راجہ رام موہن رائے، شخصیت اور خدمات  

راجہ رام موہن رائے

راجہ رام موہن رائے، شخصیت اور خدمات

از، جواد احمد

راجہ رام موہن رائے (1774 تا 1833) ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں بر صغیر کے ایک بہت بڑے مصلح ِ قوم،  عربی  و  فارسی کے عالم  اور   مغربی تمدن کے پاس دار تھے۔ آپ  24   مئی  1774  کو  رادھانگر   بنگال میں پیدا ہوئے۔  آپ  کا  خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل حکمرانوں سے وابستہ تھا۔  رواج  کے مطابق آپ کی  ابتدائی  تعلیم عربی فارسی میں ہوئی۔  اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ  کو  پٹنہ بھیج دیا گیا  جو اُ س وقت  اسلامی تعلیمات  کا  بڑا  مرکز تھا۔  وہاں آپ  نے قرآن شریف، فقہ، اسلامی دینیات  اور  علم مناظرہ  پر  عبور حاصل کیا۔  نیز  آپ  کو  ارسطو  کے عربی  تراجم  اور  معتزلہ  کی تصانیف کے مطالعے  کا  بھی موقع ملا۔  آپ  نے صوفیوں  کی  کتابیں بھی پڑھیں  اور  وحدت الوجود  کے فلسفہ سے اتنے متاثر ہوئے  کہ  بُت پرستی  کی مخالفت آپ کی زندگی  کا  مشن بن گئی۔

رام موہن رائے   کو   برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی  لیکن  کلکتہ میں قیام کے دوران  جب آپ  کو    انگریزی قوانین  اور  طریقِ حکومت کے مطالعہ  کا  موقع ملا   تو   آپ نے محسوس کرلیا   کہ  غیر ملکی غلامی  کا  طوق  انگریزی تعلیم  اور مغربی علوم کی تحصیل کے بغیر گلے سے  اُتار ا نہیں جا سکتا  ،  لہٰذا  آپ   نے انگریزی زبان سیکھی  جس سے واقفیت کے باعث مغربی علم و حکمت کے دروازے آپ   پر  کھل گئے۔   آپ    پندرہ  برس تک کمپنی سے وابستہ رہے  مگر  1815  میں پنشن لے لی  اور  سارا   وقت سماجی کاموں میں صرف کرنے لگے ۔  آپ   ذات پات کی تفریق  ،   بُت پرستی  اور  ستی کے رسم کے سخت خلاف تھے  ،   چنانچہ ہندوستانی معاشرے خصوصاً   ہندو  مذہب میں  موجود جاہلانہ رسم و رواج میں اصلاح کی غرض سے آپ  نے  1828 میں  برہمو سماج  کی تنظیم قائم کی   اور  ہندو معاشرے میں  جو  برائیاں پیدا ہوگئی تھیں  ان کے خلاف مہم شروع کر دی۔  یہ مکمل طور سے ایک غیر سیاسی تحریک تھی۔

آپ نے ہندو مت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ آپ  بُت پرستی کے خلاف تھے  اور  خدا  کی وحدانیت  پر  یقین رکھتے تھے۔  آپ نے ہندوستان کے عوام  کو  بتایا  کہ  مذہبی  کتابیں  خود  پڑھیں ۔ آپ نے ہندو سماج میں موجود ستی  جیسی  قبیح رسم کے خلاف  اور  بیواؤں  کی  دوبارہ  شادی کے حق میں تحریک چلائی ۔  آپ نے کئی رفاحی ادارے جیسے  کہ  یتیم خانے ،  مکتب  اور  شفا خانوں کے علاوہ لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے سکول قائم کئے  اور  مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کوششیں کیں ۔

