پانچ جولائی1977 کا مارشل لاء کس کی ہٹ دھرمی کے باعث لگا؟

Anwar Abbas Anwar, aik Rozan writer
انور عباس انور، صاحبِ مضمون

پانچ جولائی1977 کا مارشل لاء کس کی ہٹ دھرمی کے باعث لگا؟

(انور عباس انور)

پانچ جولائی 1977کو لگنے والے مارشل لاء کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو یا اس وقت کی اپوزیشن جنرل ضیا الحق اور ان کی رجیم کے ہاتھوں جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے ذمہ دار ہے؟

ہم ہر سال پانچ جولائی کو یوم سیاہ مناتے ہیں، آمر اور اس کے رفقائے کار (عسکری و سیاستدانوں کو) کو ستے ہیں، ان پر شدید تنقید کرتے ہیں، اور دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ اگر مارشل لاء نہ لگتا تو ملک آج کہیں کا کہیں ہوتا۔

پیپلز پارٹی والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جن مسائل سے آج وطن عزیز نبرد آزما ہے وہ سب پانچ جولائی 1977 کو مارے جانے والے شب خون کے ثمرات ہیں، مجھے یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو نے دوران اسیری عدالت میں پیشی کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کو درپیش مسائل اور چیلنجز کی چابی میرے کوٹ کی جیب میں ہے، وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لاء ختم کرکے عام انتخابات کا انعقاد ہی حل ہے۔

حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ اگر انتخابات فوری کروا دیے گئے تو پیپلز پارٹی جیت جائے گی، اور یہ جیت جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار کو پسند نہیں تھی۔

جنرل ضیاءالحق اور ان کے فیصلوں میں شریک افراد نے ایک پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو سے جان خلاصی کروانے کے لیے آئین کا تیا پانچہ کیا، اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی جیت کو ہار میں بدلنے کے لیے نسلی، مذہبی، مسلکی ،لسانی اور برادری ازم کو پروان چڑھایا گیا، سرکاری سطح پر ان کی سرپرستی کی گئی، پنجابی پختون اتحاد، ایم کیو ایم اس کی واضح مچالیں ہیں۔

جب ایسا کرنے سے بھی مطلوبہ نتائج کے حصول میں رکاوٹیں دکھائی دیں تو 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا، اس میں بھی جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں کو کامیابی نہ ہوئی ،جس کا ثبوت یہ ہے کہ غیر جماعتی اسمبلی نے مسلم لیگ جونیجو کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت حکومتیں قائم ہوئیں۔

جنرل ضیاءالحق، ذوالفقار علی بھٹو کو جسمانی طور پر عوام سے جدا کرنے کے علاوہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، اس نے دعوی کیا تھا نظام اسلام کے نفاذ کا، منصفانہ نظام حکومت و عدل لانے کا، ملک سے رشوت، سفارش، بد عنوانی اور برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور پاکستان کو مثالی ریاست بنانے کے تمام دعوؤں میں ناکامی ان کا مقدر ٹھہری، نہ اسلامی نظام کا نفاذ ہوا، نہ رشوت ، بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہوا اور نہ ہی ملک ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہوا۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق پانچ جولائی 1977سے 17 اگست 1988 کی صبح تک کیے جانے والے اپنے دعوؤں میں کلی طور پر ناکامی سے دوچار ہوئے۔

جنرل ضیا الحق نے تین تحفے پاکستانی قوم کو ضرور دیے جن میں ہیروئین کا نشہ اور دوسرا کلاشنکوف کا کلچراور تیسرا تحفہ افغان مہاجرین جنہوں نے آگے بڑھ کر طالبان کی شکل اختیار کی، اور ملک دہشت گردی کے حصار میں چلا گیا اور آج تک دہشت گردی سے پاکستان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے؛ اس جنگ میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں پاکستانی ضرور شہادت کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں اور اتنے ہی زخمی ہوکر روزانہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں۔ ابھی ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ دعوی کریں کہ کب تک پاکستان دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہوجائےگا۔

