ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ : مذہبی انتہا پسندی

فارینہ الماس

سماجی گروہی زندگی ایک خاص قوائد و ضوابط کے نظام سے عبارت ہوتی ہے،جہاں باہمی رضا سے خاص آداب زندگی کو صدق دل سے قبول کیا جاتا ہے ۔ مشترکہ طور پر ایک یکساں نظام قوانین پر اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے۔تشکیل قوانین کی تاریخ بتاتی ہے کہ قوانین سماج کی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھ کر تشکیل دئے گئے۔ یعنی معاشرے قوانین کی بنیاد پر نہیں بلکہ قوانین معاشرے کی ضروریات کی بناء پر بنائے گئے۔ایک زندہ و جاوید معاشرے یا سماج کے لئے قوانین و ضوابط ،اور تمام تر فکری نظام کا متحرک ہونا ضروری ہے۔تاکہ معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلوں کا احسن طور پر مقابلہ کیا جا سکے ۔فکری جمود کا شکار معاشرے رکے ہوئے پانی کے کائی زدہ تالاب جیسے ہو جاتے ہیں جن کی سرانڈ معاشرے کے ہر ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اسلام وہ پہلا اورآخری مذہب ہے جس نے قانون سازی اور آداب زندگانی کو باقاعدہ ایک بنیاد فراہم کی اور اجتہاد کے راستے کھول کر انداز معاشرت کے ہر پہلو کو ساکت ہونے سے بچایا۔یہی تحرک سماج اور سماجی فکر کو انگنت مسائل سے بچاتا ہے ۔اس تحرک کو زندہ رکھنے کے لئے معاشرے کے اعلیٰ اذہان اور اعلیٰ تحقیقی ادارے مددگار بنتے ہیں ۔خلفائے راشدین نے اپنے اپنے ادوار میں وقت اور حالات کے تحت قوانین کی تشکیل کی ۔فقہا نے شریعت اسلامی کی تشریحات پیش کیں۔

ایک دور تھا جب محض بغداد میں اسلام پر تحقیق کے ایک ہزار سے زائدادارے موجود تھے اور دینی عنوانات و موضوعات پر تحقیق و تجدید کے مراکز تقریباً پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔اور دوسری طرف پورا یورپ غفلت و جہالت کے گھپ اندھیروں میں جکڑا ہوا تھا۔جمود معاشروں کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے ۔اور تحرک معاشرے کے زمانی و مکانی رحجانات اور ضروریات کی تشریح و تجدید کرتا ہے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ کی سماجیت،فکریت اور سیاست جمود کا شکار ہونے لگی کیوں کہ تحقیق اور تجدید مفقوط ہو کر رہ گئی تھی ۔دینی مسائل بھی تحقیق اور تجدید کے بناء پیچیدگیوں کا شکار ہونے لگے۔پورا مسلم معاشرہ ایک شکست خوردہ معاشرہ بن کے رہ گیا۔ادارے زوال کا شکار ہوئے۔مسلک وعقائد انسانیت پر حاوی ہوگئے ۔ایک دوسرے سے مسلکی برتری کی لت میں مبتلا قوم ایسے اندرونی خلفشار کا شکار ہوئی کہ پھر اپنے قدموں پر کھڑی نہ ہوسکی ۔یورپی اقوام نے موقع غنیمت جان کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیا اور مسلم اقوام کو اپنی نوآبادیات بنا کر اپنے مفادات بھرپور طریقے سے پورے کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا۔یہ شکست کسی علاقے یا کسی خطے کی شکست نہ تھی بلکہ پورے عالم اسلامی کی اجتماعی شکست تھی ۔یہ ایک اجتماعی فکر اور نظام کی شکست تھی۔نو آبادیاتی نظام نے اس کے تابوت میں آخری کیل کا کام انجام دیا ۔