آپ  نے سول برس کے سِن میں ایک کتاب  “تحفتہ الموحدین”  فارسی میں لکھی (دیباچہ عربی میں تھا)۔  اس کتاب میں  ہندو  بُت  پرستی  پر سخت اعتراضات کئے گئے تھے ۔  اتفاق سے کتاب کے مسودے پر  ان کے والد  کی نظر پڑی  تو  وہ  آگ بگولہ ہوگئے  اور  کشیدگی  اتنی بڑھی  کہ رام موہن رائے  کو  گھر  چھوڑنا  پڑا۔  اس کے باوجود  رام موہن رائے  کو  باپ کے جذبات  کا  اتنا  احترام تھا   کہ  رسالے کو  ان  کی زندگی میں شائع نہیں کیا۔

آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے  علاوہ  کئی  ایک اصلاحی  اخبار  و  رسائل بھی شائع کئے۔  ہندوستان میں پہلا غیر انگریزی اخبار  فارسی زبان میں 1822 میں آپ نے  شائع کیا۔ فارسی زبان  کے اس پہلے اخبار مراۃ الاخبار کے مالک  و  اڈیٹر  راجہ رام موہن رائے تھے۔ اس کے ایک سال بعد اردو کا پہلا اخبار جاری ہوا۔ اس اخبار  جامِ جہاں نُما  کے ایڈیٹر و مالک منشی سدا سُکھ تھے اس طرح ہندوستان میں  فارسی اور  اردو  زبان کے پہلے اخبارات کے ایڈیٹر غیر مسلم تھے۔ آپ ہندوستانیوں کی ترقی کے لیے جدید ، روشن خیال  اور  آزاد نظام تعلیم جس میں ریاضی ،  نیچرل فلسفہ ،   کیمسٹری ،   علم الابدان  اور  دوسرے سائنسی مضامین کے فروغ  کے داعی تھے۔ بر صغیر میں افکارِ تازہ  کی  نمود   اگر  سب سے پہلے بنگالیوں اور  ہندوستانیوں  میں ہوئی  تو  یہ آپ کی  صحافتی  اور  تعلیمی سرگرمیوں کا  فیض تھا۔ آپ  کے  زیادہ تر  مقلد  و  پیرو  امیر لوگ تھے۔

سر سید احمد خان کے بقول  “راجہ رام موہن رائے  نہایت لائق  اور  ذی علم  اور  متین ،  مہذب  و  با اخلاق  شخص تھے۔ آپ  دلی آئے  اور  بادشاہ کی ملازمت اختیار  کی  اور  آپ  کو  راجہ  کا خطاب بادشاہ کی طرف سے دیا گیا  اور  آخر کار  آپ   بادشاہ کے وکیل کی حیثیت سے لندن گئے ۔  راقم  (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ  کو  متعدد  بار  دربارِ شاہی میں دیکھا ہے  اور  دلی کے لوگ یقین کرتے تھے  کہ  ان کو  مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”  راجہ رام موہن رائے کے انہیں اوصاف کی شہرت کی بدولت  اکبر شاہ ثانی نے آپ    کو  دلی  بلوایا  اور  لندن اپنا سفیر بنا کر بھیجا  کہ  آپ  بادشاہ  کی  پنشن میں اضافے  کی  کوشش کریں ۔  راجہ رام موہن رائے بادشاہ   کی   پنشن  میں  تین لاکھ روپیہ سالانہ  اضافہ کروانے میں کامیاب ہوگئے ،  مگر  واپسی سے پہلے برسٹل میں بیمار پڑ گئے    اور  وہاں ہی وفات پاگئے۔ آپ  کی
لاش وہیں دریا کے کنارے نذرِ آتش کردی گئی ۔   راجہ  کا  جو  خطاب آپ    کو  مغل حکمران  اکبر شاہ ثانی نے دیا تھا  ،    انگریزوں نے اس خطاب کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔

افسوس ہے کہ ہماری نئی نسل عربی فارسی کے اس عالم ،  بت پرستی کے دشمن  اور  سلطنت مغلیہ کے وفادار خادم کے نام سے بھی واقف نہیں ۔