بلوچستان کے زخموں پر وزیراعلٰی پنجاب کے قہقہوں کی نمک پاشی

CM Punjab image
وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف

(ذوالفقارعلی)

یہ کہانی بہت پرانی ہے۔ چھوٹے صوبوں کو پنجاب سے ہمیشہ گلہ رہا ہے کہ تخت لاہور نے اُن کے حقوق کو پائمال کیا ہواہے۔ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اُس نے دوسرے صوبوں کو یرغمال بنایا اور وسائل کی تقسیم میں من مانی کی۔ بات یہاں تک نہیں رکتی اس سے آگے جاتی ہے۔ دوسرے صوبوں کے معاشی وسائل اور حق کو لوٹنے کے علاوہ پنجاب پر یہ الزام بھی لگتا آیا ہے کہ اس نے سیاسی طاقت کو اپنے مفادات کیلئے خوب استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے مُلک کے باقی صوبے اپنے سیاسی حقوق سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کی آبادی کو آئین سازی، منتخب نمائندوں کی متناسب نمائندگی اور پسماندگی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم سے محروم کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آپسی مخاصمت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔ رہی سہی کسر مُشرف حکومت نے اکبر بگٹی پر بم گرا کر پوری کر دی تھی۔ اس وقوعے نے وہاں کے عوام میں غم و غصے کی لہر پیدا کرنے کے علاوہ ایک ایسا لافانی کردار بھی مہیا کر دیا جس کو بلوچستان کے عوام اپنے ہیرو کے طور پر مان کر اپنی جدو جہد کو مزید جواز مہیا کر نے کے قابل ہوئے۔

اگرچہ پی پی حکومت نے اپنے تئیں اس مسئلے کو سُدھارنے کی کوشش کی اور زرداری نے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی بھی مانگی مگر حالات کو بہتر نہ کر سکے۔ کیونکہ طاقت کا مرکز کُچھ اور سوچ کے بیٹھا تھا۔ آغاز حقوق بلوچستان کے نام سے شروع کیا جانے والا منصوبہ بھی زیادہ کارگر ثابت نہ ہو ا بلکہ اُس منصوبے پر بھی بہت سارے سنجیدہ سوالات اُٹھائے گئے جس کا تسلی بخش جواب کوئی نہ دے سکا۔ یہ کہانی یہاں پر بھی نہ رُکی بلکہ اسمیں ایسے بہت سے موڑ آئے جن کی وجہ سے یہ مسئلہ دن بدن اور گھمبیر ہوتا گیا۔

ماما قدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک ایک وفد نے جس میں عورتیں بھی شامل تھیں پاکستان کی تاریخ کا مسنگ پرسن کے حوالے سے سب سے لمبا پیدل مارچ کیا۔ مگر جب وہ وفد اسلام آباد پہنچا تو وہاں پر موجود میڈیا کے لوگوں نے ایسے ایسے سوال داغے جن کی وجہ سے ریاست کی سوچ اور مین سٹریم میڈیا کی اپروچ کا بخوبی اندازہ ہوا کہ وہ بلوچستان کے لوگوں اور اُن کی جدو جہد کو کس انداز سے دیکھتے ہیں۔

article writer
صاحب مضمون، ذوالفقارعلی

اس کے بعد حامد میر جن کو اہل اقتدار تک رسائی اور آشنائی کے حوالے سے جانا جاتا ہے نے اپنے پرگرام کیپیٹل ٹاک میں ماما قدیر کو بُلایا تو اُس کے بعد اُسے بھی نہیں بخشا گیا۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس حوالے سے ریاست کی برداشت اور پالیسی کس قسم کی ہے۔ پھر سبین علی کا قصہ بھی اس سلسلے کی کڑی میں ایک اہم اشارہ تھا جس کو عقل والوں نے سمجھا اور اپنےاپنے انداز میں محتاط رویہ اختیار کیا۔

