جون ایلیا، شکیل عادل زادہ، ہمارے صحافیوں کی دیوتا تراشی

جون ایلیا، شکیل عادل زادہ، ہمارے صحافیوں کی دیوتا تراشی

جون ایلیا، شکیل عادل زادہ، ہمارے صحافیوں کی دیوتا تراشی

از، نصیر احمد

شکیل عادل زادہ صاحب نے غنڈوں کو اپنی کہانی میں دیوتا بنایا اور ہمارے صحافی شکیل صاحب کو دیوتا بنا رہے ہیں۔ تمھی کہو یہ بھی کوئی بات ہے؟ شکیل صاحب جون ایلیا سے مقابلے کرتے تھے، صحافیوں نے انھیں مظہر کلیم اور ابنِ صفی کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ ابتدائی جمہوری دور کے ابن صفی تو کافی شان دار تھے۔ کچھ قدامت پسند تو تھے مگر قانون سے ان کی کچھ وابستگی تھی۔ شاید جمہوریت اور قانون کی موجودگی کے باعث وہ لکھتے بھی بہت شان دار تھے۔ بعد میں فاشزم کی لہر آئی تو قدامت پسندی کاملیت پرستی بن گئی اور ابن صفی اینویں سے ہی ہو گئے۔

شکیل صاحب نے غنڈوں، بدمعاشوں، اُچکوں، اٹھائی گیروں پر اردوئے معلّٰی سمجھیں وار دی ہے۔ ادھر سے ایک غنڈہ نمودار ہوتا ہے اور اردوئے معلی میں صدقے میں واری کرنے لگتی ہے۔ ادھر سے ایک غنڈہ نکلتا ہے اور اردوئے معلّٰی اس کے پاؤں چھونے لگتی ہے کہ سرکار آگئے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے لیکن اس کے خلاف لکھنا چاہیے ناں۔

اپنے جَون بھائی کو غنڈے پیٹتے مارتے رہے، لیکن وہ جمہوریت کے خلاف نہیں گئے۔ ہم جون بھائی پر بھی ہنستے رہتے ہیں، لیکن بندہ ٹھیک تھا۔ ہنسی مخول تو سب سے کرنا چاہیے۔ لیکن شکیل صاحب اردو کو جو دشا دکھا رہے تھے وہ معاشرے کے لیے خطرناک تھی۔ اب چُوں کہ وہ دشا معاشرے کے لیے خطرناک تھی، اس لیے صحافی ان کو پوجتے ہیں، کیوں کہ یہ لوگ بھی معاشرے کے لیے خطرناک ہیں، اس لیے ان کا شکیل صاحب سے اتحاد ہے۔

انصاف دلاتے غنڈے ایک ایسا تضاد ہے جو اگر معاشرتی حقیقت بن جائے تو انصاف ختم ہو جاتا ہے۔ انصاف شہریوں کی موجودگی سے ہی بہتر ہوتا ہے۔ شکیل صاحب کراچی سے لکھ رہے تھے۔ ان کی داستان میں غنڈہ گردی کے اوصاف کے سلسلے پھیلے ہوئے تھے اور کراچی میں الطاف حسین اور دوسروں کی وجہ سے غنڈہ گردی فروغ پا رہی تھی۔ یعنی داستان حقیقت کی والدہ ماجدہ بنی ہوئی تھی اور دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کی تعریفوں میں گم تھے، لیکن لوگ قتل ہورہے تھے، اِغوا ہو رہے تھے، ان سے بھتے وصول کیے جا رہے تھے اور ان کی عزت جان اور مال محفوظ نہ تھے۔

آپ اپنے شہر میں غنڈہ گردی دیکھ رہے ہیں، اس کے نتائج بھی دیکھ رہے ہیں، پھر بھی غنڈہ گردی کی عظمت میں ایسے ایسے پوائنٹ ڈھونڈ کے لا رہے ہیں کہ غنڈوں کے پوبارہ ہو جائیں۔ ایسے میں کچرا سے صحافی تو شاید اردو دانی کے شوق میں دیوانے ہو جائیں مگر جون بھائی سے مقابلہ نہیں ہو سکتا، جون بھائی جو غنڈوں سے پِٹتے رہے لیکن بات انسانیت کے حق میں ہی کی۔

پھر خواتین کی وہ سٹیریو ٹائپنگ، پھول سے بنی ہوئی ریشم میں گُندھی ہوئی ولیہ جو غنڈوں کے سینے سے لگ کر سسک سسک کے روتی ہے اور اس کی چار سو چالیس رقیبائیں ہیں مگر اس میں اتنی خود داری نہیں غنڈے پر لعنت بھیج کر اپنے لیے کوئی شریف سا عاشق ہی ڈھونڈ لے۔ تمھی کہو یہ بھی کوئی بات ہے؟

ادھر اپنے جون بھائی ہیں ایسا برابری کا برتاؤ کرتے ہیں کہ ان کی معشوقہ کو اپنے لیے اچھا سا عاشق ڈھونڈنا ہی پڑتا ہے۔ کیا کریں، ہم سے رہا ہی نہیں جاتا ورنہ آج ہمارا یہی مُوڈ تھا کہ جون بھیا کا قصیدہ کہیں اور شکیل صاحب کی مذمت۔


مزید دیکھیے: 1۔ گرو جی ہمیں ان شاعروں سے بچا لو

ایک لکھاری کی گفتگو

میر صاحب، جون ایلیا، اور فانی بدایونی کا ایک مذاکرہ

میراث مسلسل توجہ اور پیار مانگتی ہے


بنیادی مسئلہ وہی ہے جو اردو لکھنے والوں میں سر سید کی تحریک کے اثر کے کم ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ لفاظی بہت اچھی ہو گئی، پڑھائی لکھائی کی وجہ سے پردیسی ادب کی موجودگی بڑھ گئی، لیکن زندگی کی تفہیم نہیں ہے؛ اور زندگی کی تفہیم کی عدم موجودگی کے نتیجے میں جمہوریت بھی نہیں ہے۔ اور جمہوریت کی عدم موجودگی کی وجہ سے قانون سے وابستگی کم ہے۔ اس لیے جو قانون پامال کرتا ہے وہ راہ نُما ہے۔ اور شکیل بھی اپنی داستان میں اسی مرض کے مریض ہیں۔

بہ ہرحال کچھ صحافی نے انھیں اردوئے معلّٰی کا دیوتا بنا دیا ہے۔ انھیں چاہیے کہ ساتھ میں بانو مرضیہ کا گانا بھی چلا دیا کریں کہ ساختم بتی دیشب با مرمر رُویائے خود۔ کہ اپنے سپنوں کے مرمر سے تیرا بُت میں نے بنایا۔ مگر ان صحافیوں کے پاس رویا کہاں اور مرمر کہاں۔ لے دے کہ بس غنڈہ گردی رہ جاتی ہے اور شکیل صاحب نے اپنے رویا کے مرمر سے غنڈوں کے وہ بت تراشے ہیں کہ غنڈے نجات دہندہ دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہ ہوتا ہے کہ غنڈے نجات دہندہ دِکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن نجات دہندہ بن نہیں پاتے کیوں کہ نجات اور غنڈوں کا آپس میں کوئی ناتا ہی نہیں۔