فرانس کے نیلے خواب اور عالمی کپ 2018

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

فرانس کے نیلے خواب اور عالمی کپ 2018

از، حسین جاوید افروز

کہتے ہیں کہ وسیع عریض روسی سر زمین پر فتح کے جھنڈے گاڑنا تاریخ میں کئی حکمرانوں کا خواب رہا ہے۔ اس ضمن میں فرانس کے نپولین اور جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے تو تقریباً ماسکو کی تسخیر کو قریب قریب یقینی بنا ہی دیا تھا مگر عین موقع پر روسی جرنیل موسم نے ان دو عظیم، توسیع پسندانہ حکمرانوں کے خوابوں کو یخ بستہ برف تلے ہمیشہ کے لیے دفنادیا۔ لیکن 2018 میں روس کو ایک اور عالمی جنگ کا سامنا تھا مگر اس بار یہ جنگ توپوں اور ٹینکوں کی گھن گرج کی بجائے فٹ بال سے لڑی گئی۔ اور یوں چودہ جون سے پندرہ جولائی تک 64 مقابلوں میں 169 گولز داغے گئے۔

اس طرح پندرہ جولائی کو کپ کے حصول  کے لیے آخری معرکے میں ماسکو میں اکیسویں عالمی کپ فٹ بال کے فائنل میں فرانس نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے کروشیا کو چار دو سے شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کر لی۔ یہ عالمی کپ بیشمار سنسنی خیز مقابلوں، کرب اور جوش سے لبریز لمحات دیے رخصت ہو گیا۔ دوران عالمی کپ جہاں روسی صدر ولادی میر پیوٹین نے بہترین انتظامات کر کے دنیا بھر سے آئے ہوئے کھلاڑیوں اور پرستاروں کے دل جیت لیے وہاں روسی دارلحکومت ماسکو نے بھی اس ایک ماہ کی ہنگامہ خیزی میں کئی رنگ پیش کیے۔

سرد ماسکو میں جس طرح نائجیریا اور کولمبیا کے پرستاروں نے ثقافتی رقص پیش کیے اور جنوبی امریکہ اور یورپین سیاحوں نے جس طرح یگانگت اور سپورٹس مین سپرٹ سے بھرپور ایک بین ا لقوامی ماحول تراشا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ بلاشبہ اس کامیاب عالمی ایونٹ کے بے مثال انعقاد سے روس کا ایک بہت ہی مثبت اور روشن امیج دنیا کے سامنے آشکار ہوا۔ آئیے کھیلوں کی دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ میں شامل نمایاں ٹیموں کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے بات ہو جائے میزبان ٹیم روس کی جس نے سخت جان حریفوں کے سامنے اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلایا اور سپین کی مضبوط ٹیم کو چاروں شانے چت کر کے گویا میدان مار لیا۔

جہاں روسی ٹیم کو ہوم گراؤنڈ کا فائدہ ملا وہاں تقریباً 48 سال بعد کوارٹر فائنل تک رسائی ہوئی اور روسی ٹیم نے اپنی بساط سے بڑھ کر کھیل پیش کیا۔ مسلم ممالک کی ٹیموں کی بات کی جائے ان میں ایران نے شاندار کھیل پیش کیا۔ خصوصاً پرتگال کے خلاف تو ایرانیوں نے رونالڈو الیون کو ناکوں چنے جبوا دیے اور مقابلہ برابری پر ختم کیا۔ ایرانی ٹیم میں ناقابل فراموش کردار گول کیپر رضا کا رہا جس نے فٹ بال کے جنون کی خاطر زندگی کی تلخیوں کا سامنا کیا اور جس طرح اس نے رونالڈو کے سامنے دفاع کیا وہ قابل دید منظر تھا۔

