بھی اسی  چھوٹی سی نیلی چھاپ ہی سے ہے۔

اس چھوٹی سی نیلی چھاپ یعنی اپنے ووٹ کا استعمال بہت دیکھ بھال کر کریں، یہ کسی کے دباؤ کے تحت یا چند پیسوں کے عوض کسی کو نہ دیں، نہ ہی اس میں ذاتی مفاد دیکھیں، یہ حق (vote) اسی حق دار کو دیں جو آپ کے حقوق کی پاس داری کے لیے بے غرض لڑے، کیوں کِہ غرض رکھنے والا آپ کے ووٹ کی عزت کو پامال کرنے میں ذرا تاخیر نہ کرےگا، کیوں کِہ اس کی نگاہ ہر وقت فقط اپنے مفادات پر ہوگی، اور ہماری تکالیف کی جھونپڑیوں کے آگے اس کی خواہشات کے اونچے خندہ زن محل۔

اگر کوئی مجھ سے  یہ کہے کہ میں پڑھا لکھا بلکل نہیں، مجھے سمجھ میں کچھ نہیں آتا، تو میں اُس کے اس اعتراض کو کسی طرح حق بہ جانب نہ جانوں گا۔ چلیں ایک لمحے کو آپ کا مان رکھنے کے واسطے میں نے مان لیا کہ آپ نہ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پڑھ، لیکن دیکھ تو سکتے ہیں؟ یا اب یہاں پر آپ اپنے آپ کو بے بصر “اندھا” ظاہر کریں گے؟


مزید دیکھیے: علامہ اقبال نے کہا، جو مجھے کشمیری ہونے پر ووٹ دینا ہو، تو نا دینا ووٹ


وہ دیہی بندہ جو یہاں شکوے شکایات کر رہا جب وہ کمانے کے لیے عرب ممالک میں جاتا ہے، تو وہ کس طرح وہاں کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا ہے؟ نہ صرف یہ بل کِہ وہ وہاں پر آنے والے ایک پڑھے لکھے بندے کی بھی رہ نمائی با آسانی کر لیتا ہے، یہ چمتکار کیسے ہوجاتا ہے؟ وہاں یہی انسان جسے نہ پڑھنا آتا ہے نہ لکھنا ہر چیز با قاعدہ کس طرح کر لیتا ہے؟ وہاں یہ اندھا کیوں کر نہیں ہوجاتا؟ وہاں کیسے اس کی بینائی تیز ہوجاتی ہے؟ جس کی بنا پر چیزوں کو دیکھتا ہوا، ان کے طور طریقوں سے فٹا فٹ واقف ہو جاتا ہے؟

میں ہمیشہ اک بات کہتا ہوں کہ جب گاڑی خراب ہو جاتی ہے تو ہمارے پاس کرنے کے لیے دو کام رہ جاتے ہیں، ایک یا تو رو لیا جائے اور  دوسرا مسکراتے ہوئے گاڑی کو دھکا لگا لیا جائے، بہانے کرنے کو ہزار صورتیں ہیں اور رونے کو ہزار باتیں مگر ان کی حقیقت وبالِ جاں کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

مانا کہ آپ پڑھے لکھے نہیں ہیں، لیکن اس بات کو ڈھال نہ بنائیں، اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر اپنے ملک میں بھی دکھائیں وہی آنکھ یہاں بھی اپنائیں، اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنائیں، اور ان باتوں سے نصیحت لیں، اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے، کہ جن مشکلات و مسائل کا آپ کو سامنا ہے ان سے ہمارے بچے نہ دو چار ہوں، جو سُکھ چین کا سانس ہمیں میسر نہ آیا وہ ہمارے بچوں کو نصیب ہو، یہ سوچ کر ایک کونا پکڑ کر مت بیٹھ جائیں کہ بہت دیر ہو چکی، دیر آید درست آید کو پکڑیں اور آگے بڑھیں، غور کریں دیکھیں کہ خرابی کہاں پر ہے اس کی وجہ کیا ہے، اور اس کے لیے ہم خود کیا کر رہے ہیں اور اب تک کیا کرچکے ہیں اور پھر دیکھیں کہ ہماری چھوٹی سی نیلی چھاپ کا منتخب کردہ بندہ ہمارے لیے  کیا کر رہا ہے، اور جو کر رہا ہے کیا وہ ہمارے لیے مفید ہے، باتوں کی گہرائیوں تک اتریں جڑوں تک پہنچیں ان سب کے لیے شرط بس غور و فکر سے دیکھنے کی ہے، اور ہمارے سے مراد سب کی لیں، جس میں ہر روپ ہر رنگ ہر نسل ہر قوم اور ہر زبان آ جاتی ہے۔

مساوات کو اپنائیں اتحاد کا چمن آباد کریں، صرف اپنے سکون تک محدود نہ رہیں، صرف اپنی مشکلات کے حل پا کر اوروں کی مشکلات سے آنکھیں نہ چرُائیں، ایک زبان ایک قوم ایک نسل ایک رنگ اور ایک روپ تک مقید ہوکر نہ رہ جائیں، کیوں کِہ وقت کو بدلنے میں ذرا وقت نہیں لگتا اور پھر پاس کاش سے کاش تک کے مغموم نغمات ہی رہ جاتے ہیں۔

آنکھوں کو فقط رونے کے لیے استعمال میں نہ لائیں، ان سے دیکھنے کا کام لیں، یہ ڈگریوں کی قید سے آزاد وہ تعلیم ہے جو آپ کو دنیا کے بے بہا علم سے رُو شناس کرواتی ہے، اسی کی بدولت آپ پڑھنا لکھنا بڑے شوق سے سیکھتے سکھاتے ہیں، تو شکوؤں شکایت کو اٹھا کر ڈبوں میں ڈال کر کباڑ خانے یا مچان پر رکھ چھوڑیں، اور دھیان دھریں اس چھوٹی سی نیلی چھاپ پر جس کے لگانے تک کے قلیل وقت کے ساتھ مل کر ایک لمبا سفر کرنا ہے، اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر سب کی خوش حالی کی جستجو میں۔

John F. Kennedy نے کہا:

“.One person can make a difference, so everyone should try”

(ایک فرد سے بھی  فرق آ سکتا ہے، سو اسی لیے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے۔)

اور یہ فرق کوئی معمولی نہیں ہوتا، یہ ہار جیت کا فیصلہ ہوتا۔ اور اسی ہار جیت کے فیصلے سے  پورے ملک میں امن و امان آنا ہوتا ہے، اور یہ فیصلہ ہماری ایک چھوٹی سی نیلی چھاپ کرتی ہے۔

تو اس چھوٹی سی نیلی چھاپ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں، اس کی طاقت کو تسخیر کریں، یہ چھوٹی سی نیلی چھاپ ہی نہیں، یہ اندھیروں میں روشنی ہے، یہ خرابی میں بہتری ہے اور یہی مایوسی میں زندگی ہے۔