اسلام اور جمہوریت : ماہانہ مجلس بصیرت کی نشست کی رُوداد

Dr Irfan Shahzad

اسلام اور جمہوریت : ماہانہ مجلس بصیرت کی نشست کی رُوداد

مرقوم از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

محترم ثاقب اکبر صاحب کے ادارے البصیرہ کے زیر اہتمام مجلس بصیرت کی ماہانہ نشست 28 جون، بروز جمعرات اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس کا عنوان اسلام اور جمہوریت مقرر کیا گیا تھا۔ شُرَکا نے اپنے نقطہ ہائےنظر پیش کیے۔

آغازِ گفتگو جناب ڈاکٹر محمد طفیل نے فرمایا۔ انہوں نے قرآنِ مجید کی آیت کے ایک ٹکڑےسے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ اکثریت فاسقین کی ہوتی ہے، اس لیے جمہوریت فاسقین کی اتباع کا نا م ہے:

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (سورہ انعام، آیت116)

اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہویت عوام کی حکومت کا نام ہے نہ کہ خدا کی حکومت کا۔ اس ضمن میں نے انھوں علامہ اقبال کے اشعار کا بھی حوالہ دیا  جن میں جمہوریت کی مذمت کی گئی ہے۔

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

انہوں نے اس پر بھی اعتراض کیا کہ انتخابات میں منتخب ہونے والا نمائندہ جمہور کا نمایندہ بھی نہیں ہوتا۔ اس کو ملنے والے ووٹ، اس کے مخالف مختلف امیدواروں کو پڑنے والے  ووٹوں کے مجموعے سے کم ہوتے ہیں۔ اس نظام میں عوام کے اختیار میں ہوتا ہے جسے چاہیں حاکم چن لیں، جو چاہیں قانون بنوا لیں۔ اس لیے اس نظام کو پابند کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ مطلق آزادی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ ایک عامی اور عالم، ایک بزرگ اور نو بالغ کا ووٹ برابر ہے جو کہ غلط ہے۔

اس کے جواب میں جناب محمد جان نے فرمایا کہ جمہوریت دین کا نہیں، امورِ دنیا  یعنی سیاست کا ادارہ چلانے کا ایک نظام ہے۔ تمام عوام اس کے شراکت دار ہوتے ہیں، اس لیے یہ ان سب کا حق ہے کہ وہ اپنا حاکم چنیں۔ اس میں عالم اور عامی کا فرق نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انتخاب کے دوران میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے  مدینے کے ہر فرد، مردو عورت بچوں بل کہ باہر سے آنے جانے والوں تک سے ان کی رائے طلب کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اجتماعی معاملات میں اختلاف کی صورت میں انسانوں کے پاس جمہور کی رائے پر فیصلے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہے ہی نہیں۔ یہ ناگزیریت ہے، جمہوریت کی خامی نہیں۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی حل ہے ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سورہ انعام کی جس آیت سے جمہوریت کی نفی کی گئی ہے، تفسیری ادب اس استدلال سے خالی ہے۔ یہ دور حاضر کا استدلال ہے۔

اسلام اور جمہوریت کے موضوع پراور جمہوریت کےبارے میں حاضرین کے اعتراضات کے جواب میں راقم الحروف نے جو معروضات مختصر طور پر پیش کیں ان کو یہاں تفصیل سے پیش کیا جاتا ہے:

مسئلے کو اس کی بنیاد سے دیکھیے۔ کسی انسان کو دوسرے انسان پر حق حکمرانی اصلاً نہیں۔ یہ حق کسی انسان کے لیے خدا خود دے سکتا ہے یا خود انسان دوسرے انسان کو خود پر حکمرانی کا حق دے سکتے ہیں۔ وحی کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد یہ امکان اب نہیں رہا کہ اس معاملے میں خدا کی طرف سے رہنمائی میسر آ سکے، چُناں چہ اب انسان ہی دوسرے انسان کو خود پر حقِ حکمرانی دیں تو اسے جائز تصور کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ چناں چہ دیکھا جا سکتا ہے کہ آج جس نظامِ سیاست کو ہم جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں، اس کی بنیاد درحقیقت اجتماعی انسانی فطرت میں موجود ہے۔ اس کے لیے کسی مذھبی استدلال کی بھی ضرورت نہیں۔ تاہم دینِ اسلام نے اسی فطری بنیاد کی تائید کرتے ہوئے، اس طرف رہنمائی کر کے معاملہ کو طے کر دیا ہے:

وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ (سورہ شوری 38)

اور اُن کا نظام اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہے

یہ بدیہی ہے کہ اجتماعی فیصلہ اگر اتفاق رائے سے طے ہو جائے تو فبہا، اختلاف ہو جائے تو اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ اکثریتی رائے سے معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے۔ اس میں اگر تجاوز اور بے اعتدالی ہوتی ہے تو بیدار ضمیر افراد اس پر توجہ دلائیں گے اور اسے درست کرانے کی کوشش کریں گے۔

یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست و حکومت  تب وجود پذیر ہوئی جب انسان شکار کے دور سے زراعت کے دور میں داخل ہوا۔ تب تمدن کا آغاز ہوا، تنازعات پیدا ہوئے، لوگوں کو اپنے کھیت کھلیانوں اور گھر بار کے تحفظ کے لیے نظمِ اجتماعی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے میں سے کچھ لوگوں کو اپنا بڑا مان کر نظمِ اجتماعی ان کے حوالے کیا۔  یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ سلطنت یا ریاست کا آغاز جمہوریت کے تحت ہوا تھا، جو کہ ایک فطری طرزِ حکومت ہے۔

پھر نظمِ اجتماعی کے ذمہ داران  کی ذمہ داریاں بڑھنے لگیں تو ان کی خدمات اور اجتماعی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان نمایندوں کو خراج دینے کا آغاز ہوا۔ اگلے مرحلے میں ان حکومتی نمایندوں نے عوام کی طرف سے ودیعت کردہ اسی طاقت کے بَل بُوتے پر حکومت پر مستقل قبضہ کر لیا۔ حکومت سے حاصل ہونے والے فوائد اپنے خاندان اور اولاد کو منتقل کرنے کی فطری خواہش سے بادشاہت کا آغاز ہوگیا، جمہوریت پیچھے رہ گئی اور پھر بھلا دی گئی۔


مزید دیکھیے: عصرِ حاضر میں اقبال کے تصور اجتہاد کی اہمیت و معنویت


ہزاروں سالوں کی بادشاہت کے دور کے بعد  بالآخر اس کی بازیافت مغرب میں ہوئی اور نظامِ سلطنت واپس اسی فطری بنیاد پر لوٹ آیا جسے پختہ کرنے کی کوششیں پوری دنیا میں جاری ہیں۔ یہ کوئی نظامِ کفر نہیں بل کہ انسانی فکری اور سیاسی ارتقا کے سفر کا ثمر ہے۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عوام کا اجتماعی ضمیر اکثر و بیش تر صالحیت پر اور اشرافیہ کا مزاج اپنے مفادات کی خاطر فساد پر قائم رہتا ہے۔ گزشتہ ہزاروں سال سے سماج پر اشرافیہ کی آمریت بنام بادشاہت اور سلطانیت قائم رہی، عوام کے اجتماعی ضمیر کے پاس اسے چیلنج کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، اسی لیے قوموں کا اجتماعی رویہ وہی سامنے آتا تھا جو اشرافیہ کا ہوتا تھا، انھی کے فیصلے قومی فیصلے بنتے تھے۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں بڑی بڑی جنگیں اور فساد برپا ہوئے۔

جمہوریت نے اصولی طور پر اجتماعی فیصلوں کا اختیار اشرافیہ کے ہاتھ سے نکال کر واپس عوام کے حوالے کر دیا۔ اجتماعی ضمیر کی نگرانی اور تنقید نے اشرافیہ کی من مانی کی راہ تنگ کر دی ہے۔ چناں چہ جن ممالک میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے وہاں داخلی اور خارجی فساد پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ تس پر بھی اشرافیہ میڈیا کی طاقت سے اپنے فسادی اور مفاداتی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے عوام کو بے وقوف بنانے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں، جس میں وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ان کا مکر و فریب اب زیادہ دیر پا نہیں ہوتا، جلد ہی وہ عوامی احتساب کے کٹھرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت عوام کے اجتماعی ضمیر کی حکمرانی کا نظام ہے، انسانی سماجی و سیاسی ارتقا میں جمہوریت ایک نہایت شاندار کامیابی ہے۔

