aik Rozan ایک روزن

aik Rozan ایک روزن

a post-humanist visage of an evolving society

  • مرکزی صفحہ
  • اداریہ
  • ترجمے زبان و ادب دیگراں
  • مطالعۂِ خاص و فکر افروز
  • مصنف اور تصنیف و تالیف: روزن تبصرۂِ کتب
  • خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے
  • ماحولیات، پائیدار مستقبل اور تعلیم و ترقیات
  • جمالِ ادب و شہرِ فنون
  • رابطہ
    • ہمارے بارے میں
      • ہمارےلیے لکھنے کا طریقہ
  • Roman Script Languages: English Parlour
7th March 2021

آبادی کا بم اور بے دل سیاست و ریاست

10th September 2017 امتیاز عالم مطالعۂ خاص و فکر افروز Comments Off on آبادی کا بم اور بے دل سیاست و ریاست
imtiaz Alam aik Rozan writer
امتیاز عالم، صاحبِ مضمون

آبادی کا بم اور بے دل سیاست و ریاست

امتیاز عالم

لیجیے ایک اور بم دھماکہ چھٹی مردم شماری نے ظاہر کر دیا۔ جی ہاں! یہ بم دھماکہ سب سے مہلک ہے: زمین کے لیے، قدرتی ذرائع کے لیے، ملکی خوشحالی کے لیے، وطن کی سلامتی کے لیے اور سب سے بڑھ کر انسانوں کی بھلائی کے لیے۔ اور یہ ہے آبادی کا دھماکہ۔ 19 برس میں ہم تیرہ کروڑ سے تقریباً 21 کروڑ (20 کروڑ 78 لاکھ) ہو گئے ہیں۔ پہلے ہی کیا ہماری بھاری اکثریت کے لیے زندگی کرنے کا عذاب کیا کم تھا کہ اب مزید آٹھ کروڑ لوگوں کا بوجھ آن پڑا ہے۔ البتہ لڑکیوں کی پیدائش کو عذاب سمجھنے والے حضرات کی دُختر کُشی یا پھر پدر شاہی نظام میں عورتوں سے کی جانے والی زیادتیوں کے باعث اب عورتوں کی تعداد کم ہو چلی ہے۔

اکثر بچیوں کا قتل شکمِ مادر میں ہی کر دیا جاتا ہے۔ اب اگر 105 مرد ہیں تو عورتیں فقط 100۔ ایک طرف بچیوں کی پیدائش پہ نوحہ خواں اور دوسری جانب کثیر الزوجی پہ اصرار۔ کوئی ہے جو اس منافقت کو فاش کرے؟ پہلے ہی پاکستان کے پاس قدرتی وسیلے محدود ہیں اور علاقہ بھی متعین۔ آخر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو ان حشرات الارض کا کیا ہوگا۔ فقط اللہ پر چھوڑنے سے مملکت اور حکومتوں کی آبادی اور خاندان کی منصوبہ بندی سے مجرمانہ غفلت پہ پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

بچے زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے کی جہالت میں کیا ہم بھول گئے ہیں کہ اِس مملکت خداداد میں دو تہائی سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے اُوپر نیچے ہیں۔ 84 فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی ناخواندہ اور تقریباً 99 فیصد جاہل ہیں۔ 44 فیصد بچے ذہنی و جسمانی طور پر لاغر ہیں، 55 فیصد بچے غیرصحت مند ہیں اور بیروزگاروں، بیکاروں، لاغروں، جاہلوں، کنگالوں اور غریبوں کا ایک جمِ غفیر ہے جو ہم سے زندگی کی بنیادی سہولتوں، صحت و تعلیم، پانی، ایندھن، مناسب خوراک، اچھا ماحول اور چھوٹی موٹی خوشیوں کا تقاضا کر رہا ہے۔

لیکن اُن کی آہ و بُکا سننے والا کوئی نہیں، نہ جمہوریت پسند، نہ آمریت پسند، نہ سرکار، نہ عدالتیں، نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نہ سلامتی کے محافظ۔ ایک طرف امیروں کی عالیشان نجی اور ڈیفنس کی بستیاں ہیں جہاں جدید زمانے کی ہر سہولت اور آسائش موجود ہے اور دوسری طرف کروڑوں گھروندے ہیں جہاں غلاظت ہے، تاریکی ہے، بھوک و افلاس ہے، جہالت ہے، بیماری ہے، آہیں ہیں اور اُمید کی کوئی کرن بھی نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اور ہم کب تک اپنے مقدروں کو کوستے رہیں گے؟

