کہانی بلوچستان کے ریکوڈک کی اور اس سے سبق سیکھنے کی

(ڈاکٹر غلام سرور)

ریکوڈک کی کہانی کچھ اس طرح شر وع ہوتی ہے کہ جولائی ۱۹۹۳ء میں بلوچستان سرکار کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایک دیوزاد آسٹریلوی ایکسپلوریشن اور مائننگ کمپنی بی ایچ پی (BHP) نے چاغی کے علاقے میں کام شروع کیا تھا۔ ۲۰۰۰ء کے لگ بھگ دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک جائنٹ وینچر (Joint Venture) کے معاہدے کے تحتBHP کا حصہ۷۵ فیصد اور بلوچستان سرکار کا حصہ ۲۵ فی صد تھا۔ بعدازاں ، بوجوہ BHP اپنا حصہ ٹیتھین کاپر کمپنی (Tethyan Copper Company) کو دے کرنکل گئی، جو ایک کینیڈین دیوزاد کمپنی (Barrick Gold) اور ایک چلی کی کمپنی انٹافگاسٹا (Antafagasta) کا جائنٹ وینچر ہے۔ جس کو ہم TCC کہیں گے۔ TCC نے اپنی جیب سے ۴۰۶ ملین ڈالر لگا کر پندرہ بیس سال کی محنت کے بعد اپنی فیزیبلٹی رپورٹ بنائی جس کے مطابق ریکوڈک کے مقام پر ،جو مغربی چاغی میں واقع ہے، تانبے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں جن کا تخمینہ یوں ہے کہ تانبا ۳ء۱۲ ملین ٹن اور سونا ۲۱ ملین اونس ہے۔ یہ بھی سنا گیا کہ ریکوڈک کے ایک دوسرے مقام پرH14-15 نام کے ڈیپازٹ میں ۱۸ ملین ٹن تانبا اور ۳۲ ملین اونس سونا اس کے علاوہ ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ TCC نے خیانت کی ہے اور اصل ذخائر اس مقدار سے بدر جہا بہتر ہیں، جو سرکار کو بتائے گئے ہیں جو عین ممکن ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ذخائر بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں اور ’مقصد ‘کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی ایک تخمینہ نہیں ہوتا ۔یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، اوردکھانے کے اور ہوتے ہیں، ویسے ہی مقدار کے اندازے (Reserves Calculation) بھی ہوتے ہیں۔ ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جس کے تحت کمپنی اپنی امیدیں لے کے ایک علاقے میں بغرض تلاش جاتی ہے ، ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جو Investers کو دکھایا جاتا ہے، یا کسی اور کمپنی کے ساتھ ساجھے داری (Joint Venture) بنانے کے لیے ہوتا ہے ، ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جو سرکار کو دکھایا جاتا ہے۔اور’’ اگر کچھ مل جائے‘‘ تو ایک تخمینہ وہ بھی ہوتا ہے جو اسٹاک مارکیٹ کو بتایا جاتا ہے ۔ ان تمام مقاصد میں’ کاروباری مصلحت‘ ہوتی ہے، خیانت کا ہونا ضروری نہیں ہے اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ کمپنی نے غلط اندازے لگائے اور چھوڑ کر بھاگ گئی کہ یہاں کچھ نہیں ہے اور بعدازاں کسی اور کمپنی نے اسی جگہ سے قارُون کا خزانہ ڈھونڈ نکالا۔
یہاں یہ بات یادر کھنی چاہیے کہ آج بھی انسان اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود زمین کی تہوں میں پوشیدہ وسائل کے اندازے لگا تو سکتا ہے مگر ان کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔ کچھ اندازے بہتر ہوتے ہیں اور کچھ بدتر۔ راقم الحروف امریکہ میں دیوزاد تیل کمپنیوں کے ساتھ اپنے تیس سالہ تجربات کی بنا پر یہ باتیں لکھ سکتا ہے۔
؂ہوتا ہے شب روز تماشہ مِرے آگے
اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک کمپنی اپنے اندازوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کرتی ہے۔ اس لیے کہ اسے مزید معلومات ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے جیسے کام آگے بڑھتا ہے۔ TCC کی ویب سائٹ پر آپ دیکھیں تو ریکوڈک کے ذخائر یہ ہیں :۹ء۵ بلین ٹن اور (Ore) میں تانبا۴ء۰ فیصد اور سونا۲۲ء۰گرام فی ٹن ہے۔ جس سے سالانہ دو لاکھ ٹن تانبا اور ڈھائی لاکھ اونس سونا نکلے گا۔ یہ پراجیکٹ۵۶ سال چلے گا اور ۳ء۳ بلین ڈالروں کا خرچہ ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ تو اندازے اتنے منجمد بھی نہیں ہوتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ بہتری کی طرف یا بدتری کی طرف۔ ہاں، ایک بات یہ ہے کہ سرکار کو رائلٹی دینے کی بات جب آتی ہے تو اندازے بہت مختلف ہوسکتے ہیں، اصل سے۔ امریکہ میں بھی سرکار کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور قریباً دنیا کے ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تو آئیے پھر ریکوڈک کی طرف ۔
TCC
سے ذخائر کے نمبر ملنے کے بعد بلوچستان سرکار کو یہ احساس ہوچلا کہ انھوں نے گھاٹے کا سودا کرلیا تھا اور ان کو ۲۵ فی صد سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھے۔نیز یہ کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔لہٰذا بھروسہ نہیں رہا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم میں بذاتِ خود اتنی علمی اور تکنیکی اہلیت ہو کہ ہم اپنے قدرتی وسائل کی نقشہ بندی اور سمجھ کے بعد اس قابل ہوں کہ ذخائر کا خود اندازہ لگا سکیں اور جب بیرونی سرمایہ کاروں اور بڑی مائننگ کمپنیوں سے جائنٹ وینچر کی بات کریں تو اپنی زمین کی دولت کے اچھے اندازے کے ساتھ ۔علم سے جب اعتماد حاصل ہو تو دھوکہ کھانے کا امکان گھٹ جاتاہے۔د وسری بات یہ ہے کہ اگر ہم خود اتنے اہل نہ بھی ہوں تو آج کی دنیا میں ہر قسم کا مشیر اور ماہر (Consultant)دستیاب ہے جو کرائے پر کام کرتا ہے اور آپ کی پوری مدد کرسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے بھی کچھ جانکاری ضروری ہے۔ ہم جیسے جلا وطن بھی مٹی کی محبت میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر ہمیں وہی بلائے جو صحیح کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
بلوچستان سرکار کی بڑبراہٹ سن کر سیندک پر کام کرنے والی چینی کمپنیMCC نے ۲۰۱۰ء میں بلوچستان سرکار کو ایک آفر بھی دے دی ، جو ایک اخباری اطلاع کے مطابق یہ تھی کہ اگرMCC کوریکوڈک کا پراجیکٹ دے دیا جائے تو وہ سرکار کو نہ صرف ۲۵ فی صد آمدنی میں حصہ دے گی بلکہ ۵ فی صد رائلٹی بھی اداکرے گی۔ بلوچستان سرکارنے اسی دوران TCC کی مائننگ لیز نومبر ۲۰۱۱ء میں معطل کردی۔ اس حرکت پر TCC نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے انٹرنیشنل آربی ٹریشن(International Arbitration) کادروازہ کھٹکھٹایا اور درخواست دائر کردی ہے۔ اب یہ کھچڑی وہاں پک رہی ہے اور کوئی فیصلہ ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔
ادھر معاملہ یاروں نے پاکستان سپریم کورٹ تک بھی پہنچادیا اور کورٹ نے سرکار کی حمایت دکھائی۔ بلوچستان سرکار اور TCCکو یہ معاملہ آپس میں خود ہی طے کرلینا چاہیے ،TCCاپنے معاہدوں کی پابندی کر کے ریکوڈک کے پراجیکٹ کو آگے لے جانا چاہتی ہے اور مائننگ شروع کر کے بلوچستان اور پاکستان کو اکیسویں صدی کے جدید دور میں لانا چاہتی ہے،جو یقیناًہمارے لیے ایک انقلابی قدم ہوگا۔
دوسری طرف بلوچستان سرکار بزعمِ خود یہ کام شروع کر کے ایک ریفائنری بھی بنانے کا قصد کرتی نظر آتی ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق سرکار نے ۱۲۰ بلین روپوں کی رقم بھی رکھی ہے اس کارخیر کے واسطے۔ رہی بات علمی اور تکنیکی مہارت اورمشینوں اور ٹیکنالوجی ،کی جو اتنے بڑے کاموں کے لیے چاہئیں۔ تو وہ کہاں۔۔۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔۔۔، مگر کچھ لوگ مطمئن نظر آتے ہیں جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ مثلاً پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ۲۰۱۰ء میں پاکستان سپریم کورٹ میں کچھ ایسی بات کی کہ اگر پاکستان ریکوڈک کو خود مائن کرے اور تانبے اور سونے کو رفائن کرے تو وہ دوبلین ڈالر سالانہ کماسکتا ہے، اور اگر خود نہ کرے تو فقط۱۶۰ ملین ڈالر کی رائیلٹی ہی ملے گی۔ شاید وہ جانتے ہوں کہ پاکستان اتنا بڑا اور دقیق پراجیکٹ خود کرنے کا اہل ہے(اگر ایسا ہے تو ان کے منہ میں گھی شکر ) ۔
