ہمارے سماج کے بنیادی مسئلے کا مسئلہ

(ناصر عباس نیرّ)

کسی سماج کے مسائل کو اس سوال کی مدد سے سمجھنا کہاں تک صائب ہے کہ اس کا بنیادی مسئلہ کیا ہے ؟بنیادی مسئلے کے سیدھے سادے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ مسائل کا انبوہ موجود ہے، جن میں سے ایک مسئلہ مرکزی، اساسی، اور بڑا ہے ۔ گویا ایک مسئلہ جڑ ہے ،اور باقی سب مسائل اس کی شاخیں ہیں۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل کرلیا جائے تو باقی مسائل اس کے نتیجے میں حل ہوجائیں گے؛ جڑ کا علاج ہو جائے تو سوکھی شاخیں خود بہ خود ہری ہوجائیں گی۔ سماج کے مسائل کو اس طریقے سے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش میں اصولاً حرج نہیں، لیکن دقت یہ ہے کہ جسے ہم بنیادی مسئلہ کہتے ہیں، اس پر ایک سماج کے سب لوگوں کا اتفاق عام طور پر نہیں ہوتا،اور نہ ایک شخص ہر وقت ایک ہی مسئلے کو بنیادی مسئلے کے طور پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔ جسے ہم ’بنیادی مسئلہ ‘ کہتے ہیں، وہ مختلف لوگوں کے لیے ، مختلف حالات میں مختلف ہوتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم اپنے ذہن میں بنیاد، جڑ، اساس کا ایک تصور رکھتے ہیں، لیکن اس تصور کا اطلاق ایک وقت میں کسی چیز پر کرتے ہیں، اور دوسرے وقت میں کسی اور چیز پر۔ ہمارے ذہن میں مرکز ، جڑ ، بنیاد کا تصور باقی وبرقرار رہتا ہے، لیکن اسے باہر اپنا مثل ،اپنا ظل یا اپنا معروض تلا ش کرنا پڑتا ہے، اور باہر مسلسل دگرگوں حالت میں رہتا ہے، بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں دگرگوں حالت میں رکھا جاتاہے۔ باہر اتنے زخم نظر آتے ہیں کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کسے بڑا زخم کہیں، اور کہاں پہلے مرہم رکھیں۔ بہ قول میر تقی میر:
یارب رکھیں گے پنبہ ومرہم کہاں کہاں

