میر صاحب، جون ایلیا، اور فانی بدایونی کا ایک مذاکرہ (مزاح)

برگد کے درخت کے نیچے، ایک جوہڑ کے پاس

میر صاحب، جون ایلیا، اور فانی بدایونی کا ایک مذاکرہ
میر صاحب، جون ایلیا، اور فانی بدایونی کا ایک مذاکرہ
(نصیر احمد)
جون: میر بھیا ،کچھ سنا، کیا آفت آئی ہے، کیا مصیبت بنی ہے، بتاتے ہوئے دل ڈوب رہا ہے۔
میر : دل کو ذرا ڈوبنے دو، ڈوبتے دل کی شناوری کے دوران ہر غوطہ ملکوتی ہے، رکتی ہو ئی سانس لاہوتی ہے، اس کا لطف لو بیٹا اور طاغوت فرحت کے ناسوت سے اپنا ڈوبتا دل بچا لو، ورنہ کسی کو دینے کے قابل نہیں رہے گا۔
فانی: سبحان اللہ، اس بات کی اذیت کی اگر داد نہ دوں ،تو شاعر نہ جانو، سو کوڑے بھی پڑتے، تب بھی اتنا مزا نہ آتا۔ لیکن یہ بات، اس نے تو تشنگی کو توانا کر دیا، مینوں مار کے منج کر، نکی کر کر کٹ۔
جون: یہ فانی بھی ناں، میر بھیا بات تو سنیں؟
میر : جون پیارے، سنیں گے ، لیکن ذرا آسمان کی طرف تو دیکھو، وہ سامنے جو بادل ہیں، ان مکروہ روشن اور سفید بادلوں کے درمیان وہ سیاہ سا ٹکڑا، شب ہجر ہے کہ مار سیاہ
فانی: ہیہات، وائے ،ہائے ، آہ ، روح میں زہر سا پھیل رہا ہے ، لوڈ شیڈنگ سی ہو گئی ہے، اللہ کرے اس لوڈ شیڈنگ میں زہر پھیلتا رہے، اور میرا دم گھٹ جائے،جون بھیا تم تو سنگچور سانپ سے
بھی زہریلے ہو، مجھے ڈس لو، تاکہ زہر اور بڑھے، شمس و قمر ٹوٹ کے گریں، اور ہر طرف گھپ اندھیرا ہو جائے اور میری سانس ٹوٹ جائے تاکہ اس بے وفا کی آنکھوں میں کم از کم آنسو تو آئیں۔
جون: یہ تو ہے، میرے کاٹے کا تو منتر بھی نہیں لیکن مجھے خوف ہے، تمھیں کاٹا تو میری آنکھوں میں بھی سیلاب اتر آئیں گے، میں اور زہریلا ہو جاؤں گا اور وہ بیچاری سہہ نہیں پائے گی، ہنستی ہنستی آتی ہے تو میں اسے وہ جلی ہوئی غزلیں سناتا ہوں کہ وہ شرمندہ ہو کر اپنے بال نوچنے لگتی ہے، میرے پاؤں پڑتی ہے، دھاڑیں مارمار روتی ہے اور ہنسنے پر اتنا نادم ہوتی ہے ، سچ پوچھو، اسے غزل کی دھونی دینے میں وہ تسکین ہے ،وہ تو فانی بھیا تمھیں خنزیروں سے معانقے میں بھی میسر نہ ہوگی۔
میر: تم نے بھی کیسا صنم تراش لیا ہے، اے بے چارگی کے تعفن کے عظیم مصور
جون: ارے میر بھیا ، اصلی ہے
فانی( ہڑبڑا کر) اصلی ،یعنی گوشت پوست، یعنی جسم، یعنی مادہ، یعنی، الیکٹران، پروٹان، نیوٹران، خلیے، ریشے، بافتیں،عضلات، اعصابی نظام، یعنی مادہ، چہرہ، آنکھیں، ساق سیمین، نور کا دو شاخہ؟
جون: ارے فانی بھیا، یہیں رک جاو، نور کا ذکر کر کے کیوں اپنی ریاضتوں کو ضائع کر رہے ہو؟
فانی:جون ، مجھے شروع سے ہی اس بات کا شک تھا کہ تمھارا غم اصلی نہیں ہے، تم نے اندوہ الم کو لذات سے پامال کر دیا ہے، تم نے غم کی ابدیت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، تم نے شاعروں کا تمسخر اڑایا ہے، تم راشد کی طرح دنیائے غم کے غدار ہو،تمھارا آج سے بائیکاٹ
میر: فانی کی بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی، یہ اردوئے معلی میں پتا نہیں کس کرخت لہجے کی ملاوٹ کر رہا ہے، لیکن جون یہ اصلی جسم کی طرف تمھارے بڑھتے قدموں کی منزل وصل ہے، وصل جو روح کو آلودہ کر دیتاہے اور غم کو پیچیدہ، یہ بڑھتے قدم روک لو، ورنہ برادری سے بارہ پتھر کر دیں گے۔
جون: ارے میر بھیا، آپ بھی کس کی
باتوں میں آگئے، میں ابھی غیب غیب کی بات کر رہا ہوں، اصل کی ایک نقل جو اصل کی طرح دکھتی ہے، اک قد آدم تصویر ، ایک حسین چہرہ، جس کو دیوار کے ساتھ لگا کر ڈارٹس کے ساتھ نشانہ بازی کرتا ہوں، جب آنکھیں ادھڑتی ہیں، چہرہ بگڑتا ہے، گالوں میں کھڑکیاں بنتی ہیں، ناک چرتی ہے، ماتھا بکھرتا ہے، تب مجھے وہ سرور ازلی ملتا ہے، جس کے لیے نوابزادہ تڑپتے تڑپتے مر گئے۔
میر صاحب، اف توبہ،تم تو حسن کے ساتھ ایسی تخریب کاری کرتے ہو، شکر ہے، تصویر ہی ہے، ورنہ تم تو جیک دا رپر سے بھی خوفناک ہو،مگر تمھاری ہولناکی میں وہ ادا ہے، جس سے مرداروں کے گرد جمع گدھ بے وصف ہیں،تمھاری دہشت خیال میں وہ وسعت ہے، جس میں تمھارے افکار گیدڑوں کی طرح ہر وقت ہو کتے ہیں، اور تمھارے ذہن کے تعفن کے صحن میں لڑتی بلیوں کی آوازیں، تمھارے تبسم سے نفرت کرتے تخیل کے بھونکتے کتوں سے ملتی ہیں،تو وہ غزل ہوتی ہے، جس کو پڑھ کر تشنج، خسرہ، تپ دق، خناق، پولیو اور مرگی جیسے امراض لاحق ہوتے ہیں کہ روح انسانی کبھی ایڑیاں رگڑتی ہے، کبھی سر پٹکتی ہے، کبھی دانت پسیتی ہے، کبھی بے وجہ ہی چیختی ہے اور ساری فضا میں ایسی سڑاند پھیلتی ہے، کہ سیر باغ شوق فضول اور الفت ناکام بن جاتی ہے۔
فانی: آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں( ساتھ ہی کیچڑ سے بھرے قریبی جوہڑ میں چھلانگ لگا دیتے ہیں اور کیچڑ میں لت پت لوٹنے پوٹنے لگتے ہیں)