بلوچوں کے خدشات دور کرنے کی بجائے مسئلے کو کلبھوشن نامی را کے مبینہ ایجنٹ سے نتھی کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے تاثر یہ ملا کہ بلوچستان میں تیسری قوت کی کار گُزاری کی وجہ سے حالات خراب ہورہے ہیں۔ ورنہ بلوچستان کے لوگوں کو گورنمنٹ سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ ثنااللہ زہری نے وہاں پر دہشت گردی کے ہر واقعے کو انڈیا اور بلوچوں سے جوڑ کر اور پیچیدہ کر دیا۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالمالک کی بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی پالیسی کے تناظر میں ناراض بلوچوں کو ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے کاری ضرب پہنچی۔ اس کے اوپر نیچے بہت سے ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے ریاست اور مسلح بلوچ جنگجووں کی مخاصمت میں دن بدن اضافہ ہوا۔

اس خونچکاں صورتحال میں ریاست کی حکمت عملی اور ذمہ داری پر بہت سے سوال اُٹھتے رہےجن کو بلوچ جنگجوؤں اور مذہبی منافرت پھیلانے والی دہشت گرد تنظیموں نے اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے خوب استعمال کیا جس کا اثر عام عوام پے بہت بُری طرح سے پڑا۔ چاہےوہ ایف -سی کے اہلکاروں پر کرپشن کے الزامات ہوں، وکلا پر دہشت گردوں کا حملہ ہو، ہزارہ برادری کا قتل ہو، پولیس والوں کی جانوں کا زیاں ہو یا بلوچوں کی گمشدگی کا مسئلہ ہو اس سارے منظر نامے میں نقصان عام عوام کا ہوا۔ مگر طاقت اور اختیار والوں نےاس مسئلے کو سمجھنے یا سُلجھانے کی بجائے مختلف تاویلیں دے کر دبا دیا۔ جس کے بھیانک اثرات وہاں پر رہنے والے باشندوں کو سہنے پڑے اور آنے والے دن بھی کوئی آسان نہیں ہونگے۔

اس ساری صورتحال نے سی پیک CPEC منصوبے پر بھی اپنے منفی اثرات ڈالے اور اس منصوبے کی افادیت پر مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے مختلف فورمز پر اپنے اپنے خدشات کا اظہار کیا جس کے جواب میں حکومت وقت نے غیر منطقی دلیل سے جواب دے کر اتنا کہا کہ اس منصوبے سے خطے کی تقدیر بدل جائیگی اور دُشمن قوتیں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے روڑے اٹکا رہی ہیں۔ جن سے ہر قیمت پر نمٹا جائیگا۔ حکومت کے اس رویے اور دلیل کی وجہ سے ” غداری” کی تہمت کے ڈر سے بہت سے اہم سوال تشنہ رہ گئے۔

اس تشنگی اور عدم اعتماد کی وجہ سے جب کل وزیراعلٰی پنجاب نے پریس کانفرنس کی تو وہاں پر بلوچستان سے آئے ہوئے طلباء نے شہباز شریف کو چبھتے ہوئے سوال داغے تو وہ دلیل سے جواب دینے کی بجائے قہقہے لگانے لگ گئے۔ جو اُس رویے کے غماض ہیں جن کا تذکرہ بالعموم چھوٹے صوبے اور بالخصوص بلوچستان کے عوام کئی دہائیوں سے کرتے آئے ہیں۔ ان قہقہوں کے پیچھے شہباز شریف کی بے بسی تھی یا وہ زمینی حقائق سے نظریں چُرانا چاہتے تھے اس کو سیاسی شعور رکھنے والے لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ تخت لاہور کے ان قہقہوں نے بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک چھڑکنے کا کام کیا۔

مگرپہلی دفعہ ان قہقہوں کی گونج کو پنجاب کے لوگوں نے بھی محسوس کی جس کے دور رس اثرات اُن لوگوں پر بھی پڑیں گے جن کو بلوچستان کے شہروں کے ناموں تک کا پتہ نہیں مگر وہ بلوچستان کے لوگوں کو ان پڑھ اور غیر مہذب سمجھتے آئے ہیں جن کی دانست میں وہاں کے باشندے خواہ مخواہ ریاست سے برسر پیکار ہیں۔ !!!

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