شخصیت نگاری ، صرف عیب جُوئی یا توصیف نگاری نہیں ہوتی

Kishwar Naheed aik Rozan
کشور ناھید، لکھاری

شخصیت نگاری ، صرف عیب جُوئی یا توصیف نگاری نہیں ہوتی: فسادِ خلق والی تحریریں

کشور ناہید

شُکر ہے جس زمانے میں میری شادی ہوئی اس زمانے میں غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوتے تھے۔ یہ ہے آج سے 57 برس پہلے کا زمانہ، وجہ نفاق کیا تھی۔ یوسف کشمیری اور ہمارا خاندان سید تھا۔ دونوں خاندانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟

اگر آپ کو جاننے کی ضرورت ہے جو کہ یقیناً نہیں ہوگی۔ وہ آپ یونس جاوید کے لکھے ہوئے مضمون کو پڑھ لیں جو کراچی کے ایک ماہنامے میں شائع ہوا ہے۔ دراصل چٹخارے والے مضامین لکھنے کا شوق یونس جاوید کو اس زمانے سے ہوا تھا۔ جبکہ انہیں احمد بشیر کی کتاب ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘ مرتب کرنے اور بالخصوص میری کتاب پر نہیں، انہوں نے میری ذات پرمضمون لکھا تھا۔ اس وقت میری عمر 30 برس تھی۔ لوگوں کو میری قیمت پر چٹپٹا مصالحہ مل گیا تھا۔

اس مضمون کا ذائقہ، وِگ لگانے کے باوجود، یونس جاوید کے بھیجے میں پھنسا رہ گیا۔ اب چونکہ اس عمر میں کہانیاں لکھی نہیں جاسکتیں تو لوگ مر گئے ہیں۔ ان کے بارے میں اپنی دوستی کی چاشنی لگا کر جو چاہو لکھو۔ ’’رضیہ تو غنڈوں میں پہلے ہی پھنسی ہوئی ہے‘‘۔ اس عمر میں چاہے 32برس پہلے یوسف کامران کی وفات کو لے کر یا پھر امانت علی خاں سے زبردستی اپنے تعلق کو فسانہ بنا کر، کچھ بھی لکھ ڈالو۔ کون ہے جو سند مانگے گا۔ ویسے بھی ہماری ساری تاریخ جھوٹ پر مبنی ہے۔

ذاتی اور شخصیاتی مضامین لکھنے کا، پہلے صرف ان لوگوں کا دعویٰ ہوتا تھا جو ان کے ساتھ خوب بیٹھے اٹھے تھے۔ اب تو لوگ یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ فیض صاحب مجھے اپنا کلام ضد کرکے سناتے تھے۔ یا پھر صادقین نے میرا پورٹریٹ بنانا چاہا۔ مگر میں نے منع کردیا۔ یا پھر احمد فراز کے عشق کے قصوں کا میں خود گواہ ہوں۔ علی ہذ القیاس!

شخصیت نگاری، صرف عیب جُوئی یا توصیف نگاری نہیں ہوتی۔ اس کی اوّل شرط تو یہ ہے کہ ہر چند یونس جاوید نے اپنا نیا ناول بھی میرے نام معنون کیا تھا۔ پھر بھی میں یا یوسف کبھی ان کے دائرہ شام یا دوستی میں شامل نہیں رہے۔ اس لیے مجھے کبھی ترکاری کاٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر ذاتی شناسائی نہ ہو تو علمی شناسائی ہو، تو آغا ناصر کی طرح فیض صاحب کی نظموں کا سیاق، اس خوبصورتی سے لکھا ہےکہ جیسے چغتائی صاحب نے غالب کے اشعار پر منطبق ایسی مصوری کی ہے کہ شعروں کا مطلب اور بھی زیادہ سمجھ میں آجاتا ہے۔

ابھی تک کسی نے کسی بھی ادیب یا شاعر کی ذاتی زندگی کو اس لیے نہیں کھنگالا کہ اس کے ہر جوڑ میں ہر گھر میں ستر سے بہتر چھید نظر آتے ہیں۔ میرے بارے میں لکھنے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ میں خود لکھ چکی ہوں یہ بتانے کو کہ ہر گھرانے میں پہلا قدم اٹھانے والی خاص کر خاتون تو کیا مرد پر بھی داستان طرازیاں کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد یہ طوفان تھم جاتا ہے بالکل معمول کا قصہ بن جاتا ہے۔