حکمرانوں کو منتخب کرنے کا استحقاق ہر باشعور فرد کو ہے۔ اس شعور کے لیے تعلیم کی شرط درست نہیں۔ تعلیم، شعور میں اضافے کا ایک  ثانوی سبب ہے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ پڑھے لکھے زیادہ باشعور ہوتے ہیں اور کم پڑھے لکھے لازماً کم با شعور ہوتے ہیں، بل کہ اس کا برعکس بھی مبنی پر حقیقت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں ہر تعیلیمی سطح کے کارکنان اور ووٹرز پائے جاتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ پڑھے لکھے کوئی مختلف قسم کے فیصلے کرتے ہوں یا ایک جیسے بلند شعور کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ اس لیے ووٹر کے تعلیم کی کسی خاص سطح کی شرط درست نہیں۔

قرآن مجید سے جمہوریت کی نفی کے لیے سورہ انعام کی جو آیت پیش کی جاتی ہے، اسے غیر ضروری طور پر جمہوریت کی نفی کے لیے استعمال کیا گیا ہے:

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (سورہ انعام، آیت116)

اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔

یہ آیت مکی دور کی سورہ کی ہے۔ اس میں رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ کے وقت کے منکرین جو اس وقت اکثریت میں تھے، ان کا کہا نہ مانیے، یہ آپ کو خدا کے راستے یعنی دین و ایمان کی راہ سے گمراہ کر دیں گے۔ فی سبیل اللہ کی اصطلاح امورِ دینی کے لیے استعمال ہوئی ہے کہ دنیوی امور کے لیے۔ یہ ہدایت مختلف پیرائے میں قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے۔ یہ خدا کے راستے  سے گمراہ کرنے کی بات ہے نہ کہ ہر معاملے سے۔

ہمیں معلوم ہے کہ خدا کے راستے  سے بھٹکی ہوئی قومیں بھی اپنی اجتماعی معاملات نہایت عقل مندی اور معاملہ فہمی سے طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لیے آیت میں مذکور گمراہی سے مراد امورِ دینا کی گمراہی  نہیں دین و ایمان کی را ہ سے گمراہ کرنا مراد ہے۔ نیز، دنیا کے ہر خطے میں اکثریت ہمیشہ فاسقین کی نہیں ہوتی۔ معاملہ بل کہ اس کے برعکس ہے۔ مجرم اور گناہ گارہمیشہ قلیل ہوتے ہیں جب کہ عام لوگ اکثر و بیش تر صالحیت پر قائم ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ اشرافیہ اور اہلِ سیاست کی مفاداتی سیاسی رویے کو  پورے سما ج کا چہرہ سمجھنا درست نہیں۔

چند افراد کی صالحیت کی بنا پرحکمرانی کا استحقاق کا تصور اپنے آپ میں ایک بے بنیاد تصور ہے۔ صالحیت کوئی ڈگری نہیں کہ ایک بار مل گئی تو واپس نہیں لی جاسکتی۔ یہ ایک انسان کی ایک حالت ہے۔ ایک صالح انسان جب تک زندہ ہے،  قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ صالح رہے گا یا نہیں۔ صالحیت کی بنیاد پرحکمرانی کے لیے استحقاق ثابت کرنا اپنے بارے میں صالحیت کا دعوٰی کرنا ہے اور کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو صالح باور کرائے۔ قرآن مجید میں صحابہ کو بشرط صالحیت حکومت دیے جانے کا معاملہ خاص خدائی معاملہ تھا:

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (سورہ نور 55)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، اُن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن کو وہ اِس سر زمین میں ضروراُسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اُس نے عطا فرمایا تھا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو پوری طرح قائم کر دے گا جسے اُس نے اُن کے لیے پسند فرمایا ہے اور اُن کے اِس خوف کی حالت کے بعد اِسے ضرور امن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اور جو اِس کے بعد بھی منکر ہوں تو وہی نا فرمان ہیں۔

یہ ان کے صالحین کے ساتھ خداکا خاص وعدہ تھا۔ کیوں کہ وہی دلوں کا حال جانتا ہے کہ صالح کون ہے۔ اس وعدۂِ الٰہی کی بنیاد پر حکومت طلب کرنا دو وجہ سے غلط ہے: ایک اس لیے یہ وعدۂِ الٰہی صحابہ کے ساتھ خاص تھا، اسے دوسروں کے لیے عام نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان کو ملنے ولی حکومت عطیۂِ خدا وندی تھی:

أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا (سورہ نساء 54)

کیا یہ لوگوں سے اللہ کی اُس عنایت پر حسد کر رہے ہیں جو اُس نے اُن پر کی ہے؟ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولادِ ابراہیم (کی اِس شاخ، بنی اسماعیل) کو اپنی شریعت اور اپنی حکمت بخش دی اور اُنہیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے۔