پانچ جولائی کا مارشل لاء غیر ضروری نافذ کیا گیا، کیونکہ اپوزیشن اور بھٹو حکومت ایک سمجھوتے پر پہنچ چکے تھے، یہ نوابزادہ نصراللہ خاں اور پروفیصر غفور احمد کے اپنے الفاظ ہیں، محض اپوزیشن نے اس سمجھوتے پر اپنی کونسل کو اعتماد میں لینا تھا، جہاں ایئر مارشل اصغر خان نے منتفق ہونے سے انکار کیا، قومی اتحاد کے خود رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ ایئر مارشل اصغر خان نے پس پردہ قوتوں کے اشاروں پر معاہدے کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی جس سے جنرل ضیا الحق کو مارشل لاء لگانے کا وقت مل گیا۔ گویا پانچ جولائی 1977 کا مارشل لاء اکیلے ایئر مارشل اصغر خان کی ہٹ دھرمی کے باعث لگا اور اسکی زمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔

جنرل ضیا کے بعد بھی ہم جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی منصوبہ بندی کرنے سے باز نہیں آ رہے، سابق زرداری دور میں میمو گیٹ کیس بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا، جس میں میاں نواز شریف استعمال ہوئے، اور اب بھی کئی سیاستدان میدان سیاست میں موجود ہیں جن کے اندر مارشل لاء جلد سے جلد لگنے کی تمنائیں موجود ہیں، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر دور میں آمروں کو بیساکھیاں (سیاستدان) دستیاب ہوتے آئے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے، شاہ محمود قریشی، عمران خاں ،بابر اعوان، گجرات کے چودہری برادران سرفہرست ہیں۔

سیاستدان ہوں یا فوج کے سابق افسران حتی کہ حاضر سرووس جرنیل بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مارشل لا مسائل کا حل نہیں ، اور پاکستان کو درپیش مسدائل اور چیلنجز سے نبٹنے کی ہمت ،طاقت صرف اور صرف جمہوریت میں پوشیدہ ہے،لیکن جب بھی کوئی جنرل مارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کرتا ہے یا خواہش کاا ظہار کرتا ہے یا پھر اتنا ہی بیان دیتا ہے کہ سیاسی حکومت اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا نہیں کر رہی تو مارشل لاء لگنے کے حامی میدان میں کود پڑتے ہیں اور جنرل صاحب کی حمایت و تائید میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے موو آن پاکستان کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد لاہور ،کراچی سمیت دیگر شہروں میں بینرز لگے دکھائی دیے کہ’’ کب آؤ گے جنرل راحیل شریف‘‘ قوم آپ کی منتظر ہے‘‘ قدم بڑھاؤ راحیل شریف قوم تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
آج مارشل لاء لگانے والے جنرلوں کے خانوادوں کو دیکھو تو وہ سیاسی یتیم دکھائے دیتے ہیں، اور ریٹائرڈ جنرلوں کی بھی

سیاسی جماعتوں حتی کہ مسلم لیگ نواز میں بھی ان کی ایک لمبی قطار ’’نواز شریف زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتی دکھائی دیتی ہے، ہاں پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت ہے جس مین جنرلوں کا قحط ہے۔

پانامہ کیس سے بھی ایسی ہی امیدیں لگائی گئیں ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملک میں افرا تفری کا عالم ہوگا اور ۔۔۔اور ۔۔۔ جو کچھ بھی ہوگا اس کے نتیجے میں فوجی حکومت برسراقتدار آئے گی، اللہ نہ کرے ایسا سوچنے والوں کے منہ میں خاک ۔۔۔ پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو اس کے لیے جمہوریت ضروری ہے کیونکہ جمہوریت کے بغیر یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا، اور مارشل لاء تو خود ایک بیماری لا علاج ہے۔ پاکستانیوں ہوشیار اور خبردار رہنا ایسے عناصر سے جو جمہوریت کی بساط لپیٹنے والوں کی پشت پر کھڑے ہوں ۔