اگر کسی بستی میں آبادی کی انسانی سلامتی و خوشحالی نہیں تو وہ بستی کیسے آباد رہ سکتی ہے؟ اس کی نہ حکمران جماعتوں کو فکر ہے، نہ مقتدر اداروں کو۔ امرا کی ترقی اور ریاستی طاقت کے فروغ کے پاکستان کے سیاسی و معاشی ترقی کے ماڈل میں عوام الناس کی کوئی گنجائش ہے نہ کوئی مواقع۔ استحصالی اشرافیہ اور مقتدر اداروں کو بس اگر فکر ہے تو اپنی، بھاڑ میں جائے عوام کی سلامتی۔ اگر ترقی و معاشی نمو کا تصور ہے تو بس اتنا کہ امیر امیر تر ہوتے جائیں اور سول و ملٹری بیوروکریسی اَور بھاری بھر کم ہوتی جائے۔

اوّل تو امیر لوگ ٹیکس دینے کو تیار نہیں (آدھی سے زیادہ کارپوریٹ کمپنیاں ٹیکس ریٹرنز ہی جمع نہیں کراتیں، تاجر دمڑی دینے کو تیار نہیں اور زمیندار اشرافیہ کو ٹیکس معاف ہے) اور جو ریونیو اکٹھا بھی ہوتا ہے تو وہ یا تو بے ثمر قرضوں کی نذر ہو جاتا ہے، یا پھر فوجی سلامتی پر اور مانگے تانگے کے پیسوں سے کار سرکار کا دھندہ چلایا جاتا ہے۔ جو نام نہاد ترقیاتی بجٹ ہوتا ہے، اس کا بڑا حصہ بھی امرا کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ سرمائے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز اس بنیاد پر ہے کہ عوام کی عظیم اکثریت اسے پیدا کرنے کے باوجود اس سے محروم رکھی جائے۔

ہماری ترقی کا ماڈل بس دو بڑے مراکز تک محدود ہے اور وہ ہیں کراچی اور وسطی پنجاب۔ بھلا ایسے استحصالی نظام میں لوگ جئیں تو کیسے؟ نہ محنت کا صلہ اور نہ کسی کام کا گزارہ۔ زور اس بات پر ہے کہ ہم پانچویں بڑی نیوکلیئر اور فوجی طاقت ہیں جو ہر ہمسائے سے دست و گریباں ہے اور یہ بھلاتے ہوئے کہ ہم ایک مفلوک الحال قوم ہیں۔ ہم سلامتی کی جنگجو ریاست تو ضرور ہیں، لیکن اس میں عوام کی سلامتی اور بھلائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر بھلا کوئی آبادی کی منصوبہ بندی کیا خاک کرے اور خاندانی منصوبہ بندی تو ویسے ہی حرام قرار دی گئی ہے۔

کیا المیہ ہے کہ آبادی کا بم پھٹ پڑا ہے اور کسی پارٹی، کسی میڈیا، کسی عالم، کسی جج اور کسی جرنیل کو مجال ہے کہ فکر لاحق ہوئی ہو۔ اگر کوئی مباحثہ شروع بھی ہوا ہے تو وہ اس پر کہ ہماری آبادی کیوں نہیں بڑھی اور یہ بھولتے ہوئے کہ جو پہلے سے موجود ہیں اُن کے تن پر آپ نے کوئی کپڑا یا اُن کا کوئی نوالہ آپ نے چھوڑا ہے۔ مختلف قومیتوں اور لسانی گروہوں کے نمائندہ حضرات کو فکر ہے تو قابلِ تقسیم ٹیکسوں میں اپنی آبادی کی بنیاد پر اپنا حصہ بڑھانے کی۔ بھلا کسی کے جائز حصے پر کوئی کیوں اعتراض کرے گا، لیکن اس کے لیے آبادی کے بم کی تباہ کاری کی شرح میں اضافے کا مدعا مضحکہ خیز نہیں تو کیا ہے؟

میرے دوست سندھی قوم پرست اور پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو نے ’’سندھ کے خلاف سازش‘‘ کو خوب بھانپا ہے، اس کے باوجود کہ سندھ کی آبادی میں اضافہ قومی شرح سے تھوڑا زیادہ ہی ہے۔ (2.41 فیصد) اور سندھیوں کا پاکستان کی کل آبادی میں تناسب (23 فیصد) اتنا ہی ہے جتنا 1998ء میں تھا۔ اُن کے ساتھ دُہائی میں اگر شامل ہوئے بھی ہیں تو ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار لیکن سندھی مخالف بنیاد پر کہ شہری آبادی، خاص طور پر کراچی کی آبادی، جتنی زیادہ بڑھنی چاہیے تھی بڑھی نہیں۔ حالانکہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کی اکثریت (52 فیصد) اب شہروں میں رہتی ہے۔ لیکن ہمارے مہاجر خلوت پسند شاید بھول بیٹھے ہیں کہ اب سندھی شہروں میں اُردو بولنے والے مہاجروں کی اکثریت نہیں رہی۔

