عصرِ حاضر میں اقبال کے تصور اجتہاد کی اہمیت و معنویت : ایک کانفرنس کی روئیداد

محولہ زیریں کانفرنس میں شریک اہل علم کے علمی نکات اور راقم کے چند تاثرات

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

عصرِ حاضر میں  اقبال کے تصور اجتہاد کی اہمیت و معنویت

(ڈاکٹر عرفان شہزاد)

محترم ثاقب اکبر صاحب کے ادارے ‘البصیرہ’ کے زیر اہتمام  عصرِ حاضر میں  اقبال کے تصور اجتہاد کی اہمیت و معنویت کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس بتاریخ، 20 اپریل،  2016 بمقام اسلام آباد ہوٹل میں شرکت کا موقع ملا۔ مقررین میں جناب ثاقب اکبر کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود، پروفیسرڈاکٹر انیس احمد، پرفیسر فتح محمد ملک، جناب خورشید ندیم، بیرسٹر ظفر اللہ، پروفیسر ایوب صابر، جناب آصف لقمان قاضی جیسے اہل علم و دانش نے اظہار خیال کیا۔ ذیل میں ہم ان اہل علم کے خطبات کے  چیدہ نکات ،خلاصہ کلام اور اپنا مختصر تبصرہ پیش کریں گے۔

محترم ثاقب اکبر صاحب پہلے مقرر تھے۔ انہوں نے علامہ اقبال کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال نے اسلام کے اصولِ حرکت کی روشنی میں مسلسل اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا اور اہل علم کو اس کی طرف توجہ دلائی۔ ثاقب اکبر صاحب نے عصرِ حاضر میں اجتہاد کے کئی میدان گنوائے جن پر علم و فکر سے غور و خوض کرکے مسائل کا حل تلاش کرنےکی ضرورت ہے۔ آپ کے خطبے کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں:

اقبال کے خطبے کی بنیادی بات یہ ہے کہ وہ ہر دور میں اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور فقہ کی دنیا میں جمود اور ٹھہراؤ کے مخالف ہیں۔ علامہ اقبال انفرادی اجتہاد کے بجائے دور حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعی اجتہاد کے قائل ہیں ۔ ہم (ثاقب اکبر) اقبال کے تصور اجتہاد کی ان ہی اساسات کی روشنی میں چند نکات ذیل میں اہل نظر کی خدمت میں غوروفکر کے لیے پیش کرتے ہیں:
٭ انسان کی فکری کاوشوں کو انسانی سطح پر رکھا جائے اور انھیں الٰہی سطح پر قرار نہ دیا جائے۔تمام علماءکے فتاویٰ اور اجتہادات انسانوں کی اپنی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔

٭ حدیث کی جمع آوری ، تطبیق ، علم حدیث میں کانٹ چھانٹ اور بحث و مباحثہ کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے۔ ترکی میں حال ہی میں حدیث کی تدوینِ نو کا مرحلہ سر کیا گیا ہے۔ ماضی میں دیے گئے فتاوی کا نئی کاوشوں کی روشنی میں جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
٭ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے حدیث اور آئمہ حدیث نے حدیث کے مجموعے مرتب کیے۔ ماضی میں فقہ کی تدوین اپنے اپنے مکاتب فکر سے متعلقہ احادیث کے مجموعوں کو پیش نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ اب تو مشترکہ احادیث کے مجموعے موضوعی لحاظ سے مرتب ہو چکے ہیں۔ اس لیے فقہ کی تدوین نو یا ماضی کے مستنباطات کی نئی معلومات اور ان ذخائر کی روشنی میں پرکھ کی ضرورت ہے۔