سوز دروں سے ہائے بدن داغ داغ ہے
لہٰذا ایک وقت میں شدت پسندی و دہشت گردی سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ نظر آتی ہیں،اورجیسے ہی ایک بڑا اندوہ ناک سانحہ ہماری یادداشت سے اوجھل ہوتا ہے ، اور ہم روزمرہ کی زندگی کی طرف پلٹتے ہیں، ہمیں دوسرے مسائل بنیادی نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک وقت میں محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ کچھ سوالات نہ اٹھا سکنا ہے ۔مثلاً: کیا ہم آزادی مگر پوری سچائی کے ساتھ اس ادارے، اس پالیسی ، ان پالیسی سازوں کو اپنے سوالات کے کٹہرے میں کھڑنے کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں، جن کے سبب، یا جن کی بعض تدبیروں اور تزویری مساعی کے سبب ہزاروں انسان پل بھر میں درندگی کا نشانہ بنتے ہیں؟ یا یہ سوال اٹھانا کہ جب آپ کچھ ’بنیادی سوال‘ اٹھانے کے ’بنیادی انسانی ‘ حق ہی سے محروم ہوں تو اس کے نتیجے میں ایک ایسی انسان کشی(Dehumanization) کا عمل شرو ع نہیں ہوتا، جو رفتہ رفتہ انسانوں کو انسانی مسائل ومصائب کے ضمن میں بے حس بنادیتا ہے، اور جانوروں کی طرح بس دو قت کی شکم سیری تک ان کی زندگی کو محدود کردیتاہے؟ انسانوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ جلد بھول جاتے ہیں یا کاہلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ کسی دوسرے وقت لگتا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ عورتوں اور بچوں سے زیادتی اور ان کا بہیمانہ قتل ہے۔پھر کسی وقت محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم اور معیشت ، امن وامان کی صورتِ حال، سستے اور بروقت انصاف کی فراہمی بنیادی مسئلے ہیں۔ کسی کو لگتا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ ملک کی خارجہ پالیسی ہے۔ کسی وقت کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ بدعنوان اور معمولی صلاحیت کی حامل لیڈر شپ کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور کا ہونا ہی بنیادی مسئلہ ہے۔ بعض کو لگتا ہے کہ بے حیائی، عریانی اور مقدس ہستیوں کی توہین ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کسی کو لگتا ہے کہ مغربی اور بھارتی ثقافت کی یلغار ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے،جس نے ہمیں اپنی ثقافت سے بیگانہ کردیا ہے؛ہماری ثقافت کون سی ہے؟ اسلامی یا مقامی؟ بعض کے نزدیک اس امر کا تعین ہی بنیادی مسئلہ ہے۔ کوئی امریکا کو ام المسائل کہتا ہے۔ کسی کے نزدیک مذہب سے دوری سے بڑھ کر کوئی مسئلہ نہیں، جس کے ذمہ دار سیکولر ، لبرل طبقے ، نظام تعلیم اور میٖڈیا ہیں۔ کسی وقت محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارااپنا کوئی بیانیہ نہیں، لہٰذا جب تک ہم اپنا متبادل بیانیہ تشکیل نہیں دے لیتے ، ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔کسی وقت بے روزگاری ،مہنگائی بنیادی مسائل نظر آتے ہیں۔ کسی کو کسی وقت رائج جمہوریت بنیادی مسئلہ لگتی ہے، اور کسی وقت آمریت، اور کسی وقت سرے سے جمہوریت ہی بنیادی مسئلہ نظر آتی ہے، جس کا حل وہ عسکری آمریت یا خلافت میں دیکھتے ہیں۔ بعض کو لگتا ہے کہ پاکستان میں اردو کا نفاذہی ملک کا بنیادی مسئلہ ہے؛ اگر یہ حل ہوجائے تو باقی سب مسائل حل ہوجائیں گے۔ کسی کے نزدیک مادری زبانوں کو سرکاری اور قومی زبانوں کا درجہ نہ دینا ہی بنیادی مسئلہ ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ انگریزی زبان کی استعماریت ہی سماج کا بنیادی مسئلہ ہے، کوئی قدامت پسندی کو اساسی مسئلہ کہتا ہے۔کوئی مابعد جدیدیت کو سماج کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔ تاہم ان سب مسائل کے دوزمرے بنائے جاسکتے ہیں: اچانک ظاہر ہونے والے حقیقی، مادی نوعیت کے مسائل ،اورفکری مسائل ۔ان کے سلسلے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا پہلی قسم کے مسائل بنیادی ہیں ،یا دوسری قسم کے۔لیکن ایک بات بہ ہرحال ہر کوئی تسلیم کرتا محسوس ہوتا ہے کہ اگر بنیادی مسئلہ یا بنیادی مسائل حل کرلیے جائیں تو دیگرمسائل، جنھیں وہ فروعی ،ذیلی ، ضمنی مسائل سمجھتے ہیں، وہ خود بہ خود حل ہوجائیں گے ،یا ان کے حل کی راہ ضرور ہموار ہوجائے گی۔
ان معروضات کا مقصد چندباتیں واضح کرنا ہے۔ ایک یہ کہ ہمارا ذہن مسائل میں سے ایک مسئلے کوعموماًبنیادی مسئلے کے طور پر منتخب کرتا ہے، لیکن یہ بنیادی مسئلہ مسلسل بدلتا رہتا ہے۔کبھی ایک ، کبھی دوسرا۔ یہ بات بنیادی مسئلے کے حق میں بالکل اچھی نہیں، مگر ان کے لیے انتہائی عمدہ ہے جو مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ جب آپ ایک مسئلے کو بنیاد ی کہتے ہیں تو در اصل ایک سلگتے ہوئے معاملے کو سمجھنے ، اس کے سلسلے میں سنجیدہ ہونے ، اس کے لیے تشویش محسوس کرنے ، اور پھر عمل کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ بات انھیں خوب معلوم ہے ، جو مسائل کے ذمہ دار ہیں ،چنانچہ جیسے ہی ایک بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے ،اور لوگ اسے بنیادی مسئلے کے طور پر محسوس اور شناخت کرنے لگتے ہیں، اس پر بیانات، تجزیوں، تبصروں، حقیقی یا جعلی ذمہ داروں کے تعین ،یا اس امر کے پختہ ارادے کا اظہار کرنے ، یعنی پورے میڈیائی عمل (یا تماشے ؟)کی مدد سے اس مسئلے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلد ہی وہ تفہیم ، سنجیدگی، اور تشویش تحلیل ہوجاتی ہے ، جن کا آغازمسئلے کو بنیادی سمجھنے سے ہواتھا۔ صرف چند ایک لوگ ایسے ہوتے ہیں ،جو اس ساری تدیبر کو سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ جمال احسانی کے مطابق:
مجھ کو معلوم ہے میری خاطر
کہیں اک جال بنا رکھا ہے
اس امر کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس جال کا علم رکھنے والوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہو۔ خیر،یہی عمل کسی دوسرے مسئلے کے بنیادی صورت اختیار کرنے کے ساتھ ہی دہرایا جانے لگتا ہے۔ ہم ایک منحوس چکر میں گرفتار رہتے ہیں،اور پھر ایک وقت آتا ہے ،جب ہم اس سب کے عادی یعنی بے حس ، یعنی اپنی بنیادی انسانی صفات سے محروم ہوجاتے ہیں۔صرف اپنے قریب واقع ہونے والے ہولناک واقعے سے جاگتے ہیں، جو ہمیں حقیقی طور پر خوف زدہ کردے، مگر پھر یہ خوف بھی مذکورہ میڈیائی تماشے سے جلد ہی دور ہوجاتا ہے، اورہم معمول کے مطابق تفریحی چینل دیکھتے ہیں، بڑے شاپنگ مال پر اندھا دھند خریداری کرتے ہیں، وحشیانہ طریقوں سے جنسی اعمال سرانجام دیتے ہیں، سوشل میڈیا میں گم ہوجاتے ہیں، ورنہ نیندکی گولیاں کھا کر بستر پر ڈھ پڑتے ہیں،نیز اپنی اپنی توفیق کے مطابق یورپ وامریکا کی سیر یا حج عمرے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ ہمیں یہاں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ خود ہم بھی جلد ہی بھول جانے کا میلان رکھتے ہیں، لیکن اسے اصل مہمیز میڈیا،حکمران، اور دیگر ذمہ داروں کی طرف سے ملتی ہے۔

