مارشل لاء 2.0 کی تصویر کشی

Yasser Chttha

مارشل لاء 2.0 کی تصویر کشی

از، یاسر چٹھہ

ایمان کا جُزو تو ہمیشہ سے یہ تھا کہ یہ ہوا، پانی اور زمین و آسمان رب باری تعالٰی نے بنائے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ معلوم ہوا کہ ملک میں کچھ چنیدہ مخلوقِ خداوندی بھی یہ اِذن کب کا رکھتی ہے، یعنی کہ ہوا بنائی جاتی ہے۔ حالیہ قسط میں کب کی ہوا بنائی جا رہی تھی۔ لاہور میں 2011 کو ایک عظیمُ الشّان بل کہ  شجاعُ الشّان جلسہ ہونا اس ہوا کا با قاعدہ آغاز تھا؛ اس کے بعد یہ ہوائی فلم پورے سرکٹ میں ریلیز کر دی گئی۔

اب ہوا پورا جَھکّڑ بن گئی ہے۔ لاکھ مُنھ پر ہاتھ یا چادر رکھو، یہ موقع پا کر کانوں میں گُھس آتی ہے۔ بَل کہ یہی کہیے کہ یہ ہوا اب تو ہر سُو دندناتی پھرتی ہے۔ کبھی یہ طوائف کی اولاد کے گھر ڈُھونڈتی اور بتاتی پھرتی ہے، تو کبھی اس ہوا کے ہاتھوں، وہ انسان جو احسن تقویم پر خلق ہوئے گدھے بنا دیتی ہے۔

2011 سے اب تک کے  بیچ کے وقفے میں وہ ہوا کتنی بے قرار پِھرتی رہی، وہ دیکھنے واسطے ہم شاہراہِ دستور سے لے کر لاک ڈاؤن اسلام آباد میں حالات کے بھنور کے اندر پھینک دیے گئے تھے۔

اب ہوا پک کر تیار حالت میں کھڑی ہے۔ دیکھیے کب پھرتے ہیں دن پرانی پڑی شیر وانی کے۔ اس مستقبل کو حال ہونے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ ہم اس وقت سیاسی طور پر کہاں ہیں؟

ہم بغیر کسی شک و شبہ کے اس وقت مارشل لاء 2.0 جنریشن سے گزر رہے ہیں۔ اس کو بالکل سادہ لفظوں میں کچھ لوگ دو نمبر مارشل لاء بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس قسم کی سبیلِ سیاست میں منصفوں کو عوامی منطقے میں پی سی او کا حلف بھی نہیں لینا پڑا۔ (منظور تھی عزت تیری۔) بَل کہ ادارۂِ عدل کو طاقت میں ایک ٹکڑا slice بطور اَز خود نوٹسوں کے بے دریغ استعمال کی صورت دیا گیا ہے؛ بدلے میں وہ کچھ inconvenient معاملات پر بات نہیں کرتے، مثلاً لا پتا افراد وغیرہ۔ نیب کے چیئرمین صاحب بھی لا پتا افراد کے واچ ڈاگ ادارے کے اضافی ذمے دار کے طور پر پچھلے دنوں وہی بیانات دیتے ہوئے آن ریکارڈ ہیں جس میں ہماری ریاستی وضع و ثقافتی چلن کے عین مطابق victim blaming and bashing ہی تھی۔ اور ایسے بیانات ہی پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔

اس 2.0 جنریشن مارشل لاء میں عُضوِ معطل، صرف انتخابی totem کے ذریعے اپنے آپ کو حاصل جواز کے زُعم رکھنے والے ہی بنے ہیں۔ ان کا پھر سے اسی totem کے ذریعے کسی بلدیاتی حکومت کی طرح اور سطح پر بھی سب سے طاقت ور ادارے اور ان کے گٹھ جوڑ کو منظور نہیں تھا، پاکستانی اردگان ایک بہت ہی ڈراؤنا خواب تھا، اور ڈراؤنا ہے بھی۔

اس موجودہ صنف کے مارشل لاء میں پرانے مارشل لاؤں کی طرح اگلی کڑی کے طور پر صرف سویلین چہرے، civilian collaborators کی ضرورت رہ گئی تھی۔

وہ رسم ritual اب نئے انتخابات کے ذریعے دُہرائی جا رہی ہے۔ انتخابی بند و بست election management wing نے اتنی ہی تن دہی سے، اور عین انہیں طریقوں سے جو پہلے روا رہے ہیں، موجودہ وقت کی مسلم لیگ (عمران خان گروپ) کی ہمت افزائی کرتے رہے ہیں اور اب تو یہ پیر صاحبان پوری طرح گود ہَری کر بھی چکے ہیں۔ مثلاً فائل دکھاوا، نیب ڈراوا، عزیز و اقرباء کی ویڈیوز کا عذابِ آگہی وغیرہ۔

اس 2.0 جنریشن مارشل لاء میں وفا داری بدلنے والوں کے لیے البتہ ایک نسبتاً با عزت لسانی ترکیب ڈھونڈی اور چالو کی گئی جسے الیکٹیبلز کی euphemism کا سہارا ملا۔


مزید دیکھیے: مستقبل تو حال کی چیخ ہوتی ہے؛ ڈیئوس، علی اور دِیا کا ایک باب

پہلے مجھے بھی مارشل لاء بھلا لگتا تھا

پانچ جولائی1977 کا مارشل لاء کس کی ہٹ دھرمی کے باعث لگا؟


لیکن اپنے با شعور اور ہر گھاٹ کا پانی پی چکے دوست کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے سے نسبتاً بہتر صورتِ حال ہے۔ ایک مافیا سے نظریۂِ ضرورت کے تحت اداروں کو اپنے بیچ اسلامی جمہوری اتحاد بنانا پڑا۔ پروردگار نے بھی اس اتحاد میں کتنی برکت ڈالی ہوئی ہے۔

ایک اور چھوٹی سی جَست بھرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نئی وزارت صادق اور امینوں سے لبریز ایک اور نئے تعلق میں آنے کے لیے مائیوں بیٹھی ہے۔

اس وزارت کی وضع قطع کیسی ہو گی؟ کہنے دیجیے کہ یہ کسی بھی شوکت عزیز یا جمالی سے مختلف وزارت نہیں ہو گی۔ تو پھر اب اور کیا دیکھنا ہے؟

دیکھنا ہے کہ اب وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ کے بعد وزارتِ خزانہ اور سی پیک کا باقی ماندہ حصہ کتنے دنوں بعد وزارت دفاع جیسا گھگھرا پہنتا ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