جون( کچھ کھسیا کر) میر بھیا، آپ نے میری ندرت خیال کو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی بیان کر دیا ہے، خیر آپ رونے والوں کے امام ہیں اور غزلوں میں سادہ سا کرب ہے جو ہر کسی کی سمجھ میں آ جاتا ہے جس کے نتیجے زیادہ تر لوگ چارپائی لگ جاتے ہیں۔اور ہسپتال میں اگر آپ کی غزل کوئی گنگنا دے، تو کوئی بہت ہی ڈھیٹ مریض ہو گا، جو ہسپتال سے صحت یاب ہو کر واپس آجائے۔یہ زندگی کا کریا کرم کرتا، جنازہ پڑھتا غم جس کے نتیجے میں زہر دے کر مارنا اپنائیت کا سب سے سندر روپ لگتا ہے، آپ کا ہی کمال فن ہے۔
فانی: (جوہڑ سے چیخ کر) لیکن جون بھیا ، وہ برج خموش میں لاشوں کو نوچتا کاٹتا، آپ کا جمال فن، جس کے بارے میں سوچ کر ہی محسوس ہوتا ہے، جیسے سہیلیاں چٹکیاں لے رہی ہیں۔
میر: یا جیسے چیونٹے کاٹ رہے ہوں۔
جون: ابے بڑا میر بنا پھرتا ہے، یہیں استرا لے کر تمھارا مونڈن کر دوں گا، ابھی کوئی ایسی سڑی ہوئی، مری ہوئی، بسی ہوئی ، گلی ہوئی پھینکتا ہوں، کہ سڑک پار والوں کو بھی غصہ آجائے گا۔
فانی:(جوہڑ سے نکل آتے ہیں) ارے جون بھائی، یہ کیا؟ دیکھتے نہیں میر صاحب ہیں، بزرگ ہیں، میرزا نوشہ، ناسخ، آتش ،سب مانتے ہیں، ایسا نہیں کرتے یار، تم ذرا اور اونچا بولے، میری تو روح پرواز کر جائے گی، اب جان لو گے کیا؟ اور اگر میں مر گیا، تو تمھاری سڑی ہوئے کسی کمینے کی روح کی طرح بھٹکتی رہے گی، میری جان میر صاحب سے معذرت کر لو۔
جون: (شرمندہ ہو کر) ارے میر بھیا ، معاف کر دیں، یہ سالی کرانچی، جب سے غنڈوں کے ہتھے چڑھی ہے، درجے اور مرتبے کا پاس ہی نہیں رہا۔
میر صاحب: کوئی بات نہیں جون، تیر نگاہ، شمشیر نظر سہتے رہے ہیں ، یہ سڑی ہوئی بھی سہہ جائیں گے، لیکن کاٹ بہت ہے، یا شاید کاٹنے میں تم کو بہت لطف آتا ہے۔ اپنے فانی کو دیکھ لو، اس کی غزلیں معشوقوں کے پیروں میں لوٹتی رہتی ہیں،اور جوتے کھا کھا کر چیاوں چیاوں کرتی رہتی ہیں اور جس دن جوتے نہ پڑیں، ساری رات درد ہجر میں ڈوبی صدائیں بلند کر کے لوگوں کی نیندیں حرام کر تی ہیں اور جب تک کوئی دوچار انھیں رسید نہ کر دے، تب تک خاموش نہیں ہوتیں۔
جون: اگلے وقتوں کے میر کی گہری باتیں، مزہ ہی آگیا، لیکن میں بھول ہی گیا، آپ کو بتانا کہ حکم آیا ہے سزا کا، آج ہمیں ہر حال میں ہنسنا ہو گا۔
فانی: یعنی ہنسنا، یعنی کھلکھلانا، یعنی مسکرانا، یعنی جبڑے کھول کر دانت دکھانا، یعنی آنکھوں میں روشنی کی کرن؟ ( اور ایک دلدوز چیخ مار کر بے ہوش ہوجاتے ہیں)۔
میر: یہ ضرور اس نا ہنجار جوکر کی سازش ہے( اور برگد کے تنے میں گھسنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں)
جون: اف یہ جوکر بھی کیا مصیبت ہے( اور منہ پھلا کر ڈارٹس کی جعلی سی پریکٹس کرنے لگتے ہیں)۔