حُکم، دلیل اور مصلحت سے پاک ہوتا ہے

حُکم، دلیل اور مصلحت سے پاک ہوتا ہے

از، نوید نسیم

پیمرا کی جانب سے رمضان نشریات کے دو میزبانوں اور ایک عالم پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہین رسالت کے قوانین سے متعلق سوال اٹھانے پر پابندی لگادی گئی۔ پیمرا کے مطابق پابندی کی وجہ مزکورہ نازک عنوانات سے متعلق موصول ہونے والی عوامی شکایات تھیں۔

ختم نبوّت پر کامل یقین اور توہین رسالت کرنے پر سزائے موت۔ یہ وہ دو چیزیں ہیں جن پر ہر مسلمان یقین رکھتا ہے اور اس ضمن میں کسی بھی قسم کی دلیل یا منطق ماننے سے قاصر ہے۔

اصل میں مسئلہ ان دونوں موضوعات پر بحث کرنے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ ان دونوں موضوعات پر بحث کرتے ہوئے مجوزہ قوانین پر بنا مضبوط دلیل کے سوال اٹھانے کا ہے۔

حمزہ علی عباسی نے شاید سمجھا کہ چونکہ اس کے مہمان ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کرام ہیں۔ جن سے بحث کے ذریعے وہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہین رسالت سے متعلق قوانین پر سوالات اٹھا کر وہ ان قوانین کو غلط قرار دے سکتا ہے۔

یہ یقیناً حمزہ کی غلط فہمی تھی۔ کیونکہ علما کرام تو اپنی دینی معلومات اور رمضان نشریات میں شرکت کرنے کے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے بچ گئے۔ مگر میزبان حمزہ کو سزا بھگتنی پڑی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قانون پر بحث ہونی چاہیئے مگر بحث کرنے سے پہلے ملکی ماحول اور عوامی ہاضمے کوبھی دیکھنا چاہیے۔ خاص کر تب جبکہ توہین رسالت کے قانون پر تنقید کی وجہ سے سابق گورنر پنجاب بھی اپنی جان گنوا بیٹھے ہوں۔

اصل میں حمزہ کو چاہیے تھا کہ وہ نشریات میں پہلے لمبی چوڑی تمہید باندھتے کہ اس بحث کا مقصد ختم نبوت اور توہین رسالت قوانین پر سوالات اٹھا کر اِن پر تنقید کرنا نہیں۔ بلکہ ان سے متعلق بنائے جانے والے قوانین کے ذریعے ہونے والی زیادتیوں کی نشان دہی کرنا ہے۔ اُن ہلاکتوں پر آواز اٹھانا ہے جو کہ مذہب کے نام پر آئے روز ہوتی ہیں۔ ان اقلیتوں کا تحفظ ہے جن پر توہین رسالت کے مبینہ الزامات لگا کر ذاتی دشمنی کا نشانہ بنانا ہے۔

حمزہ کا دورانِ نشریات یہ کہنا تھا کہ کیا کسی ملک کی حکومت کسی خاص مذہبی گروہ کو آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟

معصوم اور بھولے حمزہ یہ بھول گئے یا شاید انھیں معلوم ہی نہیں کہ 1973 کے جس آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو اقلیت یا غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اسی آئین میں پاکستان کا نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان” رکھا گیا۔ جو کہ پوری دنیا میں اسلام کے نام پر بنے والا پہلا اسلامی ملک تھا۔

ایسے آئین میں جس میں مملکت کا نام ہی اسلامی جمہوریہ رکھ دیا گیا ہو۔ اس مملکت میں کسی بھی مزہبی گروہ کو اقلیت یا غیر مسلم قرار دینا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔

کاش کے حمزہ 1974 میں کی جانے والی دوسری ترمیم کے سیاسی مقاصد کو سمجھتے ہوئے اور اس دور کے سیاسی اور لاثانی حالات کو دیکھتے ہوئے اس موضوع پر بحث کرتے تو شاید انھیں افاقہ ہوتا۔ مگر شاید پھر بھی نہیں اور اس کی وجہ یہ کہ اس دور کی طرح آج بھی مزہبی گروہ ہمارا استحصال کررہا ہے۔ آج بھی اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ سڑکوں پر آنے کی دھمکی دے کر اپنے عزائم پورے کرسکتا ہے۔

رمضان کے بابرکت مہینے میں شہرت حاصل کرنے کے لئے ہی ایک اور چینل کے میزبان نے اڑتا تیر لینے کی کوشیش کی۔ جو اسے بھی مہنگا پڑگیا۔

سال کے سال نمودار ہونے والے موسمی میزبان شبیر ابوطالب نے مسلم امہ کا ماموں بنتے ہوئے حمزہ علی عباسی کی طرف سے لئے گئے پنگے کو چھیڑا اور مزکورہ موضوعات پر مشہور عالم دین علامہ کوکب نورانی اکاڑوی سے رہنمائی طلب کی۔

علامہ نورانی نے بھی اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے جواب میں یہاں تک کہہ دیا کہ ابھی مسلمان اتنے بے غیرت نہیں ہوئے ہیں۔

موسمی میزبان کے سوال کرنے اور عالم کے اشتعال انگیز جواب کی وجہ سے دونوں حضرات بھی حمزہ علی عباسی کی لگائی گئی آگ کی بھینٹ چڑھ گئے اور پیمرا نے ان دونوں حضرات کو بھی دوران رمضان گھر بیٹھنے کی تلقین کردی۔

توہین رسالت کے قوانین کو زیر بحث لاتے ہوئے بھی اگر حمزہ ان میں ترامیم کی بجائے اس کے غلط استعمال پر بحث کرتے تو شاید اس کا کوئی فائدہ ہوتا۔ کیونکہ موجودہ حالات میں ہمیں یہ سوچنا بھی نہیں چاہیے کہ ان قوانین میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔

حمزہ اگر توہین رسالت کے قانون کا استعمال ذاتی دشمنیوں کے بدلے لینے کے حوالے سے کرتے اور توہین رسالت کا الزام ثابت نا ہونے پر الزام لگانے والے کے لئے بھی وہی سزا کا مطالبہ کرتے تو شائد قابل قبول ہوتا۔ مگر!

پیمرا کو چاہئیے کہ وہ حمزہ علی عباسی کے علاوہ اس چینل کو بھی سزا دے جس نے حمزہ کو اس موضوع پر آخری روزے بحث کرنے کی اجازت دی تھی۔ شبیر ابو طالب کے چینل کو بھی چیک نا رکھنے پر سزا ہونی چاہئیے۔

امید ہے کہ پیمرا کی وقتی ہوشیاری کو دیکھتے ہوئے اب کوئی موسمی یا سدا بہار میزبان مذکورہ قوانین پر بحث کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ یہ صرف مادر پِدر آزاد سوشل میڈیا ہی ہے جہاں جو چاہے، جب چاہے، جتنا چاہے اور جیسے چاہے ہر کوئی سوالات اٹھا سکتا ہے۔