مجموعی طور پر پرتگال اور سپین سے سخت مقابلے کرنے اور مراکش کو شکست دے کر گھر لوٹتی ہوئی ایرانی ٹیم کامستقبل درخشاں نظر آتا ہے۔ جب کہ مصر سعودیہ اور مراکش اپنا جادو جگانے میں یکسر ناکام دکھائی دیے۔ اب بات کرتے ہیں 2014 کی دفاعی چیمیئن جرمنی کی جو اس ٹورنامنٹ میں ایک تجربہ کار اسکواڈ کی صورت میں دکھائی دے رہی تھی۔ جن کی پشت پر کوچ جوکھم لیو بھی موجود تھا جس نے جرمنی کو فاتح عالم بنوانے میں اہم کردار نبھایا۔ مگر اس بار جرمنی شروع سے ہی لڑکھڑاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میکسیکو کے ہاتھوں غیر متوقع شکست اور پھر جنوبی کوریا کے ہاتھوں شرمناک ہار نے سارے جرمنی کو ہی سوگوار کردیا۔ یوں محض تین مقابلوں میں ہی جرمن جتھے کا پول کھل گیا اور ناتجربہ کار کھلاڑی، اپنے اعزاز کے دفاع کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔ جتنے خطرناک جرمن چار سال پہلے تھے اتنے ہی بے اثر اب رہے اور وہ ٹیم ورک مفتود رہا جو کہ اس ٹیم کی پہچان تھا۔

جرمن میڈیا نے شکست کا بار میسوٹ اوزیل پر ڈالا جو کہ ترکی النسل ہے۔ جب کہ اس کی رجب طیب اردگان سے ملاقات بھی تنازعہ کا سبب بن رہی ہے۔ جرمن کوچ جوکھم لیو پر شدید تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں اور ٹیم کی ناکامی کو اجتماعی ناکامی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ80 سال بعد یہ پہلا موقع تھا جب جرمن ٹیم پہلے ہی راؤنڈ میں ایونٹ سے باہر ہو گئی ہو۔ جرمنی کی اس مایوس کن پرفارمنس نے جہاں کئی پرستاروں کے دل توڑے وہاں کئی ٹیموں نے اطمینان کا سانس بھی لیا۔ تاہم جرمنی کی جنوبی کوریا کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنی رہے گی۔

کرسٹیانو رونالڈو کی ٹیم پرتگال  جو یورو کپ کی بھی فاتح رہی لیکن اس بار قسمت کی دیوی پرتگالیوں پر نامہربان رہی۔ جس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ ہمیشہ کی طرح رونالڈو پر سارا بوجھ لاد دیا گیا اور اس کی مدد  کے لیے پرتگالی کھلاڑی سپورٹ فراہم نہ کرسکے۔ ٹیم کی شدید کمزوری ایران کے خلاف دیکھنے میں آئی جہاں رونالڈو کے تابڑ توڑ حملے بھی گول کیپر رضا نے کمال مہارت سے روکے اور مقابلہ برابری پر ختم ہوا۔ جب کہ محض مراکش سے فتح بٹورنے کے سوا جس طرح یورا گوئے نے راؤنڈ آف 16 میں پرتگال کو باہر کیا اس نے ٹیم کے کمزور دفاع کو مکمل طور پر آشکار کردیا۔ اب رونالڈو تو جونٹس سے بھاری بھرکم معاہدہ کرکے اپنی پانچوں انگلیوں کو ڈبو چکے اور غالباً یہ ان کا بھی آخری عالمی کپ ہو مگر پرتگال ٹیم کیا اب کسی اور رونالڈو کے مرہون منت رہے گی یہ سوال اس ٹیم کے لیے اہم ہوگا۔


مزید دیکھیے: ’’ایک سنچری کافی نہیں‘‘ سارو گنگولی کی کرکٹ یاد داشتیں

’’پی ایس ایل 3 ‘‘ کتنی کامیاب کتنی ناکام


ایسا حال سپین کا بھی رہا جو کہ 2010 میں عالمی ٹائٹل جیتنے میں کامیاب رہی۔ اور مراکش، پرتگال سے برابر میچ کھیلنے کے بعد بمشکل ایران کو ہی ہرا پائی۔ لیکن راؤنڈ آف 16 میں جس طرح پنالٹی شوٹ آؤٹ میں روس نے سپین کو اکھاڑ پھینکا یہ ہسپانوی پرستاروں کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اب بات ہوجائے ماضی میں دو عالمی کپ مقابلوں کی فاتح یورا گوئے کی جو اس بار اگرچہ فارلان کی صلاحتیوں سے محروم رہی مگر اس نے کمال ٹیم سپرٹ سے اپنے ابتدائی چار مقابلے مصر، روس، سعودیہ اور پرتگال کو ہرا کر جیتے۔ مگر افسوس کہ کوارٹر فائنل جیسی اہم سٹیج پر فرانس سے ہار کر ایونٹ سے رخصت ہو گئے۔ اس ٹیم کی خاصیت یہ تھی کہ ان کو اپنی حدود اور قوت کا اچھی طرح اندازہ تھا۔ مگر انتہائی اہم میچ میں کیوانی کی انجری اور سواریز کی خراب فارم نے یوراگوئے کو واپسی کا ٹکٹ تھما دیا۔