٭ عرف بدلتے جارہے ہیں اور زندگی نئی سہولیات کے ساتھ ساتھ نئی پیچیدگیوں اورامکانات کا سامنا کر رہی ہے۔ اسی کو زمانے کا بدلنا کہتے ہیں اور عمل اجتہاد میں حکم زمان و مکان سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ اجتہاد ہی نہیں کہلا سکتا۔ کبھی موضوع بدل جانے سے حکم بدل جاتا ہے اور کبھی موضوع نہیں بدلتا خارجی حالات تبدیل ہو جاتے ہیں جو حکم کی تبدیلی پر منتج ہوتے ہیں۔

٭ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عقائد و کلام کے اثرات استنباط حکم پر مرتب ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہم اجتہاد کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں تو کلام جدید کی طرف بھی توجہ دینا پڑے گی۔ لہٰذا ہمارے علمائے کرام کو جدید کلامی موضوعات کی طرف بھی آنا پڑے گا اور آج کے تعلیم یافتہ اذہان اور دانشوروں کے افکار میں ابھرنے والے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

٭ بہت سے روشن فکر علماءدین شناسی اور شرعی قوانین کے حوالے سے مقاصد شریعت پر نظر رکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پہلو بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہم اس سلسلے میں صرف ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ مقاصد شریعت پر بحث کرنے سے پہلے انبیاء کی بعثت کے مقصد پر بحث کر لینا ضروری ہے اور پھر اگلے مرحلے میں قانون کو اس مقصد سے ہم آہنگ رکھنا بھی ضروری ہے۔

ثاقب اکبر صاحنب کا مکمل خطبہ اس لنک پر پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

ان کے بعد بیرسٹر ظفراللہ صاحب تشریف لائے۔ اقبال کے تصورِ اجتہاد پر تو انہوں نے کوئی خاص کلام نہیں کیا، البتہ اجتہاد سے متعلق اپنے فکر انگیز علمی نکات سے اہل علم و فکر کے لیے سوچ کے کئی زاویے واکر گئے۔ انوں نے کہا کہ احناف آج جس تقلید کا شکار ہیں وہ فقہ حنفی کی روح کے ہی خلاف ہے۔ فقہ حنفی میں امام ابو حنیفہ کے شاگردوں نے ان سے اختلاف کیا یہاں تک کہ اس فقہ میں امام ابو حنیفہ کے فتاویٰ صرف 15 فیصد ہیں، جب کہ 85 فیصد ان کے شاگردوں کے فتاویٰ مفتیٰ بہ ہیں۔ امام محمد نے بعض باتو ں میں امام ابو حنیفہ کی رائے کی بجائے امام اوزاعی کی تنقیدی آراء کو قبول کیا۔

انہوں نے توجہ دلائی کے پاکستان میں رائج حدود کے قوانین میں شرعی اور فقہی قوانین دونوں کو حدود کے ضمن میں لکھ دیا گیا ہے جو کہ صریحاً غلط ہے۔ اس لیے کہ شریعت خدا کی طرف سے آتی ہے اور فقہ انسانوں کی کاوش ہوتی ہے۔ جس میں زمان و مکان کی رعایتیں رکھی جاتی ہیں۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس پر بات کرنا شریعت کے خلاف بات کرنے کے مترادف بن گیا ہے۔ علماء کو اس فرق کو سمجھنا چاہیے اور اس مسئلے کو درست کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر (رض) نے حدودکی تنفیذ میں مرتکب کی لاعلمی اور ناسمجھی کا لحاظ رکھا تھا، جب کہ جدید قانون لاعلمی کو عذرنہیں گردانتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اسلام میں عورت کی حیثیت خود مختار ہے یا نہیں؟ اگر خود مختار ہے تو اس کی دیت اور گواہی آدھی کیوں ہے؟ نیز انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا دیت کی بنیادانسانی تکریم ہے؟ اور کیا عورت بطورِ انسان اسی تکریم کی مستحق نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر اس کی دیت آدھی کیو ں کر ہو سکتی ہے؟