آج کے صالحیت کے مدعی کو اسے طلب کرنا ہے تو خدا سے طلب کریں  عوام سے نہیں، دوسرے یہ وعدہ صحابہ کی صالحیت کی بنا پر تھا، تو آج کون اپنی صالحیت کو ثابت کر سکتا ہےکہ وہ کل بھی صالح رہے گا؟

خلافتِ راشدہ ہمارے لیے اخلاقی نمونہ ہے، لیکن  اس سے انتخاب حکمران اور نظام حکومت کے لیے کوئی مستقل اورابدی قانون برآمد کرنا درست نہیں۔ دین قرآن و سنت کا نام ہے۔ صحابہ نے بعد از وحی جو کیا وہ اسی قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ ان کے اعمال الگ سے دین کا ماخذ نہیں ہیں۔ صحابہ کا نظم اجتماعی خلافت کے نام سے اس وقت کے قبائلی نظام میں قائم ہوا۔ اس میں جتنی شُورائیت سے ممکن تھا، فیصلے کیے گے۔ اب ہر دور کے لیے مسلمان اپنے مقامی اور بین الاقوامی حالات کے مطابق جمہوری اور شورائی نظام وضع کرنے کے مکلف ہیں۔

اسلامی جمہوریت جیسی اصطلاحات بھی بے معنی ہیں۔ جمہوری نظام میں جتنے مسلمان اور جیسے مسلمان ہوتے ہیں اتنا ہی اسلام نظم حکومت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے لیے آئین و قانون کو اسلامی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے نہ صدر اور وزیر اعظم کی کرسی کو مسلمانوں کے لیے مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں آئین کو اسلامی بنانے، آئین میں یہ لکھ دینے سے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا، اور شرعی عدالتیں قائم کرنے سے ہمارے سماج پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ لوگ شرعی عدالت نہیں جاتے۔ شرعی سزائیں نافذ نہیں ہوتیں، وراثت شرعی لحاظ سے تقسیم نہیں ہوتی، نکاح و طلق و خلع کے معاملات میں اسلامی حدود سے تجاوز عام ہے، وغیرہ۔ یہ اس لیے کہ اسلام صرف قوانین کا نام نہیں، یہ طرزِ عمل کا نام ہے۔ یہ طرز عمل ہو تو آئین  یا جمہوریت کو مسلمان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، نہ ہو تو آئین و جمہوریت کو مسلمان کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

محفل میں موجود صحافی، جناب راج بیگ نے کہا کہ  اسلام اور جمہوریت پر یہ سارے مباحث تضیعِ اوقات ہے۔ وہ مباحث کیوں کیے جا رہے ہیں جو کب کی طے ہو چکیں ہیں۔ ان پر بحث و تمحیص کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔ اس پر مجلس کے اہلِ علم نے انھیں توجہ دلائی کہ ہمارے سماج میں جمہوریت کا جڑیں اب تک مضبوط نہیں ہو سکیں۔ ایک بڑا مذھبی طبقہ اسے نظامِ کفر قرار دے کر خلافتِ راشدہ کا کوئی نظام لانا چاہتا ہے، اور اس کے لیے وہ اپنے ہی لوگوں سے برسرِ جنگ ہیں، جمہوریت کا حامی مذھبی طبقہ بھی اسے ایک مجبوری باور کراتا ہے اور اس کا آئیڈیل بھی یہی ہے کہ جیسے ہی اسے طاقت ملی وہ نظام خلافت کا احیا کرے گا۔

ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ جمہوریت سے نالاں اور فوجی آمریت کا حامی ہے، حالاں کہ اس کے بد تر ثمرات یہ ملک کئی بار بھگت چکا ہے۔ نیز مسلم دنیا کے بہت سے ممالک میں بادشاہت ہے یا آمریت۔ وہ اب تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ جمہوریت ان کے ہاں آنی چاہیے یا نہیں۔ اس تناظر میں ان مباحث  کا انعقاد ایک امر ضروری ہے۔

ڈاکٹر ندیم عباس نے کہا کہ اہل تشیُّع کو تسلیم کرنا لینا چاہیے کہ ان کے امام  عملاً موجود نہیں ہیں اور اہلِ سنت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ خلافت کا دور لَد چکا۔ انہیں اب اپنے معاملات کو خود طے کرنے لیے اپنی عقل و تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