اب اس قوم کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو اپنی شکست کو تسلیم کر لے اور نئے سرے سے اپنے وجود کی تجدید کرے یا پھر ہمیشہ کو محکوم بن کر جینے کا طریقہ سیکھ لے۔ضروری تھا کہ پہلے والے راستے کو اپنایا جاتا اور سرسید کی سوچ سے اپنی وابستگی بھر پور طریقے سے قائم کی جاتی لیکن اس شکست خوردہ قوم نے اس کے برعکس ردعمل کا اظہار کیا کہیں کسی خطے میں آباد یہ لوگ اپنی شکست کو قبو ل کر کے آگے بڑھنے کی جستجو میں تو تھے لیکن بار بار بھٹک جاتے ، تو کہیں یہ لوگ اپنی شکست کو اوڑھ کر سورہنے پر مجبور نظر آئے۔اوراس درد بھری داستان کی ایک ستم ظریف حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی کسی گوشے میں یہ قوم اپنی شکست کو تسلیم ہی کرنے کی جسارت سے محروم رہی۔ وہ ابھی بھی اس زعم میں جی رہی ہے کہ اس کے سر کا تاج تاحال اس کے سر پر برقرار ہے اور اسکی خلعت فاخرہ ابھی تک اس کے بدن کی رونق بنی ہوئی ہے ۔کمال زعم ہے یہ کہ اسے اپنے بدن کے چیتھڑے اور مفلسی کا تاج دکھائی ہی نہیں پڑ رہا۔ ۔۔شاید ہماری سماجی دگرگوں حالت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی شکست تسلیم ہی نہیں کی اسی لئے سماجیت کی تبدیلی کاسفر بھی ابھی شروع کرنے سے تاحال قاصر ہیں۔ہم ابھی یہ طے کر رہے ہیں کہ آخر ہمارے مسائل ہیں کیا ؟ اور ابھی بھی یہ طے نہیں کر پائے کہ ان مسائل سے چھٹکارہ کس طور ممکن ہے۔ بلاشبہ پاکستانی سماج کی ڈگمگاتی اور منتشر حالت کے اسباب اَن گنت اور یکساں اہمیت کے حامل ہیں ۔ان سبھی مسائل سے چھٹکارہ ازحد ضروری ہے لیکن دورِ نو کا سب سے زیادہ جان لیوا سبب آج کی وہ انتہا پسندی ہے جس کے زخم انسانیت کے وجود کا ناسور بنتے جارہے ہیں ۔اور اس بدقسمتی کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔اسکی بنیادی وجہ ہمارے پاس کسی خاص لائحہ عمل اور ڈائریکشن کی کمی تھی ۔اسکی ایک وجہ وہ احساس کمتری بھی تھا جس نے پہلے ہندو اور انگریز براہمنوں اور پھر پاکستان بننے کے بعد مسلم جاگیرداروں ،حکمرانوں اور بیوروکریٹ براہمنوں کے نا مناسب رویوں سے جنم لیا۔اور ہمارے ایک قوم بننے کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا۔

پاکستان بننے سے پہلے ہی دو طاقتور گروہ تیار ہو چکے تھے جو پاکستانی سماج کی راہیں اپنے اپنے مطمۂ نظر کے مطابق استوار کرنا چاہتے تھے ۔روز اول سے ہی یہ دو طبقات باہم نبرد آزما تھے ۔ایک طرف لبرل یا سیکولر اور دوسری طرف اسلامی ریاست کے قیام کے متمنی ۔بلاشبہ سیکولرقوت طاقتور تھی ۔یہ کلاس متحد تھی ۔ان کی ایک اآیڈیالوجی تھی ۔سیکولر لوگ پاکستان کے مسائل کا حل مغربی جمہوریت اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں تلاش کرتے ۔یہ پرائیویٹ زندگیوں میں آزادی چاہتے ۔انہیں اسرائیل اور انڈیا سے دوستانہ ماحول ہی میں اس قوم کی بھلائی نظر آتی ۔لیکن اس کلاس کا درجہ یکدم نہیں بلکہ بتدریج نمایاں طور پر عیاں ہوا۔ہر دور میں اس کی راہ میں رکاوٹ وہ آئیڈیالوجی بنتی رہی، جس کو بچانے کی خاطر پاکستان کی تشکیل ممکن بنائی گئی تھی ۔