بیرسٹر ظفراللہ صاحب نے اصولِ فقہ پر بھی اجتہادی نقطہ نظر سے نظرِ ثانی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے عرف کو ایک ماخذِ قانون قرار دیتے ہوئے طلاق وغیرہ کے مسائل میں حکم لگانے میں عرف کو ملحوظِ نظر رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے عزیمت و رخصت کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عزیمت پر عمل نہ کرنے کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہی نہیں ہے بلکہ عزیمت پر عمل کرنا بعض اوقات ناپسندیدہ بھی ہے۔ فقہ کو رخصت کے اصول پر مدون کرنا چاہیے۔ انھوں نے حضرت عمر فاروق (رض) کے اجتہادات سے کئی مثالیں دے کر اجتہاد کی روح اور ضرورت کو باور کرانے کی کوشش کی۔

ان کے بعد جناب آصف لقمان قاضی صاحب ڈائس پر تشریف لائے اور فرمایا کہ علامہ اقبال اپنی شاعری میں جنون پر اور اپنے خطبات میں خرد پر زور دیتے ہیں۔ اقبال کی مکمل تفہیم تب ہی ممکن ہے جب ان کی شاعری اور خطبات دونوں کو پڑھا اور سمجھا جائے۔ مزید فرمایا کہ قیامِ پاکستان سے اب تک اسلامی تحریکوں نے قانونی طور پر جو کچھ حاصل کرنا تھا کر لیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کتابوں سے لائبریریاں بھر دی ہیں، لیکن معاشرے پر اس کا کیا اثر ہے، ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اب تک جو کچھ قانونی طور پر حاصل کیا جا چکا ہے اس پر عمل در آمد کرنے اور کرانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جب تک تعلیمی نظام اور نصاب کو ذریعہ نہیں بنایاجاتا کوئی تبدیلی لانامشکل ہے۔

پروفیسرفتح محمد ملک صاحب نے اقبال کے سیاسی اجتہاد کے حوالے سے بات کی۔ آپ نے کہا کہ پاکستان کا تصور اقبال کا سیاسی اجتہاد تھا۔ علماء ان کے اجتہاد سے یا تو لا تعلق رہے یا مخالف۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے علماء وقت کے تقاضوں سے نابلد تھے۔ اقبال نے مسلمانوں کو جداگانہ قومیت کا جو نظریہ دیا وہ مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ اسلام زمین سے پیوستگی کی اجازت نہیں دیتا۔ اقبال مسلمانوں کو ایک روحانی شناخت دیتا ہے۔

اس موقع پر راقم سوال کرنا چاہتاتھا لیکن موقع نہیں تھا۔ سوال یہ تھا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کی بنیاد جغرافیہ کی بجائے مذھب کو قرار دیا اور اسی تناظر میں انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی، جو قومیت کی بنیاد وطن اور جغرافیہ قرار دیتے تھے، اور اس لیے مشترکہ قومیت کے حامی تھے، پر طنزیہ اشعار بھی لکھے تھے۔ لیکن پھر یہی اقبال مسلمانون کی اس جداگانہ قومیت کی حفاظت کے لیے پاکستان کی صورت میں الگ جغرفیے کا مطالبہ کرکے  کیا اپنے ہی نظریے کی نفی نہیں کر دیتے؟ گویا مسلمانوں کی روحانی شناخت بھی جغرافیہ کے بنا ممکن نہیں تھی۔ نیز پاکستان کی صورت میں حاصل ہونے والا الگ جغرافیہ بھی صرف مسلمانوں کی پیچان نہیں بنا بلکہ یہاں بسنے والے دیگر غیر مسلم بھی اس جغرافیائی پہچان میں شامل ہیں جیسا کہ متحدہ ہندوستان میں دیگر اقوام مع مسلمان ہندوؤں کے ساتھ ایک مشترکہ قومیت میں شامل ہیں، تو نظریاتی لحاظ سے شناخت کی مد میں فرق کیا پڑا؟

پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے زور دیا کہ عرب امپیریلزم کا خاتمہ ضروری ہے تب ہی ملائیت اور اسلام کے گٹھ جوڑ کا توڑ ممکن ہوسکتا ہے۔ اقبال کے بعد مولانا مودودی نے اس کے خلاف کام کیا اور اس گٹھ جوڑ کو اپنی کتاب، ‘خلافت و ملوکیت’ میں واضح کیا۔

ان کے بعد ڈاکٹر انیس احمد سٹیج پر تشریف لائے۔ انہوں نے فرمایا کہ علامہ اقبال نے چند سوالات اٹھائے تھے: کیا اسلامی قانون منجمد ہے یا متغیر؟ اقبال نے اپنے خطبے میں اسلامک لاء یا محمڈن لاء کے الفاظ استعمال کیے شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا (گویا جو کچھ اقبال نے اسلامی قانون کے باب میں کہا اس کا تعلق فقہ سے ہے  نہ کہ شریعت سے) ۔ اقبال کا دوسرا سوال یہ تھاکہ کیا پانچ فقہی مذاھب کی حیثیت حتمی ہے؟ نیز، کیا اسلام کے احکامات، اجتہاد کرنے کی توثیق کرتے ہیں؟ اجتہاد مخصوص طبقہ کرے گا یا مختلف طبقات جو اپنے اپنے شعبہ جات کے ماہر ہوں؟ پھر اقبال نے ان سوالات کے جوابات دیئے۔ اقبال اجتماعی اجتہاد پر زور دیتے ہیں اور اسی لیے پارلیمنٹ کے ذریعے اجتہاد کی بات کرتے ہیں۔

ڈاکٹر انیس نے فرمایا کہ اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا۔ یہ ایک افسانہ ہے کہ کھبی اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا تھا۔ ثبوت کے طور پرانہوں نے ہر دور میں لکھی جانے والی قرآن کی 800 تفاسیر کو پیش کیا۔ نیز انہوں نے فرمایا کہ زوال اجتہاد کی طرف مائل کرتا ہے۔ بغداد کی تباہی ہوئی تو امام ابن تیمیہ نے اجتہاد کا دروازہ کھولا۔ برصغیر میں مغل حکومت زوال پذیر ہوئی تو شاہ ولی اللہ نے اجتہاد کی بزم آراستہ کی۔ اسی طرح اقبال ادبار کا مجتہد ہے۔ مزید فرمایا کہ مغربی قانون کا ماخذ عرف ہے لیکن اسلام کا ماخذ قرآن اورسنت ہیں۔ جس سے متغیر عرف کے لیے قانون سازی کی جاتی رہے گی۔ مزید فرمایاکہ اسلام عربوں کو اسلامائز کرنے آیا تھا نہ کہ دوسروں کو عربنائز کرنے۔ اسلام کا مطلب عرب کلچر کو اپنا لینا نہیں۔

محترم خورشید ندیم صاحب نے اقبال کے تصورِ اجتہاد پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا علماء، اقبال کو اجتہاد کا حق دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آج اقبال کے تصور اجتہاد کو نہ صرف قبول کیا جا رہا ہے بلکہ اس کو روشنی میں اجتہاد کی راہیں بھی تلاش کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے علامہ اقبال کی درست تفہیم اب تک نہیں ہو پائی۔ انہوں نے کہا کہ ان سے پہلےڈاکٹر انیس صاحب نے جو یہ فرمایا کہ اقبال کے خطبات میں شریعت اور فقہ میں فرق کیا گیا ہے، یعنی جو کچھ اقبال قانونِ اسلامی کے بارے میں فرماتے ہیں اس سے مراد فقہ ہے نہ کہ شریعت۔ خورشید ندیم صاحب نے اس خیال کا رد کیا اور کہا وہ اقبال کے خطبہ اجتہاد میں ایسے کسی فرق کے وجود سے ناواقف ہیں۔ اقبال جب قانون کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو شریعت اس کا حصہ ہوتی ہے۔