جتنی کراچی کی آبادی بڑھے گی، اُتنی ہی مہاجروں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی جائے گی۔ اُن کی حمایت میں اگر اُترے بھی ہیں تو ہمارے کراچی کے سماجیاتی دانشور جنہوں نے شہری علاقے کی انتظامی تعریف کا معاملہ اُٹھا کر کراچی کی آبادی میں کم اضافے کا رونا رویا ہے۔ رونا تو انہیں اس پہ چاہیے کہ گزشتہ بیس تیس سالوں میں کراچی کا جو حشر لسانی دہشت گردوں اور بعد ازاں فرقہ پرست دہشت گردوں نے کیا تو کراچی کی جانب انخلا کی بجائے۔ اُلٹا لوگ کراچی سے بھاگنے کے رستے تلاش کرنے لگے۔ پھر بھی کراچی کی آبادی میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ اس میں منگھوپیر اور مغربی کراچی شامل نہیں ہیں۔

فاٹا کے لُٹے پٹے لوگوں کا سوال اپنی جگہ، لیکن آبادی کے بم سے سب سے زیادہ فیضیاب ہمارے خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے ہوئے ہیں۔ اس فیضیابی میں فاٹا سے لوگوں کا شہروں کی جانب انخلااور افغان مہاجرین کی بڑی بڑی تعداد کا مردم شماری سے فیض پانا ہے۔ خیبرپختون خواکی آبادی ہماری دُعاؤں کے طفیل 2.89 فیصد کی سالانہ رفتار سے بڑھی ہے، جبکہ کوئٹہ ڈویژن کی آبادی تقریباً تگنی ہو گئی ہے۔ (سترہ لاکھ بیس ہزار سے بیالیس لاکھ)۔ یوں پختونوں کو نیشنل فنانس کمیشن سے آبادی کی بنیاد پر مالی وسائل بھی زیادہ ملیں گے اور قومی اسمبلی میں پانچ چھ نشستیں اور مل جائیں گی۔

اگر کوئی آبادی کے تناسب میں اپنے ہی صوبے میں پیچھے رہ گیا ہے تو وہ غریب بلوچ ہیں۔ ژوب اور نصیر آباد میں یہ کمی 2.1 فیصد، قلات اور سبی میں 1.6 فیصد اور مکران میں 0.6 فیصد ہے۔ بلوچ قوم پرست رہنماؤں نے پہلے ہی جائز اعتراض کیا تھا کہ افغان مہاجر مردم شماری میں شامل کر لیے جائیں گے اور غالباً ایسا ہی ہوا ہے۔ اس سے بلوچوں میں پختونوں سے علیحدہ صوبے کی آس بڑھے گی۔ لیکن شاید پہلی بار پنجاب اچھے گھاٹے میں رہا ہے اور اس کی آبادی میں بڑھوتری کی شرح قومی اضافے کی شرح سے کم رہی ہے (2.13 فیصد)۔ اس طرح کل آبادی میں پنجاب کا تناسب 55.6 فیصد سے کم ہو کر 52.9 فیصد رہ گیا ہے۔

اسی تناسب سے پنجاب کا مالی حصہ کم ہوگا اور پانچ یا چھ قومی اسمبلی کی نشستیں بھی کم ہو جائیں گی۔ لیکن آبادی کا ایک بڑا ہجوم لاہور (اکیاون لاکھ سے ایک کروڑ گیارہ لاکھ) اور اس کے اردگرد کے اضلاع گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد، سیالکوٹ اور اوکاڑہ میں جمع ہو گیا ہے۔ یوں وسطی پنجاب سیاست اور معیشت کا موثر ترین مرکز بن گیا ہے۔

ظاہر ہے سرائیکی وسیب میں اس پر ردّعمل آئے گا جو ترقی میں عدم شمولیت اور تختِ لاہور کے استحصال کا شاقی ہے۔ گو کہ ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خاں اور سرگودھا کی آبادی اب پنجاب کی آبادی کا 46.71 فیصد ہے، اس کی محرومی و پسماندگی پر سرائیکیوں کا غصہ وسطی پنجاب کی چمک دمک کے باعث کچھ زیادہ ہی بڑھتا نظر آتا ہے۔ نتیجتاً سرائیکی صوبے کی تحریک چلانے کے لیے لوگ بیتاب بیٹھے ہیں۔