دوسری یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ جن مسائل کو ہم بنیادی سمجھتے ہیں، انھیں ریاست ،حکومت، میڈیا اور سماج کے مقتدر طبقے پیدا کرتے ہیں ۔(آج کل بنیادی مسئلہ وہی قرار پاتا ہے ،جسے میڈیا غیر معمولی اہمیت دے، لیکن میڈیایہ کام آزادانہ نہیں کرتا ، بلکہ اسے سرکار کے سب سے طاقت ور ادارے اور تجارتی مقاصد کنٹرول کررہے ہوتے ہیں، یوں قطعاً نہیں کہ میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والا بنیادی مسئلہ ،واقعی سماج کا بنیادی مسئلہ ہو)دوسرے لفظوں میں تمام بنیادی مسائل در اصل قابل شناخت ذمہ داروں کے پیدا کردہ ہیں، لیکن ان کی شناخت کو چھپانے یا مبہم بنانے کی کوشش مسلسل کی جاتی ہے ، جس کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے ، نصابات کو خاص طرح سے تشکیل دینے، لوگوں کو جسمانی ذہنی طور پر بیمار رکھنے سے لے کر، ’لفافے‘ ،عہدے، غیر ملکی سیریں، پلاٹ، کاریں ،اور بے تحاشا ڈر،جیسے متعدد ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ان بنیاد ی مسائل میں استثناصرف ان چند شخصی مسائل کو حاصل ہے ،جن کا سامنا ہم میں سے ہر ایک کو خالص شخصی زندگی میں کرنا پڑتا ہے ، جیسے کسی عزیز کی موت، کسی سے جدائی وعلیحٰدگی، رشتوں کا ٹوٹنا اور بعض مابعد الطبیعیاتی اور وجودی نوعیت کے سوالات کی پیدا کردہ بدترین مایوسی۔
میرے نزدیک بنیادی مسئلہ ،بنیادی مسئلے کی تشخیص کے بعد اس کی تفہیم ،اور اس کے سلسلے میں تشویش کا برقرار نہ رہ سکناہے۔ کون سا مسئلہ بنیادی ہے، اس کے سلسلے میں آراء کا متنازع ہونا اہم نہیں۔ اس سلسلے میں پہلی اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کے بنیادی سمجھے جانے کا عمل آزادانہ ہونا چاہیے؛ریاست وسماج کی مقتدرہ کے بجائے عام لوگوں کے پاس یہ صلاحیت ہو،اور آزادی ہو کہ وہ یہ طے کریں کہ ان کا بنیادی مسئلہ کون ساہے؟ ظاہرہے یہ صلاحیت اسی وقت بروے کار آسکتی ہے ،جب ریاست کی اوّلین ترجیح انسانی وسائل کی ترقی ہو؛ایک ایسا نظام تعلیم و صحت جس کا مقصود تمام لوگوں کی فطری ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما ہو، ان کے یہاں تخلیقی وتنقیدی فکر کا فروغ ہو،اور اپنی منشا کے مطابق پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کی سہولت مہیا کرنا ہو ۔دوسری اہم بات، کسی بھی شخصی یا سماجی مسئلے کو بنیادی سمجھنے کے بعد، اس کی تفہیم کے عمل، اور اس کے سلسلے میں تشویش کو برقرار رکھناہے ،اور اس وقت تک برقرار رکھنا ہے، جب تک وہ حل نہیں ہوجاتا؛ یعنی یہ بات بے حد اہم ہے کہ ان سب عوامل اور عادات کے سلسلے کے خلاف مزاحمت کی جائے، جو ایک مسئلے کو بنیاد ی اور سنگین سمجھنے کے بعد اچانک اس سے لاتعلقی پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ بعض صورتوں میں بنیا دی مسئلہ ،ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے ، دیگر مسائل کے حل میں۔ ہم بنیاد ی مسئلے کی تشخیص کے چکر میں باقی مسائل سے صرف نظر کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا سماج کے مسائل واقعی ایک درخت کی مانند ہیں، یعنی ایک مسئلہ جڑ کی صورت ہے اور باقی اس کی شاخیں؟یا سماج کے مسائل میں اہم اور غیر اہم کی کوئی درجہ بندی(Hierarchy) نہیں ہوتی؟ سب مسائل ہی بہ یک وقت اہم ہوتے ہیں،اور ہر مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے کا الگ طریقہ ہے۔