اس عالمی کپ میں جن ٹیموں کو ہر لحاظ سے متوازن، فیورٹ اور مضبوط جتھے کے طور پر لیا جارہا تھا ان میں ایک ٹیم بیلجئم کی بھی تھی جس نے اپنے کھیل، ٹیم ورک سے سب کو متاثر کیا۔ red devils کے نام سے مشہور اس ٹیم نے ہیزڈ، لوکاکو، اور فلانی جیسے خطرناک کھلاڑیوں کی مدد سے برازیل، جاپان، انگلینڈ، تیونس کو ٹھکانے لگایا اور خطرے کی گھنٹی تک بجا دی۔ تاہم سیمی فائنل جیسے بڑے مقابلے میں یہ فرانس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ شائد ان کی قسمت خراب تھی کہ فرانس اس گولڈن جنریشن کے مد مقابل آیا۔ تاہم مستقبل میں اس کے کھلاڑیوں کے لیے کئی مواقع موجود ہیں جو اس بار کم از کم 32 برس بعد سیمی فائنل تک تو پہنچے۔ لیکن چلتے چلتےred devils اپنا جلوہ پھر دکھا گئے اور انگلینڈ کو ہرا کر کانسی کے تمغے کے حقدار ضرور ٹھہرے۔

بیلجئم کی ٹیم کے اصل ہیرو کوچ رابرٹو مارٹیز رہے جنہوں نے ٹیم کا ڈھانچہ مضبوط بنایا اور اسے کامیابی سے اپنے اوپر اعتماد کرنا سکھایا۔ اس بار لیاری سے لے کر برازیلیا تک پرستاروں کو امید تھی کہ وہ برازیل کو 2002 کے بعد عالمی چیمپئن بنا دیکھیں گے مگر افسوس نیمار، مارسیلو، سلوا جیسے باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل اسکواڈ اپنی اصل طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا اور برازیل کے روایتی جنون سے لبریز شائقین عالمی کپ میں فائنل سے قبل ہی دل چسپی کھو بیٹھے۔ جہاں اس ٹیم نے کوسٹا ریکا، میکسیکو، سربیا اور آسٹریا کو شکست دی وہاں کوارٹر فائنل جیسے سخت مقابلے میں بیلجئم کو پچھاڑنے میں یکسر ناکام رہی۔ جس کی بنیادی وجہ اس کا کمزور دفاع اور نیمارکو ہی امیدوں کا محور بنا لینا تھا۔ تاہم مستقبل کے حوالے سے اس ٹیم کے پاس کافی با صلاحیت کھلاڑی موجود ہیں لیکن یاد رہے برازیل کی موجودہ نوجوان نسل جو ایک طویل عرصے سے عالمی کپ کی ٹائٹل فتح کی منتظر رہی ہے اب اس کو اس مقصد کے حصول  کے لیے 2022 تک انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن کیا تب تک برازیل کو ماضی کے پیلے، رابرٹو کارلوس، رونالڈو، رونالڈینو، کاکا یا کافو جیسے عظیم کھلاڑی دستیاب ہوں پائیں گے جنہوں نے برازیل کو ایک افسانوی شہرت عطا کی؟ اس کے لیے ہمیں 2022 تک انتظار کرنا ہوگا۔

