یہ زمین ہمیں آنے والی نسلوں سے اُدھار میں ملی ہے

یہ زمین ہمیں آنے والی نسلوں سے اُدھار میں ملی ہے

یہ زمین ہمیں آنے والی نسلوں سے اُدھار میں ملی ہے

(ظہیر استوری)

انسان اور قدرتی ماحول کا تعلق لازم و ملزوم ہے۔ انسان اپنی آسائش کے لئے ماحول کا استحصال کرتا آیا ہے اور یہی استحصال فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی اپنے ساتھ لے آیا۔ وسائل اور ضروریات کی جنگ میں سارا بوجھ وسائل پر پڑتا ہے جس کے باعث قدرتی ماحول کا توازن بگڑتا جا رہا ہے جو کہ جدید دنیا کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک بن چکا ہے۔

21 ویں صدی کے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ دنیا کی 54 فی صد آبادی آج بھی Urbanization شہروں میں بستی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک دنیا کے دس میں سے 6 افراد شہری علاقوں میں بسنا شروع کریں گے۔ شہروں کی طرف اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے آلودگی کی رفتار دوگنی ہو چکی ہے اور یہی آلودگی مختلف مسائل پیدا کر رہی ہے جیسے کہ شور، ٹمپریچر، توانائی کا بحران، پانی کی کمی، آبی اور فضائی آلودگی۔ قدرتی ماحول میں بگاڑ کی وجہ سے سیلاب، طوفان، آندھی جیسی قدرتی آفات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان آفات کی شدت کو پاکستان سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے کیونکہ 2010 سے اب تک ہم اس کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ مون سون کے دوران سیلاب کی صورت میں لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے اور باقی کے چھے مہینوں میں خشک سالی مار دیتی ہے۔

جنوبی ایشیاء کی آب و ہوا کی خوبصورتی میں بحرہند اور ہمالیہ کے آسمان چھوتے پہاڑی سلسلوں کا کردار بنیادی ہے۔ مون سون کے دوران آبی بخارات سے لدی ہوایئں بحر ہند سے اُٹھتی ہیں اور ہمالیہ کی برف سے ڈھکی چوٹیوں سے ٹکرا کر بارش کا موجب بنتی ہیں اور یہی بارش جنوبی ایشیاء کے زرعی شعبے کے لئے نہایت ہی اہم ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کے بڑے آبی ذخائر بھی اسی کی گود میں پلتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ آب و ہوا میں تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جس کے باعث سردیوں میں سخت سردی اور گرمیوں میں سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی گرمی کی بدولت گلیشئرز پگھلنا شروع ہو چکے ہیں۔

زمین کے گرد تقریباَ 6000 کلو میٹر تک مختلف گلیشئر ایک مخصوص مقدار میں پائی جاتی ہیں اور مختلف خصوصیات کی حامل ہیں۔ ان میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ ٹوٹل گئیسز کا 0.03 فی صد ہے جس کی خاصیت حرارت کو اپنے اندر جذب کرنا ہے۔ زمین سمندر کے مقابلے میں جلدی گرم اور جلدی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ دن میں سورج کی شعاعیں براہ راست زمین پر پڑتی ہیں اور رات میں وہی حرارت زمین خارج کرتی ہے تو فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اسے جذب کر کے درجہ حرارت کو برقرار رکھتی ہے۔ مختلف انسانی سرگرمیوں کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اس مقدار میں اضافہ ہوا ہے جس کی بدولت زمین کے درجہ حرارت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ درجہ حرارت کے اسی اضافے کے باعث سطح زمین موجود برف اور گلیشئرز پگھلتے ہیں اور یہی پگھلاؤ سیلاب اور طوفان جیسی آفتوں کا باعث بنتے ہیں۔

ایک روزن لکھاری
ظہیر استوری ، صاحب مضمون

 

شہروں کی آبادکاری کی خاطر سر سبز کھیتوں اور خوبصورت وادیوں کو توڑ پھوڑ کر سیمنٹ اور کنکریٹ کی عمارتیں کھڑی کی جاتی ہیں جہاں دنیا کی ساری سہولتیں تو موجود ہوتی ہیں مگر ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ان سہولتوں سے بھرپور رہائشی منصوبوں کے ذریعے ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔ ٹریفک کا شور، آبادی کا دباؤ، صنعتی آلودگی اور مختلف بیماریوں کا پھیلاؤ وغیرہ وغیرہ اسی “ترقی” کی مرہون منت ہیں۔ اس ترقی کی بدولت ایکو سسٹم متاثر ہوتا ہے جس کے باعث جانور اور پرندے ناپید ہوتے جارہے ہیں اور جنگلات اور زمینی کٹاؤ کے باعث زرخیز مٹی بنجر زمین میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر انسانی سرگرمیاں بھی ان آفات کی ذمہ دار ہیں۔ بڑے شہروں میں گلی محلے سے کر سڑکوں تک پلاسٹک اور کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں جنہیں یا تو آگ لگائی جاتی ہے یا تو پورے گلی، سڑک پر پھیلی پڑی ہوتی ہے۔ ہر شہر میں لوکل ادارے تو موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ایسے مسائل سامنے ہوتے ہوئے بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور زہریلے کیمیکلز روزانہ ہزاروں ٹن کی مقدار میں سمندر میں بہایا جاتا ہے جس کی وجہ سے سمندری حیات بھی ناپید ہوتی جارہی ہے۔ کراچی کے ساحل کچھوؤں کے لئے دنیا کی بہترین جگہوں میں سے ایک ہے مگر ساحلوں پر ان ساحلوں پر بھی ہر جگہ آپ کو کچرے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ کچھوؤں کے انڈے شکل میں مرغی کے انڈوں سے ذرا سا مختلف ہوتے ہیں اور عام آدمی ان کو پہچان نہیں سکتا ہے۔ کچھوؤں کے بریڈنگ سیزن میں مافیا انہی انڈوں کو اُٹھا کر مارکیٹ میں لے آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نسل بھی کم ہوتی جارہی ہے جو کہ ماحول کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔

ایک امریکن کہاوت ہے “زمین ہمیں وراثت میں نہیں ملی ہے بلکہ ہمیں آنے والی نسلوں سے اُدھار میں ملی ہے” اس کہاوت میں قدرتی ماحول پر انسان کے سارے ظلم و ستم کی داستان مخفی ہے۔