طبقاتی محرومیوں کے ساتھ ساتھ یقیناً بہت وسیع علاقائی نابرابریاں بھی ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔ لیکن محروم علاقوں کے وڈیرے اور سردار کونسا اپنے علاقوں کو اپنی غلامی سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ تو بس اپنے حصے کے لیے سرگرداں ہیں اور اُن کے ہاری، اُن کی رعایا اُن کی غلامی کا بھاڑ جھونکتی ہے۔ آبادی کے بم پر قابو پانا ہر جگہ ضروری ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ آبادی کی خوشحالی، روزگار، صحت و تعلیم اور خوشی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نوجوانوں اور غریبوں کا جمِ غفیر بپھر کر ایسے استحصالی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے جس میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ لیکن کیا ریاست و سیاست و معیشت بدلنے کو تیار ہے؟ افسوس کہ آبادی کے بم سے نپٹنے کو سیاست و ریاست کے پاس دل نہیں!

بشکریہ: روزنامہ جنگ

  • Census 2017
  • Census in Pakistan
  • Fertility Rate Pakistan
  • NFC Share
  • Pakistan Census 2017
  • Population Explosion
  • انتخاب
Dr Shah Muhammed MarriPrevious

یہ بورژوا سیاست ، یہ اتنی مہمل سیاست

بے نظیر بھٹو شہیدNext

بے نظیر بھٹو : خوں جو رائیگاں گیا

Related Articles

ترجمے زبان و ادبِ دیگراں

موسمیاتی تغیرات پر فکشن نگاروں نے ہونٹ کیوں سی لئے ہیں؟

14th November 2016 یاسرچٹھہ ترجمے زبان و ادبِ دیگراں 2

موسمیاتی تغیرات پر فکشن نگاروں نے ہونٹ کیوں سی لیے ہیں؟ (انتخاب و ترجمہ: یاسر چٹھہ) تعارفی نوٹ: امیتاو گھوش (Amitav Ghosh) بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ بھارت  میں پیدا ہوئے یہ ان صاحب […]

Dr Shah Muhammed Marri
ترجمے زبان و ادبِ دیگراں

ایک ہی سیاسی پارٹی

12th October 2017 ڈاکٹر شاہ محمد مری ترجمے زبان و ادبِ دیگراں Comments Off on ایک ہی سیاسی پارٹی

ایک ہی سیاسی پارٹی ڈاکٹر شاہ محمد مری ٹی وی چینلوں کی طرف سے نواز شریف اور اداروں کے بیچ شکر رنجی کے بارے میں مغز خوری کی حد تک غلغلہ کیا گیا۔ اور اینکر […]

ایک روزن لکھاری
ترجمے زبان و ادبِ دیگراں

گلف ریاستوں میں نفاق : اسلامی اتحاد میں پہلی دراڑ

5th June 2017 نعیم بیگ ترجمے زبان و ادبِ دیگراں Comments Off on گلف ریاستوں میں نفاق : اسلامی اتحاد میں پہلی دراڑ

گلف ریاستوں میں نفاق : اسلامی اتحاد میں پہلی دراڑ (نعیم بیگ) چھ ممالک پر مشتمل گلف ریاستوں نے ۱۹۸۱ء میں گلف کوآپریشن کونسل کے اتحاد کو دوام بخشا تھا۔ اس میں سعودی عرب ، […]

تازہ ترین مضامین

  • Yasser Chattha
    جمالِ ادب و شہرِ فنون

    ارے اے ٹی ایم تیری تیرا دماغ، تیری بد تہذیبی

    اے ٹی ایم مشین کی یہی آواز، اُس وقت بھی آتی تھی جب دادی کے چرخا کاتنے کے وقت پاس بیٹھتا تھا۔ (دادی کے لفظ کو جُوں ہی دادی لکھا ہے تو یاد میں کسی طور پر وقت اتنی […]

  • ایک ٹیچر
    خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے

    معلم کا رویہ

    جیسے کہانی، ناول داخلی رغبت میں ممد و معاون ہیں اسی طرح طلباء کو ان کے سوالات بارے ٹھوس مدلل انداز میں جواب دینا ان کو اپنے جوابات تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے جس […]

  • Waris Raza
    خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے

    پیراشوٹر کی شکست

    ہماری تعلیم کے دوران اکثر اساتذہ کرام سمجھایا کرتے تھے کہ over smartness یا ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی آپ کی ناکامی کا سبب ہوتا ہے، ایسی ہی صورت حال موجودہ سینیٹ […]