جنوبی امریکا کی تابناک ٹیموں میں سے ایک ارجنٹائن بھی اس بار سرخیوں میں رہی جس کی وجہ اس ٹیم میں لائنل میسی جیسے عظیم کھلاڑی کی موجودگی تھی۔ سب کے اذہان میں یہی سوال تھا کیا میسی ممکنہ طور پر اپنے آخری عالمی کپ میں ارجنٹائن کو 1986 کے بعد عالمی کپ دلا سکیں گے ؟میسی ہی اس ٹیم کے مرکزی کردار تھے۔ مگر بدقسمتی سے ان کو دوسرے کھلاڑیوں سے مناسب سپورٹ سسٹم نہ مل سکا جو اسے بارسلونا سے ملتا تھااور یہ با صلاحیت ٹیم اپنے وسائل سے فائدہ نہ اٹھا سکی۔ الٹا میسی کی باڈی لینگوئج بھی دوران عالمی کپ توانائی سے عاری رہی بَل کہ ان سے کئی گنا زیادہ جذبہ تو باہر بیٹھے عظیم ڈیگو میرا ڈونا میں دکھائی دیا جو ہر مقابلے میں جذباتیت کی انتہاؤں پر پہنچ جاتے۔ اگرچہ نائجیریا کے خلاف میسی کا گول بلاشبہ اس ٹورنا منٹ کا بہترین گول تھا مگر یہی آگ اگلے مرحلوں میں میسی میں نہیں دکھائی دی۔ یوں بڑے نام پر تکیہ کیے یہ ٹیم دنیا بھر میں پھیلے اپنے مداحوں کو اداس کرگئی۔ جب کہ کوچ جارج سمپولی جو فرانس کے خلاف جارحانہ مقابلے کی پیش گوئی کر رہے تھے اس میچ میں شکست کے بعد گویا ارجنٹائن کی ناپسندید ہ شخصیت بن کر ابھرے۔

جہاں اس عالمی کپ میں جرمنی، میسی، رونالڈو اور نیمار نے شائقین کے دل پاش پاش کیے وہاں انگلش ٹیم با آسانی ان بڑی ٹیموں سے دامن بچاتی ہوئی سیمی فائنل تک پہنچ گئی۔ ہیریکن کی ٹیم پر قسمت مہربان تھی اور انگلش فین زون نے یہ گن بھی گانے شروع کیے کہ ٹرافی 1966 کے بعد گھر واپس آ رہی ہے۔ مگر سویڈن اور پاناما جیسی ٹیموں کو ہرا کر عالمی کپ جیتنے کا دعویٰ انگلینڈ کو بہت بھاری پڑا جب اسے سیمی فائنل میں کروشیا نے ایک گول کے خسارے کے باوجود دو ایک سے شکست دے کر ٹورنامنٹ سے خارج کر دیا۔ یوں ثابت ہوا کہ برطانوی ٹیم ایک بڑے حریف کے سامنے بڑے میچ میں چاروں شانے چت ہوگئی۔ مگر مجموعی طور پر نوجوانوں پر مشتمل اس ٹیم کے لیے آسانی سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا ہی بہت بڑی بات تھی۔ اب آخر میں ذکر کرتے ہیں حالیہ ایونٹ کی ڈارک ہارس سمجھے جانے والی ٹیم کروشیاکا جس نے اپنے عمدہ ٹیم ورک، جارحانہ حکمت عملی اور آخری لمحے تک فتح کے لیے انتھک کوشش کر کے خود کو ساری دنیا میں منوایااور فائنلسٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یقیناًارجنٹائن، روس، اور سیمی فائنل میں انگلینڈ کا جلوس نکالنے والی ٹیم کو کپتان لوکا مرڈک، ویڈا، ٰریکٹک، نے ایک بیمثال یونٹ میں ڈھالا۔ جس کے لیے کروشین کوچ ڈیلک داد کے مستحق ہیں۔ یہاں لوکا موڈرک نے جس طرح ایک بکھری ٹیم کو نقطہ عروج پر پہنچایا اور خود کو دنیا کا بہترین مڈ فیلڈر ثابت کیا اور گولڈن بال کا اعزاز جیتا۔ وہ طویل عرصے تک یاد رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سیمی فائنل میں انگلش ٹیم کا یہ فلسفہ بھی ناکام رہا کہ کروشین کھیل کھیل کر تھک چکے ہیں۔