دوسری طرف بکھری ہوئی اسلامی تنظیمیں ،ادارے اور جماعتیں تھیں جن کی نہ توکوئی آئیڈیالوجی تھی اور نہ ہی اسلامی قوانیں پر ایک متفق رائے۔ایک درجے پر تھے traditionalistsجو خلفائے راشدین کی حکومتیں دوبارہ لانا چاہتے تھے ۔جب کہ وہ اس دور میں جی رہے تھے جو indusrialized ہو چکا تھا اور وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے منکر رہے کہ آج کے دور میں ماضی جیسی اسلامی شریعت نافذ کرنا نا ممکن ہے ۔دوسرے درجے پر تھےradicals جو بزور شمشیر انقلاب لانا چاہتے تھے ۔جن کا ماننا تھاکہ ابتدائی اسلامی شریعت کو من و عن نافذ کرنے کے لئے طاقت کا استعمال جائز ہے خواہ اس کے لئے اپنا یا اپنوں ہی کا خون کیوں نہ بہایا جائے۔پھر کہانی یوں بنتی گئی کہ ہم کوئی متناسب اور مناسب راستہ نہ دکھائی دے سکنے کی محرومی کے باعث انتہا پسند ہوتے چلے گئے ۔ایک طرف لبرلز انتہا پسند اور دوسری طرف مذہبی انتہا پسند۔جیسے جیسےradicals متشدد راہ اختیار کرتے چلے گئے ،لبرلز بھی اس کے ردعمل کے طور پر نمو پاتے چلے گئے اور بھرپور انداز سے اپنے نظریات کا پرچار کرنے لگے اور اب وہ ان نظریات میں انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے لگے ہیں ۔ اب تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کا اندرونی تہذیبی تضاد اب لبرلز اور اسلامسٹ کلاس کی باہمی چپقلش اور ٹکراؤ پر مبنی ہو گا ۔جب کہ ریاستی مشینری اس باہمی تناؤ کے مدمقابل کوئی بھی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہے گویا وہ خاموش تماشائی ہے ۔کیوں کہ وہ نا تو مکمل شریعت کا نفاذ کرنے کی اہل ہے جب کہ شریعت بغیر اسلامی قوانین میں تحریف اور تجدید کے لاگو کرنا ہی نا ممکن ہے کیوں کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہل نہیں اور حکومت کے پاس ایسے قابل جیورسٹ ہی نہیں جو ایسا ممکن بنا سکیں۔دوسری طرف سیکولر جماعت کے مقاصد ہیں جنہیں من و عن مان لیا جائے تو عوام کا اسے نظریہ پاکستان سے غداری سمجھ کر مشتعل ہو نے کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔سو حکومتیں اگلی پچھلی قانونی تشریحات پر ہی اکتفا کر کے نظام کو صرف اتنا بحال رکھنے پر اکتفا کرتی ہیں جس سے ان کا کام چل سکے ۔ پاکستان کی یہ بہت بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے ایسی rationalistکلاس نصیب ہی نہ ہو سکی جو بیچ کا کوئی راستہ نکالتی۔وہ راستہ جو اعتدال پسندی کا راستہ ہے ۔جو اسلامی اصولوں کو موجودہ دور کے مسائل کی روشنی میں دوبارہ مرتب کرتی۔جو اجتہاد کی راہ ہموار کرتی ۔یہ بات تو طے ہے کہ اس ملک میں نہ تو لبرل انتہا پسند اپنی مطابقت کا سماج تشکیل دے سکتے ہیں اور نہ ہی یہاں اسلامی انتہاپسندوں کا راج قائم ہو سکتا ہے۔مذہبی رہنماؤں کے پاس عوام کی طاقت نہیں اسی لئے وہ دیہی علاقوں کو defeudalize نہیں کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ یہ مغربی جمہوری نظام میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ان کی تعلیم بھی جدید علوم سے بہرہ ور نہیں اسی لئے جدید مسائل سے عہدہ برآہونے کے لئے وہ مسائل کا حقیقی ادراک نہیں کر سکتے۔