  • Waris Raza
    خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے

    وسیب اور ملبار کا سنگم

    میں اکثر ان سے چند ان دوستوں کی حمایت پر الجھ جایا کرتا جو غیر نظریاتی اور ترقی پسندی کے نام پر دھوکا تھے، مگر شکور ہمیشہ کہتے کہ کامریڈ اس تنگ نظر سوچ کے سامنے […]

  • Naseer Ahmed
    جمالِ ادب و شہرِ فنون

    رانجھے کا جوگ بیراگ اور شہری اخلاقیات قسطِ دوم

    سہتی کی یہ مدافعت نا تواں سی ہی رہتی ہے اور منصوبہ تیار ہو جاتا ہے۔ ہیر کھیت میں سانپ کے ڈسنے کا ناٹک کرتی ہے۔ جوگی جی سانپ کے زہر کے تِریاق کے بہانے کھیڑوں کے […]

  • Asim Butt Urdu Novel Bhed
    مصنف اور تصنیف و تالیف: روزنِ تبصرۂِ کُتب

    ناول بھید کا ایک ادبی تأثّر 

    بھید میں پر لطف موڑ یہ آیا کہ جو مُسوّدہ اکاؤنٹنٹ کو بس کی سیٹ کے نیچے پڑا ہوا بس کنڈیکٹر نے تھمایا تھا، وہ اس کے خالق کی تلاش میں کہانیوں کے اندر اترتا رہا۔ […]

  • Naseer Ahmed
    مطالعۂ خاص و فکر افروز

    استاد کب چِلّہ کَشی کے فضائل تعلیم کرنے لگتے ہیں؟ 

    جنھوں نے گدا گری سے ملتی جلتی یہ کاملیّت پرست آمریت چنی تھی، وہ احمق تو سادھو سَنّت اور اولیائے کرام جانے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں تو گفتگو ہی نہیں کی جا سکتی، […]

  • حسین جاوید افروز
    خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے

    پاکستان کرکٹ زوال پذیر کیوں؟

    مگر اب کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں قومی ٹیم چھٹی، ساتویں اور آٹھویں پوزیشن پر جا چکی ہے۔ جی ہاں گرین شرٹس کی کا حال ہی میں کیا گیا دورہ نیوزی لینڈ اپنی جگہ نا کام […]

  • Zaigham Raza
    جمالِ ادب و شہرِ فنون

    خواب نامہ۴

    بس اتنا یاد ہے کہ ہم اس کے گھر میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ تنگ سیڑھیوں پہ چڑھتے چڑھتے ہماری سانس پھول گئی، مگر زینے تھے کہ ختم ہونے میں ہی نہ آ ر […]

  • Waris Raza
    خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے

    در بَہ در خاک بَہ سر عوام اور سیاست

    حکم ران طاقت ور طبقات اپنے دفاع اور پُر آسائش زندگی کے لیے ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے من پسند چاپلوس افراد کو خزانے پر بوجھ ڈال نوکریاں بانٹ […]

عنوانات
  • اداریہ
  • خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے
  • جمالِ ادب و شہرِ فنون
  • ترجمے زبان و ادبِ دیگراں
  • مطالعۂ خاص و فکر افروز
  • مصنف اور تصنیف و تالیف: روزنِ تبصرۂِ کُتب
  • ماحولیات، پائیدار مستقبل اور تعلیم و ترقیات
  • Roman Script Languages: English Parlour
aik Rozan on Facebook
رابطہ
  • ایک روزن کی ٹیم
  • ایک روزن پہ کیسے لکھا جائے
ادارتی نوٹ
  1. پوسٹ میں شائع کی گئی رائے مصنف کی ہے اور ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا قطعی ضروری بھی نہیں ہے۔ کاپی رائٹ “ایک روزن” ڈاٹ کام ہے۔
  2. بلا اجازت آرٹیکل نقل کر کے شائع کرنا کاپی رائٹ قوانین کے تحت ایک جرم ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ ایک اخلاقی جرم ہے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات قانونی پابندیوں سے بہ قدرے زیادہ مؤثر و توانا ہونا اچھے اور دیانت دار معاشروں کا اہم اشاریہ ہوتے ہیں۔
  3. البتہ “ایک روزن” ایک نان کمرشل ادارہ  ہونے کی وجہ سے آرٹیکلز نقل کرنے کی مشروط اجازت دیتا ہے کہ آپ اس کا مناسب حوالہ اور ساتھ لنک دیجیے۔

حوالہ اور لنک دے کر شائع کیا جا سکتا ہے۔