انہوں نے اقبال کے تصورِ اجتہاد کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ اقبال کے تصور اجتہاد کی دو پرتیں ہیں؛ ایک تو اجتہاد کی فنی بحث ہے، مثلاً اجتہادِ مطلق، اجتہادِ مقید، اجتہاد فی المذھب وغیرہ اور دوسری اسلام کے اصولِ حرکت کی روشنی میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو کی پرت ہے۔ دوسری پرت کے نتیجے میں اقبال، تفسیر، حدیث اور استنباطِ احکام کی ساری روایت پر اجتہادی بصیرت کے ساتھ نظرِ ثانی کرتے ہوئے نیا عالمی نقطہ نظر پیش کرناچاہتے ہیں۔ اس کو اقبال، ‘فکر اسلامی کی تشکیلِ نو’ کہتے ہیں۔

خورشید ندیم صاحب نے ڈاکٹر انیس صاحب کے اس خیال کہ اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا، اور یہ کہ قرآن کی 800 سے زائد تفاسیر اس کی گواہ ہیں کہ اجتہاد ہر دور میں جاری رہا، پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجیدکی درحقیقت 4 یا 5 تفاسیر ہی لکھی گئی ہیں، یعنی تفسیرِ ابن کثیر، کشاف، تفسیرِ کبیر اور کوئی ایک فقہی تفیسر جیسے قرطبی وغیرہ۔ باقی تمام تفاسیر انہی تفاسیر کی تفاسیر ہیں، انہی سے ماخوذ اور الفاظ اور اسلوب کے فرق سے باربار لکھی گئی ہیں۔ نیز فقہ میں بھی اجتہاد کو اجتہاد فی المذھب کے دائرے میں مقید کردیا گیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ عملاً بند کردیا گیا تھا۔ اور اسے کھولنے کے لیے لوگ اب بھی تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی تناظر میں اقبال کے تصورِ اجتہاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس اجتہاد کی بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقبال نے اپنے خطبے میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پیغمبر بھی جب اپنی قوم کے سامنے شریعت پیش کرتا ہے تو اس وقت کے مزاج اور حالات کو مدِ نظر رکھ کر کرتا ہے۔ اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ فقیہ کو بھی چاہیے کہ اپنے اجتہادات میں عرف کو مدِ نظر رکھے۔ مزید کہا کہ اقبال محمد بن عبد الوھاب کی تحریک کی مدح کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے آئمہ اربعہ کی تقلید سےباہر نکلنا ممکن ہوا۔ لیکن اس تحریک کا حدیث پر اصرار، ماضی کو بلا تنقید قبول کرانے کے مترادف ہے۔ جو ایک بار پھر تقلید کی روش کی طرف لے جاتا ہے۔

خورشید ندیم صاحب نے کہا کہ حدیثِ قرطاس کی روایت جو شیعہ اور سنی میں وجہ نزاع رہی ہے۔ اقبال اس کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ وہ حضرت عمر فاروق (رض) کی مدح کرتے ہوئے انھیں حریت فکر کی اولین آواز قرار دیتے ہیں۔ جنھوں نے یہ کہنے کی جرات کی کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے ڈاکٹرجاوید اقبال کے حوالے سے کہا کہ اگر اقبال کے تصورِ اجتہاد کو قبول کر لیا جائے تو نہ اس میں ولایتِ فقیہ کے لیے کوئی گنجائش رہتی ہے اور نہ افغانوں کے علماء کی مجلسِ شوریٰ کی۔ اس لیے کہ اقبال اجتہاد کا حق کسی خاص فرد یا طبقے کو نہیں دیتے۔ مزید کہا کہ اقبال کو جو لوگ اپناتے بھی ہیں ان پر بھی فکرِ اقبال کے یہ گوشے مخفی رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کی فکرِ اجتہاد کا کوئی مصداق انہیں اس عہد میں نظر نہیں آتا۔ اقبال بڑی حد تک اپنی تفہیم کے اعتبار سے لاوارث ہی اس دنیا سے چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اقبال پوری کائنات کی ایک روحانی تشکیل و تعبیرکے قائل ہیں اور یہی ان کا اصولِ اجتہاد ہے اور اسی بنا پر وہ جمہویت اور جمہوری اداروں کو ایک روحانی تعبیر کے تناظر میں قبول کرتے ہیں اور روحانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔

خطبے کے آخر میں جناب خورشید ندیم صاحب نے اقبال کے خطبہ الہ آباد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کے ہاں ہندوؤں سے مسلمانوں کے اختلاف کی بنیاد تصورِ مذھب نہیں، بلکہ تصورِ سماج ہے۔ ہندو طبقاتی تقسیم کے قائل ہیں جو خود ان کو ایک قوم بننے نہیں دیتا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں۔ مسلمان مثلاً، اہل کتاب کے ساتھ تو ایک قوم بن سکتے ہیں لیکن ہندوؤں کے ساتھ نہیں۔

اس کے بعد پروفیسر ایوب صابر تشریف لائے اور فرمایا کہ معاشی نظام پر اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مزارعت یعنی جاگیردای کو حرام قرار دیا تھا۔ امام ابو حنیفہ اس کی حرمت کے قائل ہیں لیکن قاضی ابو یوسف نے حکمرانِ وقت کی مرضی کے مطابق فتوی دیتے ہوئے اسے جائز قرار دے دیا تھا۔ ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت بلال سے زمین کا وہ ٹکڑا جو انہیں رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا، اس بنا پر زبردستی واپس لے لیا تھا کہ وہ اس کو آباد نہیں کر پائے تھے۔ ہمارے ہاں مسلکی علماء نے زرعی اصلاحات نہیں ہونے دیں۔ جسٹس تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ الازہری کے وقت میں زرعی اصلاحات کے لیے کیس دائر ہوا تھا۔ لیکن ان علماء نے قاضی ابو یوسف کے فتوی پر فیصلہ دے دیا۔ انہوں نے کہا کہا کہ پارلیمان میں مختلف علوم و فنون کے ماہرین بھی شامل کرنے چاہیں۔

آخر میں صدرِ مجلس پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود صاحب تشریف لائے اور فرمایاکہ اس مجلس میں اقبال کی تفہیم میں بہت اختلاف دیکھنے میں آیا۔ یہی اختلاف اصول ِ حرکت ہے جو اجتہاد کی بنیاد ہے۔ اختلاف زندگی کی علامت اور خدا کی نشانی ہے۔ ہم اختلاف سے گھبرا جاتے ہیں۔ ہم اباحیت سے ڈرتے ہیں۔ اجتہاد کے مفاہیم میں بہت فرق ہے۔ اقبال اس کو ایک نہج پر لانا چاہتے تھے۔ اگر انفرادی اجتہاد سے خوف ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اسے اجتماعی بنا دیا جائے۔ علامہ نے اجماع اور اجتہاد کو اکٹھا کرنے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقبال نے جو پارلیمنٹ کا تصور دیا تھا لوگ اس سے خائف ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ پارلیمنٹ سے مراد یہ تھی کہ پارلیمنٹ کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، جو بل یا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش ہوتا ہے اسے پہلے ماہرین تیار کرتے ہیں۔ پھر وہ بحث یا توثیق کے لیے پارلیمنٹ میں پیش ہوتا ہے۔ نیز پارلمنٹ بھی وہ ہو جس کے نمائندے آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اترتے ہوں۔

انہوں نے مزیدکہا کہ اہلِ سنت کے ہاں قانون کے چار ماخذ بیان کیے جاتے ہیں: قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ قرآن اور سنت تو ماخذ ہیں لیکن قیاس اور اجماع کیسے ماخذ ہوگئے۔ ان کو ماخذ قرار دینے سے ان کو بھی وہی درجہ مل گیا جو قرآن اور سنت کا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اختلافِ رائے کا احترام کریں تب ہی اجتہاد اور آزادی کا صحیح مفہوم طے ہو سکتا ہے۔

