ادب میں بین العلومیت کا تصور

ارسلان احمد راٹھور

 

اسے جدید علوم کا ایک بڑا کارنامہ سمجھا جانا چاہیے کہ ان کے ذریعے انسانی دماغ کی معمائی صورت کاا نکشاف ہوا ہے۔یہ کچھ معمولی بات نہیں کہ جس دماغ نے جدید علوم ’پیدا’ ubcr201305_Gothic_Illustration_Natasha-RebryAکیے ہیں،جدید علوم نے پلٹ کر اسی کے اسرار ہم پر کھول دیے۔یا مظہر العجائب! خیر، انسانی دماغ کا ایک بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ’ارتباطی‘(Relational)ہے؛یعنی انسانی دماغ مختلف علوم اور شعبوں کے درمیان(بسا اوقات ایسے شعبے بھی جِن میں بعدالقطبین ہوتا ہے، اور جن کی ہم آمیزی تصور سے باہر ہوتی ہے)ربط کا کوئی ایسا واسطہ/وسیلہ پیدا کر لیتا ہے کہ باید وشاید؛یعنی عین ممکن ہے غالب کا کوئی شعر آپ کے دماغ کے کسی ایسے حصے کو تحریک دینے کا باعث بنے، جو ریاضی کے مشکل اور خشک ،قضیوں سے معمور ہو یا بوہر کے ایٹمی ماڈل کو پڑھتے ہوئے جب آپ الیکٹرانک کلاؤڈ[Electronic Cloud: یعنی ایٹم کے فِکسڈ نیوکلیئس کے گرد، وہ منطقہ ،جس میں الیکٹرونوں کے پائے جانے کے امکانات موجود ہوتے ہیں، اور ذرّاتی سطح پر یہ منطقہ اپنے رقبے کے حوالے سے لامحدود ہوتا ہے]کی تفہیم میں مگن ہوں تو اچانک آپ کو مضمون آفرینی(=فِکسڈ منطقہ) اور معنی آفرینی( = لا محدود خلا) کا فرق سمجھ میں آنے لگے ۔وغیرہ۔لہٰذا انسانی ذہن کی بڑی خوبی یہی ’ارتباطیت‘ ہے، اس ارتباطیت کی نفسیاتی اعتبار سے ایک اور شکل بھی ہو سکتی ہے: مثلاً یہ ایک عام تجربہ ہے کہ کسی بڑے ذہن کی پیش کردہ تھیوری/نظریے کو پڑھ کر احسا س ہوتا ہے کہ یہ سب تو، بعینہٖ ہمارے ذہن میں بھی تھا، بس اُس کو بیان کرنے کے حوالے سے ہم سے چُوک ہو گئی، یہ بھی’ارتباطیت‘ ہی کا ایک رُوپ ہے، نفسیات کی اصطلاح میں اسے ’پس بینی تعصب‘(Hindsight Bias) کہتے ہیں۔
اس ارتباطیت ہی کی ایک واردات نے مجھے یہ تحریر لکھنے کی تحریک دی۔ پچھلے دِنوں مَیں فلکیات کے شہرہ آفاق سائنس دان ، سٹیفن ہاکنگ کی کتاب”Black Holes and Baby Universes and Other Essays” پڑھ رہا تھا تو دفعتاً کچھ صفحات پڑھ کر میرا ذہن غالب اور میر کے چند اشعار کی جانب منعطف ہو گیا؛ ان صفحات میں دراصل یہ بحث اُٹھائی گئی تھی کہ ستارے، جو آسمانِ زمین پر چمکتے دَمکتے ہیں، کیا اِن کا اصل مقام(بہ معنی Location and position) یہی ہوتا ہے یاصورتِ حال کچھ مختلف ہے، اس سے
آگے کی بحث بہت بصیرت افروز تھی، کچھ باتیں جو میرے پلے پڑیں اور میرے حافظے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئیں ، قارئین(نہ کہ ماہرین) کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ رفتار کے حوالے سے روشنی کائنات کی تیز ترین ’شے‘ ہے، روشنی کی اسی پے پایاں رفتار کے باعث مشاہدہ کرنے والے(Observer) اور مشاہدے میںآنے والے جسم(Observed) میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ فاصلہ ایسا ہوتا ہے جِسے عبور نہیں کیا جا سکتا(اسے طبیعیات کی زبان میں’Delay’ کہتے ہیں)، اسی تناظر کو ذہن میں رکھیں تو مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کی لاتعداد کہکشاؤں(Galaxies) میں سے ہماری مِلکی وِے کہکشاں کا قطر ۱۶۰،۵۴۱،۹۷۷،۸۰۵،۷۹۳،۸۸۱ میل بنتا ہے، اور اس فاصلے کو روشنی۰۰۰،۱۵۰ نوری سالوں(نوری سال یا Light Year وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ قریباً۵.۹ ٹریلین کلومیڑ کے برابر ہوتا ہے) میں طے کرتی ہے ،لُطف کی بات یہ ہے کہ کائنات کے دیگر فاصلوں کے مقابلے میں ماہرینِ فلکیات کے نزدیک یہ فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔رات کو آسمان پر نظر آنے والے ستاروں کی فاصلاتی حد زیادہ سے زیادہ ۰۰۰،۱۰ نوری سال بنتی ہے(یہ حد متذکرہ بالا مِلکی وِے کے فاصلے سے بے حد کم ہے) ، جو ماہرینِ فلکیات کے لیے زیادہ ہو نہ ہو، اور وہ آسمان کی اس ۰۰۰،۱۰ سالہ پرانی تصویر کو زیادہ پُراناسمجھیں نا سمجھیں ، ایک اَدَب کے طالب علم کے لیے یہ معلومات ایک ’فوق البشری حقیقت‘ سے اور نظر کے دھوکے سے کچھ کم نہیں، انھی فاصلوں اور قرنوں پر پھیلی مسافت کے حوالے سے میر اور غالب کے یہ چند اشعار دیکھیں تو شاعروں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’ تلامذۃ الرحمٰن‘ پر مہرِتصدیق ثبت ہو جاتی ہے:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا
(غالب)
عالم کسو حکیم کا باندھا طلسم ہے
کچھ ہو تو اعتبار بھی ہو کائنات کا
مقصود کی تلاش میں بہتوں نے چھانی خاک
عالم تمام وہم ہے یاں ہاتھ کیا لگے!
(میر)
میر و غالب کے ان(اور اِن جیسے دوسرے ) اشعار کو ’سائنسی ‘ کہنا تو مناسب نہ ہو گا، لیکن ان کے اندر سائنسی حسیت ضرور موجود ہے۔ خود ڈارون (Darwin) بھی اس سلسلے میں ادب کے وسیلے سے سائنسی حسیت کومقدم جانتا تھا،بصیرت سے لبریز اس سائنسی حسیت کی بنیاد ،تخیل پر ہے، اس حوالے سے آئن سٹائن کا یہ قول حقیقتِ حال واضح کرتا ہے:
’’تخیل علم سے زیادہ ضروری ہے کیوں کہ علم کا سروکار اُن موجودات سے ہوتاہے، جنھیں ہم جانتے اور سمجھتے ہیں جب کہ تخیل معلوم و نامعلوم تمام دُنیا کو گلے لگاتا ہے، اور’ناآفریدہ‘ حقایق کو بھی اپنے حلقۂ خیال میں لے لیتا ہے‘‘۔ کچھ اذہان کے نزدیک ارتباطیت کی ایسی کوشش شاید دُور کی کوڑی لانے کے مترادف ہو، مگر میرا خیال ہے کہ اگر ہر علم کے بُنیادی انسانی وظیفے(مثلاً ادَب کا وظیفہ ’مسرّت‘ سے بصیرت تک کا سفر ہے) سے قطع تعلق کیے بغیر، اُسے دوسرے علوم کے ساتھ وابستہ کرنے کی سعی کی جائے تو خاصے اُمید افزا نتائج ہاتھ لگتے ہیں؛اور ہم پر منکشف ہونے لگتا ہے کہ علوم کی کثرت میں وحدت کیوں کر کارفرما ہے اور علوم اپنی فلسفیانہ انتہاؤں میں اپنے وظیفے اور ماہیت میں کس طرح ہم مرکز ہو جاتے ہیں۔
غور سے دیکھا جائے تو بیسویں صدی کی حیرت انگیز سائنسی و سماجی،علمی ترقی اور پھر اکیسویں صدی میں اس ترقی کی توسیع کا رُخ اسی وحدت کی جانب ہے جس نے ماضی بعید میں علوم کو ایک مرکزے میں سمیٹ رکھا تھا۔ نفسیات میں فرائیڈ کو لیجیے ۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ لاشعور کا ذکر اس سے پہلے ادب میں موجود تھا؛نیزفرائیڈ نے دستوفسکی اور شیکسپیئر کے تحلیل نفسی پر مبنی مطالعات کیے۔ژنگ نے اجتماعی لاشعور کا نظریہ ،قدیم اساطیر کے مطالعے سے اخذ کیا۔موجودہ زمانے کے تمام بڑے مفکر رولاں بارت، دریدا، فوکو سے لے کر ایڈورڈ سعید تک ،سب کے یہاں ادب اور دیگر علوم میں ہم رشتگی کا تصور ملتا ہے۔ ابھی ہاکنگ کا تذکرہ ہوا؛ ہاکنگ نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے، کہ اُس کی زندگی کا مقصد’’محض ایک سادہ اور جامع کلیے سے ہر راز کی گِرہ کشائی ہے‘‘ ،اس کے لیے وہTheory of Every Thing(۱۹۷۹ء) کی اصطلاح کا استعمال کرتا ہے، اس تھیوری کی، جسے بعض اوقات Grand Unified Theory کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے،کائناتی سطح پر تفہیم کے لیے ایک ’جامع اور سادہ‘ کلیہ وضع کرنے کی خواہش نے پھر سے قریب قریب تمام شعبوں میں ’بین العلومیت‘ کو فروغ دیا ہے، جس کی جڑوں کو سینچا، یقیناً ارتباطیت کے رویے ہی نے ہے۔اس ساری بحث کے ضمن میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادب کی تفہیم و تعبیر(=تنقید)میں ’ارتباطیت کا کتنا عمل دخل ہے، اور دیگرعلوم کے ساتھ ادب کی جوازکاری کے سلسلے میں اس کی کس قدر اہمیت ہے!لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اردو کا عام قاری ؍طالب علم ….اوربعض نامی گرامی نقادبھی، ادب کے علاوہ دوسرے علوم کی الف اب جاننے پر آمادہ ہیں؟ان کے درمیان ارتباط کی صورتیں دریافت کرنا تو اگلا مرحلہ ہے۔

About ارسلان احمد راٹھور 2 Articles
ارسلان احمد راٹھور،شاعر، نقاد ہیں،اور جی سی یو لاہور کے شعبہ اردو میں استاد ہیں ادبی تنقید اُن کا خاص میدان ہے۔ ادب کو بین العلومی جمالیات کے تناظر میں دیکھنے کے قائل ہیں۔