ٹیم کروشیا نے ثابت کیا کہ ٹرافی انگلینڈ لے جانے کواب ضرور چکنا چور کریں گے اور ایسا ہی ہوا۔ یہاں تک کہ فرانس جیسے فتح گر سکواڈ کے سامنے سخت دباؤ میں بھی دو گول کرنا کروشین فائٹنگ اسپرٹ کا ہی خاصہ تھا۔ اس موقع پر کروشین صدر کولنڈا کا کردار بھی ناقابل فراموش رہا ہے جنہوں ٹیم کی ہر قدم پر حمایت کی اورہر میچ دیکھا اور یہاں تک کہ اپنی کابینہ کے اجلاس بھی کروشین ٹیم کی شرٹس پہن کر منعقد کیے۔ لوکا مرڈک اور کولنڈا کے جوش، مثبت اپروچ نے محض بیالیس لاکھ نفوس پر مشتمل ملک میں جیسے کرنٹ پیدا کردیا ہو۔ بہر حال عالمی کپ فائنل میں فرانس نے کروشیا کو چار دو سے شکست دی اور یہ مقابلہ ایکسٹرا ٹائم تک نہ گیا۔ نوجوان فرنچ ٹیم میں جذبہ توانائی جوش کی کی نہیں رہی مگر کروشیا نے بھی ہائی وولٹیج مقابلے میں دو گول کر کے خود کو تر نوالہ ثابت نہیں کیا۔ شکست پر زگرب جہاں غم میں ڈوباوہاں پیرس میں شاندار جشن منایا گیا۔ جب کہ فائنل میں ماسکو میں پیوٹن کے ساتھ کروشین صدرکولنڈا اور فرانسیسی میکرون کی موجودگی اور جوش نے فائنل کو چار چاند لگائے۔ کروشیا کے پیرسک اورکک کے گول اپنی جگہ مگر یہ فرنچ کھلاڑی گرزمین، مباپے اور پوگبا ہی تھے جو کہ بازی لے گئے۔ var کے ذریعے متنازعہ پنالٹی نے بھی کروشین کیمپ کو چاروں شانے چت کیا۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہی کہ فرانس ہر لحاظ سے اس عالمی کپ کو اپنے سکواڈ میں موجود گہرائی، مستحکم دفاع، اور بے خوف ارادے کے ساتھ جیتنے کی مکمل طور پر اہل تھی۔ یہ ٹیم ٹیلنٹ اور ٹیم ورک کا شاندار مجموعہ ثابت ہوئی۔

یوں پوگبا، مباپے، لارئس نے تمام عالم میں اپنی دھاک بٹھا دی اور فرانس بیس برس بعد عالمی چمپئین کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ جس ماسکو کو نپولین اور ہٹلر جنگی میدان میں زیر نہ کر سکے اسے لارئس کی فرنچ ٹیم نے کراپنے کھیل کی بدولت جیت کر دکھایا۔ مباپے نے ارجنٹائن کے خلاف چار منٹ میں دو گول داغ کر ثابت کیا کہ دنیا کو میسی، رونالڈو کے بعد ایک اور سپراسٹار مل چکا ہے۔ عالمی کپ کے بہترین مقابلوں پر بات کی جائے تو فرانس بمقابلہ ارجنٹائن، جرمنی بمقابلہ جنوبی کوریا، کروشیا بمقابلہ انگلینڈ، برازیل بمقابلہ بیلجئم اور سپین بمقابلہ روس نے شائقین کو گرما دیا۔ جب کہ ان مقابلوں کا بہترین گول میسی نے نائجیریا کے خلاف کیا۔ انگلینڈ کے ہیری کین نے گولڈن بوٹ کا اعزاز حاصل کیا۔ جب کہ عالمی کپ کے نمایاں سٹارز میں گرز مین، لوکا مرڈک، مباپے، پوگبا، لارئس۔ کانٹے، ٹریپئر، ہیری کین اور ہیزرڈ رہے۔ اس عالمی کپ کا سب سے بڑا سبق یہی رہا کہ وہ زمانہ گیا جب بڑے نام ٹیم کو ٹائٹل جتوانے  کے لیے ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ فرانس نے ثابت کیا کہ بڑے نام کے بجائے ٹیم ورک بہترین رہے تو اعزازات خود آپ کے تعاقب میں رہتے ہیں۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