رسمی طور پر مجلس برخاست ہونے کے بعد، میں نے موقع پاتے ہی خورشید ندیم صاحب سے اجازت لے کران سے کچھ سوالات پوچھے۔ میرا سوال علامہ اقبال کے تصورِ قومیت اور دو قومی نظریے کے بارے میں تھا۔ میں نے پوچھا کہ مسئلہ اگر سماجی اور طبقاتی تقسیم کا تھا تو پچھلے ہزار سال سے ہندو مسلم ایک قوم کی طرح کیوں کر رہ پائے تھے اور اب بھی مسلمان بھارت میں ہندوؤں کے ساتھ ایک قوم بن کرکیسے رہ رہے ہیں۔ خورشید ندیم صاحب نے جواب دیا کہ پہلے دور میں مسلمان حکمران تھے اس لیے کام چل گیا۔ دورِ حاضر میں یہ ہوا کہ ہندوؤں نے سیکولرازم کی اقدار کو اپناتے ہوئے مخلوط معاشرت قبول کر لی یوں ہندو مسلم کا ایک قوم بن کر رہنا ممکن ہو گیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ اقبال مستقبل کی کروٹ کا درست اندازہ لگا نہیں پائےکہ ہندو معاشرہ اس طرح ارتقاء کر جائے گا۔ اس پر خورشید ندیم صاحب نے تائید کی شاید ایسا ہی ہے۔ تاہم اس دور میں، ان حالات میں اقبال کی بات درست تھی۔

میں نے دوسرا سوال پوچھا کہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے الگ قومیت کا تصور اور اس کی بنیاد پر الگ ملک کا نظریہ ہندو سماج کی طبقاتی تقسیم کی بنا پر دیا تھا تو اس کے لیے الگ ملک جن علاقوں میں تجویز کیا تھا یعنی بنگال، سندھ، پنجاب، سرحد ور بلوچستان پر مشتمل ملک، وہاں تو مسلمان اکثریت میں تھے۔ انہیں ہندوؤں کی طبقاتی تقسیم سے کوئی نقصان یا خطرہ نہیں تھا۔ جب کہ ہندو کلچر یا ہندو سماج کی طبقاتی تقسیم سے متاثر ہونے والا مسلمان درحقیقت ان علاقوں میں تھا جہاں ہندو اکثریت میں تھے۔ لیکن الگ مسلم ملک وہاں نہیں بن رہا تھا، نہ بن سکتا تھا۔ گویا مرض کسی اور کا تھا اور علاج کسی اور کو تجویز کیا گیا۔ اس پر خورشید ندیم صاحب نے کہا کہ ان سوالوں کے حتمی جوابات دینا شاید ممکن نہیں۔ شاید اقبال سمجھتے تھے کہ مسلمان اگر سیاسی طور پر خود مختار ہوں تو اپنی شناخت بچا سکتے ہیں۔ خورشید ندیم صاحب نے یہ بھی کہا کہ ان کے علاوہ بھی کچھ سوالات ہیں جن کے شافی جوابات انہیں اب تک نہیں مل پائے۔ ایک یہ کہ ہجرت کے نتیجے میں جو لاکھوں لوگ کام آئے،کیا اس سے بچا نہیں جا سکتا تھا؟ دوسرا یہ کہ بھارت رہ جانے والے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ خورشید ندیم صاحب نے کہا کہ کیبنٹ مشن کی تجاویز کو اگر قبول کر لیا جاتا تو شایدآج حالات بہتر ہوتے۔

