موقع ملا تو ہو گا باپ رے باپ

Asad Lashari
اسد لاشاری

موقع ملا تو ہو گا باپ رے باپ

از، اسد لاشاری

25 جولائی 2018 کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں سیاسی، نیم سیاسی جماعتوں، مذہبی، نیم مذہبی، جمہوری، غیر جمہوری قوتوں کی سر گرمیاں عروج پر ہیں۔ انفرادی سطح پر بات کی جائے تو کوئی وفا داریاں بدلنے میں مصروف ہے تو کوئی نظریاتی بننے کے چکر میں ہے اور کوئی انتظامی صورت حال بہتر بنانا چاہ رہا ہے۔

یہاں ان شخصیات کی بات ہو رہی ہے جو اداروں کے سربراہ ہیں، جن کے ما تحت ہزاروں افراد ہیں۔ ان کے پاس اپنے ما تحتوں سے کام کرانے کا اختیار ہے۔ دل چسپ بات یہ کہ سیاسی رہنما بھی اقتدار کی خاطر طاقت ور شخصیات کے آگے سر بسجود ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں مجموعی صورت حال کافی بہترہے، ملک درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ چیف جسٹس ڈیم بنوا رہے ہیں، قوم ڈیمزکی تعمیر کے لیے چندہ جمع کر رہی ہے، چیف صاحب قرضہ اتارنے کا بھی عزم ظاہر کر چکے ہیں، امید ہے فوری انصاف کے لیے بھی کچھ لائحہ عمل بنائیں گے۔

فوج شفاف انتخابات کرانے کی کوشش کر رہی ہے، نیب ملزمان، مجرمان اور بد عنوانوں کو منطقی انجام تک پہنچا نے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن پھربھی کچھ عناصرکو تکلیف ہو رہی ہے، وہ کشمکش کا شکار ہیں، ان کو لگ رہا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہے، کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہے، ان کا مینڈیٹ چرایا جا رہا ہے، ان کو کھل کر کھیلنے کے بجائے دفاعی انداز میں کھیلنے پرمجبور کیا جا رہا ہے۔

اور دور کہیں پاکستان کے ایک کونے میں ملک کا سب سے بڑا، سب سے پسماندہ صوبہ واقع ہے، جہاں مسائل کے انبار ہیں، کچھ  سَرپِھرے سوشل میڈیا کےذریعے جان بوجھ کر مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، جب کہ قومی میڈیا منفی خبریں نشر کرنے سے گریز کرتا ہے، چاہے لوگ بھوک و افلاس سے مر رہے ہوں، یا بم دھماکوں میں مارےجا رہے ہوں، مگرمیڈیا نشر نہیں کرتا۔

وجہ یہ ہے کہ ایک تو منفی خبریں نشرکرنے سے ملک بدنام ہوتا ہےاور دوسرا یہ کہ وہاں کی سیاست بے رنگ ہے، نہ بلے سے چھکے لگتے ہیں، نہ تیر سے شکار ہوتا ہے، نہ شیر کسی کو دھاڑتا ہے، تیسرا اورسب سے اہم مسئلہ وہ یہ کہ بلوچستان کی خبریں نشر کرنے سے ریٹنگ نہیں آتی، کار و بار نہیں پھلتا پھولتا! وہاں کہ لوگوں کو مطمئن کرنا تھوڑا مشکل ہے، تلخ تجربات کی وجہ سے ان کے مزاج میں تلخی زیادہ ہے۔

عام لوگوں کےمسائل اتنے ہیں کہ اگر کوئی وہاں جائے تو شکایتوں کے انبار لگ جائیں گے۔ شکایتیں سننے کا وقت قومی رہنماؤں کے پاس کہاں، شاید اس لیے ملک کی تین بڑی جماعتوں کے تین بڑے سربراہ ملک کے تین صوبوں میں انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ لیکن بلوچستان میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے سے کترا رہے ہیں۔

بلوچستان کےعوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ تحریک انصاف جیسی جماعت جس نے بلوچستان کے 50 فیصد حلقوں سےامیدوار کھڑے کیےہیں، مگر تحریک انصاف کی قیادت نے کارکنان اور امیدواروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیےایک جلسہ تک نہیں کیا۔


مزید دیکھیے: آمریت، جمہوریت اور عوام


پیپلز پارٹی نےسینیٹ میں معجزہ کر دکھایا، مگرعام انتخابات میں ایسےمعجزے کے لیے پی پی پی قیادت بلوچستان جانے کو تیار نہیں۔ جب کہ ن لیگ پہلے ہی اپنا بوریا بستر لے کر پنجاب میں ابدی آرام  کے لیےمنتقل ہو چکی ہے، اس لیے لیگی قیادت نے بھی بلوچستان کو خدا کی مخلوق کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔

اب آتے ہیں ان عناصر کی طرف جو منفی خبریں پھیلا رہے ہیں، جو جھوٹ کو فروغ دے رہے ہیں، جو ملک کو بد نام کر رہے ہیں۔ جو کہہ رہے ہیں کہ ملک کے حالات بہتر نہیں، جو انتخابات کو ملکی تاریخ کے بد ترین انتخابات قرار دے رہے ہیں۔ وہ جان لیں کہ ملک میں سیاسی ماحول ساز گار ہے، سب کو یکساں مواقع مل رہے ہیں، اور مجموعی صورت حال بھی کافی بہتر ہے۔

رہی بات بلوچستان کی تو قومی جماعتیں بلوچستان میں اس لیے بھی سر گرم نہیں دکھائی دے رہی ہیں کہ وہاں جماعتوں کا “باپ” یعنی بلوچستان عوامی پارٹی موجود ہے، جو بلوچستان کے لوگوں کے دکھوں کا ازالہ کرنے کا پہلے ہی عزم ظاہر کر چکی ہے، اورعوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر حکومت بنانے کا ہمارے علاوہ کسی اور کو موقع نا ملا تو باپ اور اس کے بانیان کسی کو مایوس نہیں کریں گے۔

نوٹ کسی کی نیت پر شک کرنے سے گریز کیا جائے اور اس پیغام کو عام کیا جائے کہ ملک کی مجموعی صورت حال کافی بہتر ہے۔