ان کے اہل مکتب حضرات بس اپنے اپنے فرقہ ورانہ ماحول میں مقید ہیں اسی لئے وہ اسلامائزیشن کا عمل عقل و استدلال کی بنیادوں پر آگے بڑھانے کے قابل ہی نہیں ۔مذہبی جماعتیں کسی قسم کا سیاسی کردار نبھانے سے قاصر ہیں۔وہ جدید بین الاقوامی دنیا میں ڈپلومیٹک تعلقات بنانے میں ناکام ہیں ۔لہٰذا ان کے بارے میں عمو ماً یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ مسجد میں امامت تو کر سکتے ہیں لیکن قوم کی امامت کرنے کے مستحق نہیں۔وہ نظام بدلنے کی قابلیت نہیں رکھتے کیوں کہ ان کے پاس ایسی کوئی آئیڈیالوجی نہیں ایسا فریم ورک نہیں جس کے مطابق کام کر کے وہ اس سماج کی حالت بدل سکیں۔پھر مذہبی ذہن کے حامل لوگ اتنے بٹے ہوئے ہیں کہ انہیں کسی ایک اسلامی ریاست،کسی ایک اسلامی قانون اور کسی ایک اسلامی آئین پر متفق کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔اس کی بڑی مثال اسلامی آئین کی بنیاد کو مرتب کرنے کی وہ ناکامی ہے جس پر پاکستان بننے کے دوسال گزر چکنے کے باوجود انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرنے کے بعد قابو پایا جاسکا اور سب بمشکل 1949کی قرارداد مقاصد پر متفق ہو پائے۔اب دوسری طرف صورتحال ملاحظہ فرمائیں ان لبرل انتہا پسندوں کی جو پاکستانی سماج میں مغربی نظام زندگی اور مغربی نظام تفکر کا نفاذ چاہتے ہیں ۔وہ نہیں جانتے کہ اس قوم نے تاریخ میں کشت و خون کے جو دریا بہائے تھے وہ صرف اور صرف اسلامی معاشرت کو بچانے کے لئے تھے۔دنیا میں آباد ہر قوم اپنے ذاتی تشخص اور اقداری نظام کی حامل ہے۔ ہر قوم کی اپنی آئیڈیالوجی اور نظریات ہیں۔جن کی قدر ہی ان کے جینے اور آگے بڑھنے کا باعث ہے۔نوآبادیاتی نظام نے ہماری سوچ وفکر ہماری اقدار ،ہماری شخصیت کو ہم سے چھین کر ہمیں اپنا محکوم بنایا اور پھر ہمیں اپنی اقدار و تہذیب کا غلام بنانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔بعد ازاں ہم اس سامراجی نظام کے رہ جانے والے وفاداروں کے status quo کی چکی میں پستے رہے اور اپنے وجود کی شناخت ہی بنانے سے محروم رہے۔آج ہم دوسروں سے تو مرعوب ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ۔

انتہا پسندی کبھی بھی بار آور ثابت نہیں ہوتی ۔مغرب کی لبرل انتہا پسندی وہاں جس طرح تہذیب اور معاشرت کی دھجیاں اڑا رہی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور مذہبی انتہا پسندی کیسے شام میں کشت و خون کے دریا بہا رہی ہے یہ بھی صاف عیاں ہے ۔سو ہمیں اپنی سوچ اور اپنے معاشرتی و سماجی رویوں کو اعتدال دینا ہو گا ۔ ہمیں آج جدیدیت اور روایت کو ایک کرنے کی اذحد ضرورت ہے۔ اسلامائزیشن کا عمل تو ہمیں اپنانا ہی پڑے گا کیوں کہ اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ان کئی لاکھ لوگوں کا خون جو اس ملک کی بنیادوں میں بھرا گیا وہ آج اپنا حساب مانگ رہا ہے۔ان قربانیوں کا حساب چکانا ہو گا جو لوگوں کو علیحدہ تشخص کے تحفظ کا جھانسا دے کر مانگی گئیں ۔لیکن ہمیں اس اسلامائزیشن کے عمل میں جدید تعلیم،تحقیق،صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کو بھی اپنانا ہو گا۔اسلامی ریسرچ انسٹی ٹیوشن قائم کرنا ہوں گے۔آپس میں debateکر کے ایک متناسب اور درمیانی راہ نکالنی ہو گی۔ اسلام کبھی بھی رویوں اور قانونی نظام میں انتہاپسندی کا حمایتی نہیں رہا اس نے ہمیشہ میانہ روی اور اعتدال کا درس دیا۔ایسے ہی معتدل راستے اور رویے کی آج ہمیں اشحد ضرورت ہے ۔جب ایک معتدل rationalistجماعت جنم لے گی تو یہی جماعت فراہم کرے گی ایک ماڈرن قیادت ۔ایک ذہن کا حکمران جس کی ذات میں کرشماتی سحر ہو ۔جو مذہبی روایات اور قوم کی جدید ضروریات کو سمجھتا ہو۔جو منافرتوں اور مصلحتوں سے بالا تر ہو۔ایک ایسا ہی انسان اس ملک کو درمیانی راستہ سجھا سکتا ہے۔