یہاں میرے لیے اپنے بزرگ اور محترم ماہر ارضیات ڈاکٹر صبیح الدین بلگرامی کا ذکر بھی لازم ہے، جو ایک کمپنی (Resources Development Corp.) کے ریٹائرڈ چےئرمین ہیں۔ انھوں نے بلوچستان میں مسلم باغ کے کرومائیٹ کی تحقیقات ، ریسرچ اور مائننگ میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ بلگرامی صاحب اپنے تجربات کی بناء پر یہ نصیحت دے چکے ہیں کہ ریکوڈک کے حوالے سے TCC کی رپورٹس کو چیک کرنے کے لیے انٹرنیشنل ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ ایسی مہارت پاکستان میں حاصل نہیں۔ اس کے بعد TCC سے ہی یا کسی اور سے یہ کام کروایا جائے اور قومی حقوق کی حفاظت کی ضمانت کے ساتھ۔ بیچ اس مسئلے کے ’ راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ سرکار کو اپنے معاہدوں کا پابند ہونا چاہیے ، ورنہ، ملک وقوم کی بدنامی ہوتی ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور چھوٹی بڑی ایکسپلوریشن اور مائننگ کمپنیوں کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ آپ سے کیے ہوئے معاہدوں کی کوئی وقعت نہیں اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجتاً دنیا کا سرمایہ کہیں اور چلا جائے گا ، پاکستان نہیں آئے گا۔ تو اے میری پیاری بلوچستان کی سرکار، TCC سے مذاکرات کر کے ہی کوئی حل ڈھونڈلے ۔ اس کمپنی نے اپنے ۲۰ برس اور۴۰۶ ملین ڈالر اِنوسٹ کیے ہیں۔ ریکوڈک اکیلا نہیں ہوگا۔۔۔ اور بھی ایسے بڑے ذخائر ہوں گے جن پر اپنے لیے بہتر شرائط منوانا اور لکھوانا ۔ ریکوڈک کو آگے جانے دو ، مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھول دو اور یہ سارا علم اور تکنیک سیکھو۔ ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کرو۔ ریکوڈک سے یہ سارے سبق سیکھو۔
ماضی میں ہمیں پاکستان سے بڑی تیل کمپنیوں کی رخصتی کی وجوہات کا سبق بھی یاد رکھنا چاہیے۔ اگر وہ رہ جاتیں توآج ہمارے ہاں سے بھی اتنا تیل اور گیس نکل رہا ہوتا کہ ضرورت کو کافی ہوتا ۔یا ددہانی کے لیے یہاں اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ شیل(Shell) ، آکسی (Oxy) اور اموکو (Amoco) جیسی بڑی آئل کمپنیاں پاکستان سے انیس سو اسی اورنوے کی دہائی میں رخصت ہوگئی تھیں۔ وجوہات میں آپریٹنگ کنٹریکس کی شرائط ، سرکاری وسیاسی جوار بھاٹا ، غیر مستقل حالات اور قبائلی مشکلات وغیرہ شامل تھیں۔ حالات کی وجہ سے ہی میں خود ۲۰۰۹ء میں Conoco Phillips کو آمادہ نہ کرسکا کہ وہ پاکستان جائے۔ وہ دہشت گردی سے ڈر کے بنگلہ دیش چلے گئے ۔
پاکستان میں آج بھی کوئی ساٹھ ہزار بیرل تیل روزانہ نکلتا ہے جبکہ ضرورت اس سے پندرہ بیس گنا زیادہ کی ہے۔ اسی طرح گیس بھی ضرورت سے بہت کم نکلتی ہے جبکہ مزید نکالی جاسکتی ہے۔ مگر بوجوہ ایسانہیں ہورہا۔ اپنے وسائل ڈھونڈنے کے بجائے ہم ایران اور ترکمانستان کی گیس پائپ لائن بچھا کر لانے کے چکروں اور جیوپالی ٹکس کا شکار ہورہے ہیں۔ اس اثناء میں ہماری صنعتوں کا دیوالیہ نکل رہا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہماری مائیں ،بہنیں اور بچے کھانا پکانے کے لیے گیس کو ترس رہے ہیں ۔ لوگ سردی سے مر رہے ہیں اور گیس غائب ہے اوربجلی بھی ۔ دل روتا ہے یہ سب دیکھ کر ، خدا کی پناہ !
ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بڑی انٹرنیشنل کمپنیوں کو پاکستان کے علاوہ اور بہت سے آپشنز ہیں جو انھیں بہتر نظر آتے ہیں۔ سیندک کے پراجیکٹ کو کئی کمپنیوں نے دیکھا ، جانچا اور بات نہیں بنی۔ کبھی یہ سنا کہ پانی نہیں ہے وہاں اور ذخائر بھی اتنے بڑے نہیں، وغیرہ۔ پھر ایک چینی کمپنی نے آخرکار ۲۰۰۳ء میں اس پر کام شروع کیا اور کر رہی ہے۔ ان کی اکنامک انا لسز مغربی کمپنیوں کی جیسی نہیں ہوتی جو سرمائے پر ایک خاص ’’ ریٹ آف رٹرن ‘‘ (Rate of Return) مانگتی ہیں اور زیادہ رسک اورس (Risk-averse) ہوتی ہیں ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے وہ رسک نہیں لینا چاہتی تھیں۔
مگر افغانستان میں مغربی یلغار نے حالات کو بدل دیا آج کے دور میں سیٹیلائٹس کی مدد سے ریموٹ سنسنگ (Remote Sensing) کے آلات اور تکنیک استعمال کر کے انسان زمین پر فیلڈ ورک کیے بغیر قدرتی وسائل کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکن ارضیاتی ماہرین (جن کا تعلق USGS یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس جیولوجیکل سروے سے تھا) نے افغانستان سمیت بہت سے ممالک کا معدنی سروے ریموٹ سنسنگ سے ہی کر رکھا ہے اور افغانستان میں فوج کے ساتھ ساتھ جیولوجسٹ بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے جانا ہے کہ یہ سرزمین بہت سی دھاتوں، غیر دھاتوں اور نایاب منرلز جیسے لیتھیم (Lithium) کے بہت بڑے ذخائر رکھتی ہے۔ افغانستان کا قبائلی کلچر ایسے وسائل کو اپنے طور پر آج تک استعمال میں نہ لاسکا اور نہ بڑی دیر تک اس قابل ہوگا۔ اس کے علاوہ وہاں جم سٹونز (Gemstones) جیسے، روبی ، لاپس ، نورملین اور بہت کچھ ہے۔ اب مغربی کمپنیاں ان کا حصول چاہتی ہیں اور یہ کہانی بارڈر پار کرکے شمالی پاکستان ، پختون خواہ علاقوں اور چاغی میں آتی ہے۔ جہاں کہانی ابھی دل چسپ ہے اور بہت کچھ ملنے کے آثار ہیں۔ ریکوڈک لہٰذا اکیلی کہانی نہیں لگتی۔ ہمیں بھی ریموٹ سنسنگ پر بہت زور دینا چاہیے۔ جس سے نہ صرف منرلز بلکہ پانی ،جنگلات، آبادی، برفباری ، آب وہوا ، تیل ، گیس غرض کہ سارے مسائل اور وسائل پر بہتر گرفت حاصل ہوسکتی ہے ۔ تو میں تو یہ کہتا ہوں کہ نمی کو چھوڑ ، یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ، بس ذرا قلقل کو چھوڑ اور اٹھا پھاوڑا۔
آخر میں جو بات میں انتہائی زور دے کر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی صلاحیتوں کو ہی اجاگر کرنا ہوگا تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ آخر کو ہم نے ایٹمی ٹکنالوجی کو بہت حد تک خود ہی قابو کیا اور ایٹمی طاقت بن گئے ۔ جرمنی اور جاپان دوسری جنگ عظیم کی راکھ سے اٹھ کر کہاں سے کہاں پہنچے۔ چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسی جذبے سے ہم کو بھی کام کرنا ہوگا ورنہ سامراجی طاقتیں اپنا ایجنڈاہم پر مسلط کرتی رہیں گی۔ ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے بزرگوں کی لیڈر شپ اور جذبہ ہم کو قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے بھی چاہیے۔ ہمیں ان کی تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی کوشش میں پوری مدد کرنی چاہیے۔ کاش ہم اپنا محاسبہ کر کے خود اپنی اصلاح کرلیں اور بے لوث کام کر کے ایک زندہ قوم بن جائیں۔ آج اگرہم نے یہ نہیں کیا تو کل بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تو آؤ اے میرے جوانو، دوستو اور بزرگو، اپنے کام میں لگ جائیں اور جو بھی ہمارا رول ہے اسے پوری تندہی سے ادا کریں۔ اگر ہر ایک اپنا فرض ادا کرے تو کیا بات ہے۔
؂ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی