فطری زاویہِ قانون بقائے مادہ

حصہ اول

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش
فطری زاویہِ قانون بقائے مادہ
(ایچ بی بلوچ)

مادے کی سادی حالتوں میں ان کے اصول سمجھنے کے لیئے ہمیں کچھ رواجی اور معمول کے تصورات میں ترمیم کرنی ھوگی۔ جیسے ہم منطق کے بارے میں یہ تصور کریں کہ منطق سے  ہمیشہ مطلق اصولوں کے تحت کام لیا جاتا ہے. مگر مادے کے کائناتی قوانین میں مطلق منطق کا کوئی اصول مستقل نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد ہے ہمیں اپنے منطق کو مطلق توازن سے علیحدگی اور بے توازن سادگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا. تاکہ ہم نتائج کے حوالے سے حقیقت شناسی کا مظاہرہ کر سکیں۔
کبھی کبھی سائنس اور فلسفے کے بارے میں ہماری مثالیں ہرگز سائنسی اور فلسفیانہ نہیں ہوتیں۔  جس طرح ارشمیدس نے کہا تھا کہ.. میں زمین کو حرکت دے سکتا مگر مجھے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت ہوگی . یہ ناممکن ہے کہ زمین کی کشش ثقل متبادل بیرونی سہارے کو برداشت کرے. اس کا مقصد یہ ہے کہ اپنی دریافت کی اس محدود طاقت کی مثال دے رہا تھا جسے بڑے پیمانے پر مادی قوانین اجازت نہیں دیتے. یا جس طرح آئن سٹائن کے خیال میں اگر کوئی جسم روشنی کی رفتار سے حرکت کرے تو وقت پر اثر انداز ہوگا. مگر حقائق اس طرح کہیں گے کہ کوئی جسم صرف روشنی میں تبدیل ہوجانے کے بعد ہی یہ رفتار طے کر سکتا ہے. تخیلاتی ٹرین جو روشنی کی رفتار سے حرکت کرے کسی بھی طبعی کیمیائی جیومیٹریکل قوانین کو کچل سکتی ہے.کیا یہ اتنی رفتار کے بعد زمین کے ساتھ اپنی کشش کا تعلق برقرار رکھ پائے گی. ہم سمجھتے ہیں کہ مادہ روشنی کی رفتار سے حرکت کرے تو توانائی میں تبدیل ہو جائے گا۔

مگر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ مادہ توانائی میں تبدیل ہوجائے تو روشنی کی رفتار سے حرکت کر سکتا ہے۔ اگر ہم یہ بھی خود تسلیم کریں کہ روشنی کی رفتار مستقل ہے اور کوئی جسم اس کی مساوی حرکت نہیں کر سکتا تو کسی جسم کو  روشنی کی رفتار کی فرضی مثال دینے کا منطق غیر جواز ہے۔
عموماً جب ہم کچھ غلط محسوس نہیں کرتے تب تک ہم کچھ اچھا بھی نہیں کر سکتے. اور بعض اوقات ایسا بہی ہوتا ہے ہم صحیح کو غلط سمجھتے سمجھتے غلطی پر بھی ہو سکتے ہیں. عقل ایسا پہاڑ ہے جس پر چڑھا ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ اس نے پہاڑ کو تسخیر کر لیا ہے۔

ہمیشہ غیر معمولی حماقتیں سمجھدار لوگوں سے ہی ہوتی ہیں. یہ ایک سمجھدار لوگوں کا عہد ہے اس عہد میں ایک طرف بے انتہا طاقت تو دوسری جانب بے انتہا مفلسی ہے. مہذب جنگیں  ..imagine made نظریات کے داؤ پیچ کے  بیچ ایک مصنوعی مدلل  لفاظی ہیں۔
اجتماعی عدل کی اساسی اہمیت کیا ہے؟ فلسفیانہ بنیاد اور اقدار اپنی اس خوبصورت دنیا سے خانہ بدوش کیونکر ہو سکتی ہیں؟ سائنسی نظریں دوسرے گرھ اور سیاروں پر زندگی ڈھونڈنے پر کیوں ڈٹی ہیں؟ کیا ہم نے اس کرہ ارض کی زندگی کو زندگی سمجھنے کی کبھی  جرات کی ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر سوچنے کی حماقت پر شاید فلسفے کی عہد نو ہونی چاہئے.  مگر یہ تب ممکن ہے جب ہم معمولی یا غیر معمولی فرد ہونے کےنتائج سے بے پروا ہو جائیں۔ ہمیں طاقت کو عقل کے بنیاد پر سمجھنا چاہئے. ورنہ فطرت میں طاقت اظہار ہمیشہ سمجھداری اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری سے بھی نہیں ہوتا۔

سبقتِ باہم

پوری کائنات نسبت اور  اپنی ذاتی  مادی بقا کے لیئے سبقتِ باہم کے اصول کے تحت وجود رکھتی ہے۔ جو ان کے ایک باہمی انحصار کے نظام کی موجد بن جاتی ہے. با سبقت اور نسبتی رفتاروں کو صرف مجوزہ یا منتخب شد چند تجرباتی مشہودات کے تحت چنیدہ سیاروں کشش کے اصولوں کے تحت بہتر تجرباتی نتائج حاصل کیئے جا سکتے ہیں۔ بہتر شاہد خود مشہود ہوتا ہے۔ باسبقت نظام میں کوئی چیز غیر نسبتی یا مطلق نہیں ہو سکتی. تو کوئی مطلق غیر جانب دار اور مستقل تجرباتی کسوٹی انتہائی مشکل ہے۔

مادے کے ہونے کا رد عمل

مادے کے مکان میں ہونے کا رد عمل یا مادے کی مکان میں ہونے کی سبقت اتنی سادی ہو سکتی ہے کہ ہمارا تصور کسی واضح تصویر کشی کرنے سے قاصر معلوم ہوتا ہے۔ رد عمل کا اتنے سادہ تصور کو یا تو ایک پاگل یا ایک سائنسدان ہی  ثابت کر سکتا  ہے. لیکن فلحال ہمیں تصور کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ کسی جسم کی ماہیت مقدار یا کثافت کے تناسب سے مکان کو اپنے مرکز کی طرف کشش کا عمل ہو سکتا ہے. اگر کثیف جسامت اپنے رد میں بے پناہ کشش کا مظاہرہ کرے تو خود اس جسم یا مادے کو ایک نئی ترتیب دینے کے لیئے خود کو توڑنا پڑیگا. جسے اپنے ہونے کا رد عمل کہا جا سکتا ہے. یا مادے کے بنیادی ذرات کا مادے کی کل خاصیت میں کشش کا مظاہرہ. بحرحال یہ سبقت کی وضاحت تصور کیا جا سکتا ہے. یہ کشش کا اظہار سبقت کی صورت میں ستاروں گرھوں یا اپگرھوں کا ایک با سبقت نظام تشکیل دے پاتا ہے. جہاں پر فطری ترتیب بے ترتیبی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی دراصل بے ترتیبی ایک نئی ترتیب کو جنم دیتی ہے. بے ترتیبی مجموعی حالات کی وہ تبدیلی ہے جو ترتیبوار واقعات کا باعث ہے. ہم صرف ایک سادہ فلسفیانہ تصور کر سکتے ہیں کہ شاید روشنی جیسا لطیف مادہ مکان کو اتنی کم کشش کر پاتا ہو اس لیئے ہو سکتا ہے کہ اس وجہ سے یہ اس کے تیز رفتار حرکت کی انتہا ہو۔

مادی فطرت  اپنے اوپر غیر ضروری بار نہیں لادتی

اس حوالے سے ایک فلسفیانہ خیال وقت کی مادی حالات پر اثراندازی کی تردید کر دیتا ہے۔ مکان اور مادے کے باہم تعلق  میں زمان کے غیر مادی تصور کی کوئی گنجائش محسوس نہیں ہوتی. دراصل کائنات کے قوانین خود مادے کے خواص میں  پیدا کردہ مادے کے وہ مطلق اور کسی حد تک غیر مطلق عوامل ہوتے ہیں جو مادے اور مادے کی کارگردگی کا تعین کرتے ہیں. ان قوانین کی کمی زیادتی خود مادے کی حالت کی پیداوار اور تشکیل کی نشاندہی کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا.  مادی اجسام اپنی جامعیت میں بقا رکھتے ہیں اس طرح کائنات اپنی جامعیت میں بقا کے اصول رکھتی ہے. یہ بقا دراصل مادے کے حق میں تبدیلی کی تاریخ ہے۔  سمجھنا چاہئے کہ مادہ خود اپنے قوانین کا ماخذ ہوتا ہے جس طرح کشش ثقل مادے کی مادی خاصیت ہے جو مکان میں مادے کی بقا کو ممکن بناتی ہے۔
مادے کی مکان میں کشش یا کشش ثقل اور مادے کی تغیر اور باہم کشش سبقت اور حیاتیاتی مادے کی تغیر و ارتقا پر وقت کی بظاہر کوئی بھی مداخلت محسوس نہیں ہوتی ماسوائے کشش ثقل کے۔  اس طرح تو  ہم مکان میں مادے کی حرکت کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں. سائنس نے اب تک وقت کے رکنے کی کمی زیادتی کی تعریف روشنی کی رفتار کے حوالے سے کی ہے. روشنی کی رفتار   میں دوسرے اجسام کی حرکت کی نسبت صرف تفریق ہے کہ یہ اپنی حرکت کے حوالے  سے نہایت کم وقت مرتب کر پاتی ہے۔ اس محدود وقت میں دوسرے اجسام اس کی حرکت کا مقابلہ نہیں کر پاتے. وقت کے رکنے سے کیا مراد ہے؟ آخر کون سا وقت رک جاتا ہے. یا یہ کہ روشنی کی رفتار کو ممکن بنانے کے لیئے زمان اور مکان کا فریم نامناسب ہے. یا یہ کہ روشنی کی رفتار کی آزادانہ حرکت کے لیئے مکان میں زمان کی مخصوص تفہیم ضروری نہیں ہے.  کیا زمان اور مکان ایک مظہر کی دو الگ الگ تعریفیں ہیں؟ کیا وقت کی کوئی ذاتی تعریف نہیں ہے۔
لیکن جس سوال کا جواب نہیں ہوتا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے جواب پر سوچنے کی کوئی پابندی نہیں ھوتی. ہم تصور کرسکتے ہیں کہ کسی مادی جسم کی کمیت کشش.. اور کشش ثقل میں مادے کی کمیت اور توانائی ہی حرکت کا دورانیہ متعین کرتی ہے.  اس طرح ہم کسی پیچیدگی کی بات نہیں کر رہے بلکہ یوں کہیے کہ کرہ ارض پر موجود مادے کی تغیر و ارتقا کشش ثقل کے اثرات سے ماورا نہیں ہوتے. کرہ ارض پر موجود مادے کی ارتقائی عمر کا تخمینہ اس مادے کی کمیت اور بقائے مادہ کے اصول سبقت  کے زیر اثر طئے پاتے ہیں۔
مثلاً زمین اور بلیک ہول کی کشش ثقل اپنی کمیت کے بنیاد پر مختلف ہے تو ان کی ایک دوسرے کی نسبت سے مادے کی حرکت و تغیر مختلف ہوگی. اگر چاند پر کشش ثقل مادے کو آزادانہ حرکت و تغیر ممکن بناتی ہے تو بلیک ہول کی کثیر کشش ثقل مادے کی تغیر و حرکت کو جامد کر دیتی ہے. روشنی کی رفتار بلیک ہول کی بقا کا حصہ بن جاتی ہے.  اور یہ وقت کے رکنے کی وضاحت ہے.  یا کشش ثقل کے بنیاد پر مادے کی حرکت کا دھراؤ کے مزید امکان نہیں بچتے. یہاں پر  بلیک ہول کی داخلی حرکت کو متعین کرنے کے لیئے وقت کا تصور ناپید ہو جاتا ہے . کیونکہ وقت کے اضافیت کی بنیاد روشنی کی رفتار کی نسبت سے ہے. اس زمان کی وضاحت نہایت عجیب ہے جو رفتار کی نسبت سے کم پڑ جائے۔  یا رک جائے۔  یہ عندیہ مادے کی مکان میں مزید حرکت کو ممکن نہیں بناتا۔  اس سے ہم اگر ماضی یا مستقبل میں جانے کا تصور لیں تو یہ تغیر و ارتقا کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے. میرے خیال میں   Entropy ارتقا کے حوالے سے ایک ہی جواب دیتی ہے کہ ترتیب و بے ترتیبی  وقت کے تغیر میں مادہ ماضی کے جانے کے قابل اور آگے مستقبل میں جانے کے لائق نہیں ہوتا.  روشنی کی رفتار حرکت دوسرے مادی اجسام کی نسبت تیز ہے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مستقل اور مطلق ہے.  اب تو نیوٹرینو ذرات پر تحقیق ہو رہی ہے جو اپنی تیز رفتار کے ہوتے ہوئے بہی حال میں موجود ہیں۔

آئن سٹائن تصورِ زمان مادے کی محدود کشش ثقل کی نسبت سے مادی حرکت کا درست ریاضی اصول تو ہو مگر یہ وقت کے مادی حیثیت کی تعریف بالکل نہیں کرتا. زمان اور مکان کا مادے کی کمیت کی مناسبت سے  جگہ دینے کے لیئے خمدار ہونا مکان میں ایک مخصوص کمی زیادتی کا عمل ہے اس کا مقصد یہ ہوا کہ موجودہ سائنسی نظریات مادے اور مکان کے باہم کشش کے تعلق کو تسلیم کرتے ہیں. زمان مکان کے چپٹا ہونے کا تصور ہی کیوں ؟ اس کے بجائے زمان کے بغیر ایک کھلے خلا کا تصور مناسب معلوم ہوتا ہے مادے کی کے توازن بقا کے لیئے ضروری ہے کہ مادہ اپنی اطراف میں مکان کو اپنے مرکز کی طرف تجاذب کرے۔
زمان مکان کا  مادہ کو اپنی کمیت یا جسامت کے حساب سے جگہ دینے کے لئے دو تصور ضروری ہیں۔
1.مادے کی کمیت کو کمیت کے تناسب سے روکنے کے لیئے زمان مکان کا مادی تصور ہونا ضروری ہے۔
2.یا مکان میں کسی قوت کا اظہار ہو جو مادے کی کمیت کی مناسبت سے مادے کو ایک مخصوص خم تک محدود رکھے۔
یہ دونوں صورتیں شاید اکیسویں صدی کے ایتھر کے جدید تصور کا تعین کر رہی ہیں۔
اس لیئے ہمارے لیئے  شاید وقت کے تصور سے ہی ہاتھ دھونا آسان رہیگا. کیونکہ زمان کا نہ ہونا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نسبت کے حوالے سے تعریف رکھتا ہے.  فی الوقت ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جس طرح مکان مادے کی حرکت کو ممکن بناتا ہے اسی طرح مادہ اپنے تغیر حرکت و ارتقا کے ذریعہ وقت کو تعمیر کر رہا ہوتا ہے. بہرحال ہم زمان مکان کے لیئے کسی مطلقہ مضمون میں بحث کریں گے۔فطری انتخاب کے ابہامجب ہم فطری انتخاب کے بارے میں سوچتے ہیں. تو مزید سوچنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے ہمیں سمجھایا گیا ہے۔
(ارتقا کا طریقہ کار طبعی یا قدرتی انتخاب natural selection ہے۔ جو کہ ایک حادثاتی یا اتفاقی عمل نہیں ہے. جانداروں میں جنیاتی تبدیلیاں اتفاقی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ایک ہی نسل سے نسل سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں. جو جینیاتی تبدیلیاں جاندار کو ماحول سے ہم آہنگ ہونے اور اس کی بقا میں مدد کرتی ہیں. وہ اگلی نسل میں منتقل ہو جاتی ہیں. اتفاقی جنیاتی تبدیلی کا جاندار کی بقا میں معاون ہونے کی وجہ سے اگلی نسل میں منتقل ہوجانا قدرتی انتخاب کہلاتا ہے.

ارتقا کا طریقہ کار طبعی یا قدرتی انتخاب جو کہ ایک حادثاتی عمل نہیں ہے. مگر جنیاتی تبدیلی بھی کوئی اتفاقی عمل نہیں ہے.  اگر اگر اتفاق سے مراد accidentally ہے.  ہم اسے متفقہ agreed  جینیاتی کہہ سکتے ہیں. کیونکہ ارتقا خود ایک متفقہ تغیر  و  تبدل کا عمل ہے. اگر جنیات اپنے بقا survival  کے حق میں متفقہ تبدیلی کے اہل نہ ہوتی تو تو حیاتیاتی مادے کا کوئی وجود نہ ہوتا۔

بقائے حیات اپنے بہتر ماحولیاتی تحفظ میں جنیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتی ہے

جنیاتی تبدل جبلتی تبدیلی میں اپنے مادے حق میں بہتر تحفظ ہوتا ہے. تحفظ توانائی کا قانون  حیاتیاتی مادے میں ایک پیچیدہ اور بقا کی ارتقا یافتہ حیاتیاتی  شکل ہے. جسے ہم کچھ آسان لفظوں میں بقائے حیات کہہ سکتے ہیں. ہمیں سمجھنا چاہئے کہ مادے کی ارتقا یا تبدیلی اپنے وجود کے حق میں بہتر ہوتی ہے. یہ اپنے شکل و  صورت یا کسی اجتماعی عدل کے حق میں نہیں ہوتی.  مادہ اپنے بقا کے قوانین کو اپنے تحفظاتی نظام کے تحت قابل عمل بناتا ہے. یہ تبدیلی کے نتائج سے مکمل انحراف اس صورت میں کرتی ہے جب وہ اپنے بقا کے لیئے اپنے موجود وجود سے دوسری شکل میں دستبردار نہ ہوجائے.
فطری انتخاب کو سمجھنے کے لیئے ہمیں مثال دی جاتی ہے۔
فرض کیجیئے کہ ایک جنگل میں رنگ بہ رنگے پتنگے ہیں. کسی وجہ سے وہاں گرگٹ کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے. اور وہ ان پتنگوں کا صفایا کرنے لگ جاتے ہیں. کچھ پتنگے جو اتفاقی جنیاتی تبدیلی کے بعد سبز رنگ کے تھے وہ بچنا شروع ہوگئے. کیونکہ اس گھنے جنگل میں سبز رنگ زیادہ تھا کیونکہ وہ زیادہ بچ رہے تھے اس لیئے وہ سبز رنگ پیدا کرنے والے جین اپنی اگلی نسل میں منتقل کرنے میں کامیاب رہے۔
یہاں اگر ہم گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ گرگٹ کی تعداد میں اضافہ خود کسی وجہ سے نہیں ہوتی. ان کی زیادتی صرف بقا کے لیئے بہتر مطابقت و مزاحمت کی وجہ سے ہوتی ہے. گرگٹ تو جلدی ردعمل کے طور ماحول مطابق رنگ کی تبدیلی کے خواص بھی رکھتے ہیں. کچھ پتنگے تو سبز پتوں پر بنی لکیروں جیسے پروں والے بھی ہوتے ہیں. اتنی مطابقتی تبدیلیاں محض اتفاق نہیں ہوتیں. ہمیں محض اتفاق  accidentally کے تصور کی معنی ہرگز نہیں لینی چاہئیں. کہ محسوس ہو صرف پودوں کی وہی نسلیں بچ رہیں جن میں کانٹے تھے. اس طرح پودوں میں کانٹوں کا ہونا بھی بغیر کسی جواز کے ہے. گرگٹ کا بوقت حملہ اور اپنی بقا میں رنگ کی تبدیلی کو محض اتفاق تصور کرنا پڑیگا. جو کسی اتفاق سے ہٹ کر اپنی بقا میں ایک اعلی فطری مظاہرہ ہے. جس سے ہم بہتر طور پر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بقا حیات ہی جنیاتی تبدیلی کا محرک ہے. جاندار بشمول نباتات میں اپنے بقا کے ردعمل کا اظہار ایک فطری مادی مظاہرہ ہے. یہ کوئی حیرت انگیز چیز نہیں یہ ایسے ہی ہے کہ لاجونتی یا شرم بوٹی humble plant کا چھاؤ پر سکڑنا یا سمٹنا حیرت انگیز یا پرندے کا بنا ہوا گھونسلہ ہمیں کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ لگے یہ صرف ان کے لیئے ایک مناسب تحفظاتی انتظام کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ بالکل اس طرح جس طرح آک یا مدار کے بیج کے پروں کے ساتھ اڑ جانا۔
بظاہر فطری انتخاب ارتقا کے حق میں وہ دلیل ہے. جو ثابت کرتی ہے کہ جانداروں کی ماحول کی مناسبت سے مطابقتی خاصیتیں اتفاقی ہیں۔ اور یہی اتفاق جنیاتی تبدل کے طور پر بقا کا سبب بنتا ہے. مگر غور کرنے سے کچھ مزید دلائل اس بات کے حق میں مل جاتے ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیئے کافی ہوتے ہیں کہ جاندار ماحول کی تبدیلی کی مناسبت سے مطابقت اور مزاحمت رکھنے کی شعوری اور لاشعوری سادہ اور پیچیدہ اسطاعت رکھتے ہیں. دراصل یہ مطابقت ہی وہ مزاحمت ہوتی ہے جو مطابقت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے. جسے بقا حیات کہا جاتا ہے. بقا مادہ کی سادی حالت سے لیکر حیاتیاتی مادے کی حالت تک فطری انتخاب کی مناسبت اور سادی صورت میں ترقی کرتی رہتی ہے. جب بقا سادی صورت میں ہوتی ہے مشکل سے سمجھ میں آنے والی اور الجھی ہوئی ہوتی جاتی ہے. جس طرح انسان میں بقا حیات جتنی پیچیدہ ہے اسے سمجھنا اتنا آسان ہے.  مگر سادہ اور one cellular جاندار بھی اپنے بقا میں بے شمار اور مضبوط شواھد ضرور رکھتا ہے۔
ہمیں اس بحث سے اس مقصدی نکتے سے غرض تھی کہ جنیاتی تبدیلی محض اتفاقی نسل کی رکھوالی نہیں کرتی.  بلکہ جنیاتی تبدیلی محض متفقہ ہوتی ہے. جو بقا حیات کو ارتقا کے لائق بناتی ہے. اور یہ بھی سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ حیاتیاتی مادے میں بقا کے تحفظاتی اظہار صرف سبز رنگ کے پتنگے اور گرگٹ جتنے سادہ بھی نہیں ہوتے. اور دوسرا یہ کہ فطری انتخاب میں کچھ مراحل بھی ہوتے ہیں۔
1.ذاتی بقا کے تحت جسمانی تحفظاتی  اعضا یا عوامل کی تنظیم ہوتی ہے۔
2.مادے کی سادی صورتوں میں بقا کے عوامل سادی صورتوں تک محدود ہوتے ہیں۔
3.جانداروں کے تحفظاتی اظہار کی مناسبت سے ایک فطری باسبقت انتظام وجود میں آتا ہے۔
4.فطری انتخاب سے فطری تجرباتی بنیادوں پر ارتقا ہوتی ہے.
5.مصنوعی انتخاب دراصل فطری انتخاب سے اخذ شدہ ایک تجربہ ہے جو بقا کے لیئے مناسب اور بہتر نسل کی افزائش کو ممکن بنا سکتا ہے۔

بقا کے تحفظاتی مظہرات

جاندار بشمول نباتات اپنی تحفظاتی اسطاعت کے مطابق اپنے مظاہر سے مرطوب و منظم ہوتا ہے. بظاہر پتنگے کا سبز پتوں کے مشاہبہ ہونا دفاعی عمل ہے مگر یہ خود اسے شکار میں معاون و مددگار بھی ثابت ہوتا ہے. اس شکاری گرگٹ کی طرح جس کا یہ شکار ہو جاتا ہے. اس سے ایک نتیجہ اور اخذ ہوتا ہے کہ حفاظتی رجحان و اقدام دراصل حملے کا انتظام بھی ہوتا ہے. دفاع کی خاصیتیں حملے کی خاصیتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
صرف میٹھے پھل ہی نہیں کڑوے کانٹے دار پھل بھی اس پورے حیاتیاتی ارتقا میں خود کو محفوظ راستوں پر گامزن رکھتے ہیں. صرف پالتو جانور ہی نہیں سانپ بچھو اپنی حفاظتی اسطاعت کے مطابق برابر اس بقا کی جنگ میں برابر کے حصے دار ہیں. جو جتنی ھیبتناک جنگ میں خود کو بچانے کے قابل بناتا ہے وہ اتنا ہی ھیبتناک حملہ کرنے کے قابل بن جاتا ہے. انسان کے پاس تحفظاتی طور ایٹم بم کیوں نہ ہو ایک مچھر بھی اس کے خون سے استفادہ حاصل کر ہی لیتا ہے. اس طرح زندگی ریس کا وہ گھوڑا محسوس ہوتی ہے جس کی جیت سے ایک قابل سوار ہی استفادہ کرتا ہے. ہر صورت میں جیت طاقت کی ہوتی ہے.
یہ بقا حیات ہے جس نے ایک منظم حفاظتی اقدام میں ڈھل کر شعوری تحفظاتی انتظام کو جنم دیا. شعور ایک مربوط دفاعی نظام ہے. انسان کا حفاظتی نظام جتنا پیچیدہ ہے اسے سمجھنا اتنا ہی آسان ہے. یہ کسی حد تک مکمل اور تحفظاتی کمال اور دوسرے انواع سے منفرد و مختلف ہے. حواس کے با کمال نظام نے انسان کو شعوری بقا کے قابل بنا دیا۔
انسان کی خواہشیں فطری جبلت کی شعوری ترجمانی ہوتی ہیں. دوسرے جانداروں میں اس کا اظہار کسی سماجی مداخلت کو ذہنی طور پر محترم سمجھنے سے قاصر ہے. ان کی جبلت کا اظہار فوری طور پر بقا کے ردعمل کے اظہار طور ہوتا ہے. کبھی کبھی ہم بھی اپنی اس ردعمل کا اظہار بے شعوری انداز میں کرتے ہیں. مثلاً کسی غیر مانوس چھواہٹ کے احساس کے تحت بے اختیار چھلانگ لگا دینا. یا سوتے ہوئے جسم کے اس حصے پر ہاتھ رکھنا یا مسلنا جہاں پر کسی چیز کے چبھن کا احساس ہو۔
جب ہم جانداروں کی باہم انحصار اور مزاحمت کی حیثیت کو اپنی سوچ کا محور بنا کر سوچنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں ہر حیاتیاتی نوع میں اپنی ذاتی بقا میں اپنی ذاتی اسطاعت کے مطابق اپنے بقا کے خواص کا ادراک ہوتا ہے. ہم محض بقا مادہ کو سطحی طور پر نظرانداز نہیں کر سکتے.  کسی بھی صورت میں بقا…  مادی تبدیلی کا محرک ہے. ہم محض جنیاتی تبدیلی اور ارتقائی مراحل کو اتفاق کے بنیاد پر دیکھ نہیں سکتے. اس کی واضح مثال انسان کے حواس ہیں. جو اعصابی رابطے کے بنیاد پر ہمیں تحفظات کی آگاہی متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں. بنیادی طور پر ان حواسوں نے انسان کی بقا کے لیئے موزون تناسب  کو تشکیل دیا ہے. ہم سن سکتے ہیں. کسی آہٹ کو.. خوفناک غراہٹ کو… ہم محسوس کر سکتے ہیں درد کو.. ہم دیکھ سکتے ہیں نقصاندہ اور فائدہ مند چیزوں کو…. خوشگوار اور ناگوار بو کو ہم اپنے مقاصد کے ساتھ محسوس کرتے ہیں. ذائقہ اور آوازوں کے ذریعہ ہم خود ذاتی مفادات اور خطرات اور دوسرے انسانوں کے لیئے آگاہی کا سبب بنتے ہیں. جب یہ حواس مل کر تجرباتی ماضی تشکیل دے سکنے کا سبب بنتے ہیں جو مستقبل کے لیئے محفوظ یاداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔
انسان حواسوں کے احساس کے بدولت اپنے شعوری اور غیر شعوری تحفظاتی انتظام کر پاتا ہے۔ اسے ان حواسوں کی جسمانی  نوعیت کے علاوہ حملے کا کوئی خدشہ نہیں۔ ایسے کہنا چاہئے کہ اسے ان حواسات کے ذریعہ ہی متاثر کیا جا سکتا ہے۔ اگر ماحول میں سے کوئی اور نوعیت کے حملے کا   متبادل خدشہ ہوتا تو شاید بقا کے کچھ اور  عوامل انسان میں پائے جاتے. جانداروں میں ان کے بقا کے طریقوں کے علاوہ داخلی طور پر کسی حد تک ایک تحفظاتی نظام ہوتا ہے۔ جو جراثیم اور بیکٹریا سے مزاحمت کے خواص رکھتا ہے۔ انسان کی شعوری بقا اسے تمام جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔  شعور انسان کے بقا کی ایک ایسی کیفیت ہے جس کے بنیاد پر وہ مزید بقا اور طاقت کا اظہار خارجی طور مادی اشیا سے حاصل کرتا ہے. اور جیسے جیسے بقا کے طریقوں میں ترقی ہوتی جاتی ہے حملوں کے طریقوں میں بھی ترقی ہوتی جاتی ہے۔

[جاری ہے ]