خورشید ندیم صاحب کے ساتھ نشست توختم ہوگئی لیکن میں سوچ رہا تھا کہ کیا تقسیمِ ہند کی وجہ سے ہونے والی عظیم قتل و غارت کا اندازہ مسلم لیگ کو نہیں تھا؟ مسلم لیگ نے دیکھ لیا تھا کہ یومِ راست (Direct Action Day) کے اعلان پر ہی سینکڑوں فسادات میں ہزاروں افراد قتل ہوئے تھے۔ ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوئے تھے، اس لیے یہ کہنا کہ حالات کے درجہ حرارت کا اندازہ ان کو نہین تھا۔ بالکل بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔  یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نے تقسیم کی خاطر ممکنہ قتل و غارت کو گوارا کر لیا تھا۔

بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے کوئی تجویز مسلم لیگ یا دوقومی نظریے میں موجود نہیں تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مشترکہ قومیت کے امکان کویا عملاً درست مان لیا گیا تھا۔ اگرچہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے شناخت کے بحران کا مسئلہ اگر تھا تو ان کو درپیش ہو سکتا تھا۔ لیکن اسی برصغیر کے دوسرے حصے کے مسلمانوں کے لیے الگ قومیت کا تصور درست سمجھا گیا تھا حالانکہ اس دوسرے حصے کے مسلمان پہلے سے اکثریت میں ہونے کی وجہ سے ہندوؤں کے مقابلے میں قومیت کے کسی بحران کا شکار نہیں تھے اور نہ اس کا امکان تھا۔ یوں دیکھا جائے تو مسلمانون کی مذھبی سیاست میں کنفیوژن پیدا ہو گئی جو آج تک حل نہیں ہوئی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مستقبل کی یہ کروٹ بھی سمجھ نہ سکے کہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں مسلمان مختلف ممالک میں سیاسی طور پر خود مختار نہ ہونے کے باوجود بحیثیتِ قوم اپنی شناخت کے کسی بحران کا شکار نہیں۔ وہ دوسروں کی قومیت بھی اپنا لیتے ہیں لیکن ان کی اسلامی شناخت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ انہوں نے مخلوط معاشروں میں رہنا سیکھ لیا ہے۔

اقبال جغرافیہ کی بجائے مذھب کو قومیت کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ جب کہ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام آزاد جغرافیہ کو قومیت کی بنیاد مانتے تھے۔ لیکن حقیقت دیکھیے کہ اقبال کے روحانی قومیت کے نظریہ کو ماننے کے باوجود مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں جغرافیے کی صورت میں ہی اپنی شناخت بنانی پڑی۔ اور آج عملاً مسلمان مختلف قومیتوں اور جغرافیوں کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ قومیائی اور جغرافیائی شناختیں کہیں تو مکمل اسلامی ہیں جیسے سعودی عرب، مصر وغیرہ اور کہیں سیکولر جیسے بھارت امریکہ وغیرہ مگر مسلمانوں کی شناخت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اسی سیمینار میں پروفیسر فتح محمد ملک نے اقبال کے تصور پاکستان کو اقبال کا سیاسی اجتہاد قرار دیتے ہوئے ان کی مخالفت کرنے والے مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام کو عصری تقاضوں سے نابلد کہا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقبال ہیں جو مستقبل کے تقاضوں کا درست اندازہ نہیں لگا سکے تھے۔
آج بھارت سمیت ان غیر مسلم ممالک میں عموماً اسلام کو کوئی خطرہ ہے نہ مسلمانوں کو۔ البتہ وہ ملکِ پاکستان جو مسلمانوں کی شناخت بچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ وہاں بات بات پر شناخت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شناخت کی یہ حساسیت دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی حساسیت ہے جو ہمیں ہمہ وقت اپنے ہمسایوں بلکہ اپنے سایوں سے بھی آمادہ پیکار رکھتی ہے۔

تاریخ پاک و ہند کا سب سے بڑا المیہ کیبنٹ مشن پلان کی ناکامی تھی۔ برصغیر پاک و ہند کے مستقبل کی کامیابی کیبنٹ مشن  جیسے کسی پلان  کی قضا کی ادائیگی میں نظر آتی ہے۔