بنیادی مسئلے کے سلسلے میں چوکنا رہنے کی بھی ضرورت ہے ۔ بہت سوں کے لیے شایدیہ بات چونکا دینے والی نہ ہو کہ سماج میں مسائل کے نام پر(مسائل حل کرنے کی خاطر نہیں) باقاعدہ سیاست ہوتی ہے ،مگر یہ بات ضرور چونکا دینے والی ہوگی کہ یہ سیاست بنیادی مسئلے کے نام پر ہوتی ہے۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ بنیادی مسئلے کا تصور….جو اصلی وفروعی مسائل کی درجہ بندی کا کا حامل ہے….. ہی اس سیاست کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ جہاں بھی کسی بھی طرح کی درجہ بندی کا نظام ہوگا، وہ سماجی طبقاتی ہو، فکری نظریاتی ہو، صنفی ہو،یا ادارہ جاتی ہو، اس میں لازماً ایک طبقے،ایک ادارے ،ایک نظریے،ایک مسئلے کو اشرافی حیثیت حاصل ہوگی ،اور اس کے سٹیک ہولڈرہونے کا دعویٰ رکھنے والا؍والے طاقت حاصل کر لیں گے۔ یہ طاقت کئی طرح کی ہوتی ہے ،یعنی کسی مسئلے کو واضح کرنے کی اہلیت وعلم سے لے کر،اسے حل کرنے کی حکمت عملی (سٹریٹجی) اور درکار وسائل کی ملکیت تک پھیلی ہوتی ہے ۔ سماج کے ایک بنیادی مسئلے کا علم لے کر چلنے والے ،کس قدر طاقت، مفاد،مراعات حاصل کرتے ہیں، اسے دیکھنے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) ، سیاسی جماعتوں کی وقتاً فوقتاً اٹھنے والی تحریکوں، علمی ،مذہبی ، ثقافتی تنظیموں پر ایک نظر ڈال لیں۔
راقم کی نظر میں ہر وہ بات جو مسئلے کی صورت خود کو پیش کرے، یعنی پریشانی، تکلیف، کسی نقصان، حق تلفی ،تشویش وغیرہ کا موجب ہو، اسے بنیادی و فروعی سمجھنے کے چکر سے آزاد ہوکر،اسے پوری طرح اور فوری سمجھنے اوراس کے مطابق حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ہرفرد کو اپنی اپنی استعدادکے مطابق،اور ذمہ داری کے گہرے احساس کے تحت!!

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas

1 Comment

Comments are closed.