بے بھاؤ کا بولیں وہ

بے بھاؤ کا بولیں وہ
Illustration via Process Street

بے بھاؤ کا بولیں وہ

از، محسن رضا

افلاطون کہتا ہے کہ دانا آدمی اس لیے بولتا ہے کیوں کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ ہوتا ہے جب کہ بے وقوف اس لیے بولتا ہے کہ اسے کچھ بولنا ہوتا ہے۔

یہی حال سوشل میڈیا پر اندھا دھند دے مار ساڑھے چار پوسٹیں لگانے والوں کا ہے۔ موقع بے موقع ہر صنف پر طبع آزمائی کی جاتی ہے، جب مُنھ کا ذائقہ بدلنا ہو تو کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کو گالم گلوچ کر لیا اور اپنی دھاک بٹھائی۔

کیا زمانہ ہوا کرتا تھا لوگ دانش وروں کے زیرِ سایہ رہنے کے لیے اپنے گھوڑوں کی سُمیں گِھسا لیا کرتے، اپنی جُوتیاں  چٹختے پھرتے اور ان کا ملنا بذبانِ ذوق ان کے لیے ایسا ہی ہوتا کہ

‘بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے’

کیوں کہ ان کی صحبت روح کو انشراح بخشتی تھی، مگر فی زمانہ پروفیسروں اور دانش وروں کی ایسی بھرمار اور یُورش ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی، مگر حَیف کہ ایسے احباب صرف سوشل  میڈیا پر ہی دندناتے نظر آتے ہیں جن کے معتقدین بھی ان کی طرح چِٹے اَن پڑھ ہوتے ہیں۔

ہم انہیں خوامخواہ (جعلی) پروفیسر کا لقب دیتے ہیں۔ آج اگر کسی کُہنہ مشق استاد کو ان نا خلفوں کے کرتُوت آشکار ہو جائیں تو وہ یقیناً چِلّا اٹھیں۔

بے ہوش ہی اچھا تھا، ناحق مجھے ہوش آیا

اور اصالتاً یہ وہی صاحبان ہیں جو سارا دن  سوشل میڈیا پر انقلاب، انقلاب الاپتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب گھر میں پندار سے چِلا چِلا کر کہہ رہے تھے میرے پاس حکومت ہو تو میں قوم کی تقدیر بدل کے رکھ دوں گا ایسے میں ان کی اہلیہ لپکیں اور بولیں اجی پہلے شلوار تو بدل لیجیے، صبح سے میری پہن کر پھر رہے ہیں۔

ایک سعودی ادارے نے پاکستانیوں کے مزاج کے بارے میں ریسرچ کرنے کے لیے ایک عربی کو یہاں بھیجھا۔ موصوف یہاں کچھ عرصہ گلیوں میں خاک چھانتے رہے اور واپسی پر ایک کاغذ حُکّام کو جا تھمایا، جس پر صرف ایک لائن درج تھی ‘کُلٌ مُفتِیً کُلٌ حکیمٌ’

یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو تعلیم، صحت، قانون اور سیاست کے دقیق مسائل پر تو ایسے مدُلّل گفتگو کرتے ہیں جیسے یہ تمام ان کے آبا و اجداد کی افزائش کی وجہ سے معرضِ بحث آئے نا صرف یہ بَل کِہ یہ ایسے نا خلف ہیں کہ مذہب جیسے نازک اور باریک موضوع پر بھی طنطناتے ہوئے دو دو ہاتھ کر جاتے ہیں۔


مزید دیکھیے: ذہن سازی کی صنعت


اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اکثر گلیوں  سے دوپہر کے وقت میمنے اٹھاتے دَھر لیے جاتے ہیں وہ یہاں کوتوال اور وہ  جنہیں گھر والے اہم معاملے پر بات کرنے کے دوران کمرے سے نکال باہر کرتے ہیں وہ یہاں ماریو پیوزو بنے بیٹھے ہیوتے ہیں۔

ان نا بکاروں نے مار دھاڑ کا ایسا بازار گرم کیا ہوتا ہے کہ اِدھر سے جو پوسٹ اڑائی اُدھر جا لگائی اور بیٹھ گئے اوپر پردھان بن کر، جو ستم ظریف بھی یہاں سے گزرا اس کو دَھر لیا اور لگے بھاشن دینے اور بیخ کن ایسے کہ ادھر سے کسی پرائی پوسٹ میں جو گُھسے تو ایسی خرد گیری کی کہ اللّٰہ توبہ اور یہ علت و معلول کا سلسلہ ہے کہ برہم ہی نہیں ہونے دیتے اور اگر مک مکا کرتے بھی ہیں تو اس نیت سے کہ

صلح ہے اک مہلت سامان جنگ

کرتے ہیں بھرنے کو یاں خالی تفنگ

یاری دوستی میں ایسے اندھے ادھر کسی نمانے نے اپنی پروفائل پر تصویر چسپاں کی ادھر سے یہ لپکے اور اپنا قومی کامینٹ (nice) داغا اور چلتے بنے اور بادلِ نخواستہ اگر کچھ بڑھیا کھانا نصیب ہو جائے تو تب تک دَم نہ لیا جب تک کہ اس کی تمام زاویوں سے تصاویر بنا کر چار دانگ چرچا کر کے داد نہ وصولی۔ ان کی مِثل کراچی سی  ہی ہے کہ جہاں پانی کھڑکی سے تو نظر آتا ہے مگر نَل میں نہیں۔

لہٰذا مذکورہ بالا حضرات ذکاوت نامی شے سے ایسے ہی محروم ہوتے ہیں جیسے ہمارا ملک بجلی سے۔ چُناں چِہ آپ جہاں بھی ایسے اصیل کُکڑ بھڑتے دیکھیں تو چُپکے سے نکل لیں۔