ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ : زندگی سے منفی رویہ اور قدامت پرستی

kashif raza

سید کاشف رضا

ویسے تو پاکستانی سماج اس وقت کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے جن میں دہشت گردی، ناخواندگی اور غربت سرفہرست نظر آتے ہیں، مگر میرے خیال میں ان تمام مسائل کی پشت پر سبب ایک ہی ہے جسے میں پاکستانی سماج کا بنیادی مسئلہ کہوں گا۔ وہ مسئلہ ہے زندگی کی جانب ایک منفی اور قدامت پرستانہ رویہ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی موجودگی میں خواندگی کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ اس رویے کے باعث ہم فارسی محاورے کا وہ گل محمد بن چکے ہیں جو ساری دھرتی کے ہلنے پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔

 

راولپنڈی پاکستان کے ان تین اضلاع میں شامل ہے جہاں تعلیم کا تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے لیکن اگر مذہبی انتہاپسندی کا کوئی انڈیکس ہو تو اس پر بھی یہ شہر ٹاپ پر نظر آئے گا۔ زندگی کی جانب اس منفی اور قدامت پرستانہ رویے کا ایک بنیادی سبب اسلام کی وہ تفہیم بھی ہے جو ہمارے سماج میں رائج ہے۔ میں جب پاکستان کے تین اہم ترین بانیان قائدِاعظم، اقبال اور سر سید کے خیالات پڑھتا ہوں تو ایسا منفی رویہ ان کے ہاں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جو مستقبل طے کیا اس کے نتیجے میں مسلمان بالآخر اس راستے پر چل نکلے جس پر وہ آج موجود ہیں۔ اسی منفی اور قدامت پرستانہ رویے کی وجہ سے ہمارے سماج پر ایک ہمہ گیر جمود طاری نظر آتا ہے۔ پچھلے ستر برسوں میں ہم نے ترقی ضرور کی ہے لیکن اس ترقی کی رفتار دنیا کے ان ملکوں سے بہت کم ہے جو ہمارے ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ ہمارا نصابِ تعلیم اس خدشے کا غماز ہے کہ کہیں ہم اپنے مذہب سے دور نہ ہو جائیں۔ (یہ خدشہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ مذہبی ٹھیکے دار خود بھی اپنے اعتقادات کے بارے میں پر اعتماد نہیں)۔ جب مغرب میں کوئی نئی ایجاد یا کوئی نیا علم دریافت ہوتا ہے ہم سیدھا اپنے مذہبی طبقے کے پاس پہنچتے ہیں کہ وہ بتائے یہ ایجاد اور علم حلال ہے یا نہیں، اور اگر حلال نہیں تو اسے حلال کرنے کے لیے کوئی طریقہ نکالا جائے۔ جتنی دیر میں اہلِ مذہب اس نئی ایجاد یا علم کا حلالہ کرتے ہیں، دنیا مزید آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔

 

تعلیم اور صنعتی عمل کے فروغ سے اس رویے سے مزاحمت کے راستے بھی نکلے ہیں ورنہ یہ قدامت پرستانہ رویہ ہمارے معاشرے پر مکمل حاوی ہوتا تو ہماری آبادی کا نصف حصہ، یعنی خواتین، ملکی ترقی اور پیداواری عمل سے مکمل طور پر باہر ہوتا اور مردوں کی اکثریت صرف مذہبی تعبیر و تفسیر میں ہی جان کھپا رہی ہوتی۔ بحث کے لیے یہ مان لیا جائے کہ اسلام کو لاحق خطرات کی خاطر اگر ہم جدید تعلیم، سائنسی اندازِ فکر اور زندگی کی جانب ایک مثبت اور خوش دلانہ رویے کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو پھر مجھے بتائیے کہ آپ ہندوستان اور ان دیگر ملکوں کا مقابلہ کیسے کریں گے جنھیں آپ نے اپنا حریف طے کر رکھا ہے۔ کیونکہ ان ملکوں کو تو جدید تعلیم سے ایسے کوئی خدشات نہیں ہیں جو ہمیں ہیں۔ اسی لیے ان کی ترقی کی رفتار ہم سے تیز سے تیز تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور وہ مصلے پر بیٹھ کر دعائیں کرنے سے تو نہیں رکنے والی۔ امریکا میں کچھ کلٹ ایسے ہیں جن سے وابستہ لوگ اردگرد کی دنیا سے کٹ کر ایک جزیرے کی صورت میں رہتے ہیں۔ کاش ہم بھی ایسے ہی رہ سکتے۔ لیکن ایسے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم باقی دنیا کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کریں اور وہ ہمیں ہمارے اپنے اعتقادات کے مطابق زندگی بسر کرنے دے۔

 

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں دنیا کو فتح کرنے اور وہاں اپنی تہذیب کا پرچم گاڑنے کا بھی شوق ہے اور اس شوق کے شوقین افراد دنیا بھر سے ہمارے ملک میں سکونتی سیاحت کے لیے بھی آتے ہیں۔ اس کے بعد دنیا کی بڑی طاقتیں ہماری اس آزادی میں مداخلت کرتی ہیں جو ہمیں ناگوار گزرتی ہے۔ تو بھیا ہمیں سائنسی اندازِ فکر اپنانا ہو گا اور زندگی کی جانب قبولیت کا رویہ رکھنا پڑے گا، ورنہ ہم زندگی کی دوڑ میں اپنے حریفوں سے پیچھے رہ جائیں گے اور پھر ہمیں شکست در شکست کی تذلیل برداشت کرنا ہو گی۔

 

ہمیں صرف تعلیم کی ضرورت نہیں اور موجودہ نصابِ تعلیم کی مدد سے ہم نے جتنے نوبیل پرائز حاصل کیے ہیں وہ سب کو معلوم ہے۔ قدامت پرستی ایک دستِ قاتل ہے جس نے ہمارے سماج کی گردن کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ ہمیں اس دستِ قاتل کو سختی سے جھٹک دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سائنسی اندازِ فکر اپنانے اور زندگی کی جانب ایک مثبت رویے کی ضرورت ہے اور اس نصابِ تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے جو باقی دنیا کے مقابلے میں ہمیں مسلسل پس ماندہ رکھ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ترقی یافتہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر جلتے تو رہیں گے، اس کے شانہ بہ شانہ کبھی نہیں چل پائیں گے۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