شخصیت نگاری، تحقیق کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی تو حالی کا حوالہ یا شبلی کا حوالہ، تحقیق میں حرفِ آخر نہیں سمجھے جاتے۔ ویسے تو نورجہاں کے حوالے سے شوکت رضوی نے ایک گھوسٹ رائٹر کے توسط سے ایک کتاب شائع کروائی تھی۔ بعد میں شرمندہ ہوکر، وہ کتاب مارکیٹ سے غائب کروا دی۔

لوگ مجھ سے توقع کرتے ہیں کہ میں امرتا پریتم کی طرح کیوں نہیں لکھتی یا کملا داس کے انداز میں بیڈ روم اسٹوریز نہیں لکھتی۔ کملاداس تو اپنی تحریروں سے ایسی تائب ہوئیں کہ مسلمان ہوگئیں اور برقع بھی اوڑھ لیا۔ امرتا پریتم کی ایک کتاب رسیدی ٹکٹ کی سطح کی کوئی چھ کتابیں، امرتا پرتیم کے نام سے شائع کی جاچکی ہیں۔ لوگ چسکا لے کر خریدتے اورپڑھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خالدہ حسین جو سنجیدہ لکھنے والی ہیں۔ ان کی کتاب لوگ خریدتے ہی نہیں۔ یہ فیشن مغرب میں بھی ہے۔

وہ خاتون جو پیرس میں ادیبوں کے ساتھ رہنے کے قصے لکھتی تھی وہ بہت مقبول تھی جبکہ فیض صاحب سے متعلق سرفراز اقبال کی کتابوں کو پہلے لوگوں نے مزا لینے کے لیے پڑھا۔ جب دیکھا کہ فیض صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ہمارے کپڑے یقیناً دُھل گئے ہوں گے۔ بچوں کے رزلٹ اچھے آئے ہوں گے‘‘۔ تو کتاب پڑھ کر مُنھ بسورنے لگے۔

میں بھلا اپنے قبیلے کے بارے میں کیوں خامہ فرسائی کررہی ہوں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو شخص بھی رسالہ نکالے، پہلے وہ شامل اشاعت، چیزوں کے بارے میں تحقیق کر لے۔ یہ نہیں کہ گھر پھونک تماشہ دیکھنے والے منظر کوئی لکھ دے، سوال کیا جائے تو کہہ دیا جائے کہ ہم نے شائع کردیا۔ آپ اس کا جواب دے دیں۔

پچھلے کئی سالوں سے لوگ اخباروں میں جو خاص اسی لیے نکالے جاتے ہیں کہ اسکینڈل خوب چھاپتے ہیں۔ جہاں تہذیب جیسے الفاظ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جمعہ کا ایک انگریزی اخبارسب سے مقبول ہفتہ روزہ اس لیے کہ سیاست دانوں کے بارے میں خبریں، اشاروں میں بیان کی جاتی ہیں۔

ہمارے اپنے بزرگ مشتاق یوسفی، کسی کا خاکہ لکھتے ہوئے، شائستگی کا دامن اس لیے نہیں چھوڑتے کہ وہ لوگوں کا پھلکا نہیں اڑاتے بلکہ ان کا بیانیہ، اتنا پُرلطف ہوتا ہےکہ اشاروں اشاروں میں چٹکی بھی لے لیتے ہیں اور جس کو جو خبر پہچانی ہو اس کو بھی پتہ چل جاتا ہے۔ ساقی فاروقی لوگوں کا فقروں میں حساب برابر کردیتے ہیں۔

مجھے اس وقت بہت سے وِگ لگانے والے یاد آرہے ہیں۔ اس میں سیاست دان بھی شامل ہیں جو صاف کہتے بھی نہیں اور ذکر اس پر پوش کا عنوان دے کر، غیرت کے نام پر قتل ہونے والی کہانی لکھ دیں یا پھر یہ کہہ کر ٹال دیں کہ فسادِ خلق کا خدشہ ہے!