معاشرے میں زبان کے نشانات کی اہمیت

فرخ ندیم
فرخ ندیم، صاحبِ مضمون

فرخ ندیم

زبان ایک ثقافتی عمل داری( activity)ہے جس کے باعث معلومات کے استبدال کے علاوہ سماجی ، ثقافتی اور پیداواری رشتوں کی نوعیت اور ان رشتوں کے مابین طے شدہ مقاصد کا اظہار ممکن ہے۔ اب چونکہ(ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق) مقاصد مختلف ہوتے ہیں یا اس طرح کہ سکتے ہیں کہ ایک خاص صورتِ حال میں خاص طرز کے مقاصد ہوتے ہیں جو صورتِ حال بدلنے کے ساتھ ہی ڈسکورس کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ ڈسکورس کے اسی نقشے میں نظریات ، ان کا پرچار اور ان کا اطلاق بھی موجود ہے جو طاقت کا سائن ہے ۔جب یہ(طاقت کے) سائنز جمع ہو جاتے ہیں تو بھی کسی نظریہ کاعکاس بنتے ہیں۔ ہمارے آس پاس ہر وقت طاقت کے دال (signifiers) موجود رہتے ہیں جن کا ادراک ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی خاص تجربے سے گزرتے ہیں۔ انسان( لا محدود انفرادی دعوں کے باوجود ) ایک کنٹرول شدہ ماحول میں رہتا ہے جو ایک ایسی حقیقت کو ساخت کرکے پیش کرتا ہے جس سے وہ لاشعوری طور پہ آگاہ نہیں ہوتا۔وہ الفاظ اور ان کے معانی کے درمیاں رشتوں کو بھی حقیقت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ انسانی perceptionاور ادراک بھی signs ہی کی constructionہے مگر ،اس کے باوجود، اس قسم کی تربیت کو ہم تعلیم و تربیت کہتے ہیں۔
انسان خود ایک سائن ہے، دال ہے اور مدلول بھی ۔ایک ہی وقت میں اس کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ارتقائی لحاظ سے بھی اس کے معنی بدلتے رہتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت کے حالات و واقعات بدلتے ہیں انسان کے معنی میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اس معنی کو اس کا ماحول ساخت کرتا ہے۔ جس سماجی ماحول میں ذات پات، حسب نسب، برادریاں، اونچ نیچ، اشرافیہ، کمّی، صوبائی و لسانی عصبیت انسانی نفسیات اور خمیر میں رچ بس گئی ہوں وہاں Objectivityیا آزاد ذہن کا دعوی کسی اسطورہ ( myth) سے کم نہیں۔ انسان اپنے ثقافتی ماحول یا سیمیائی ماحول (semiosphere) میں رہتا ہے اور انہی سائنز کا استعمال کرتا ہے جو اس کی معاش اور معاشرت میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سائنز اس کو ایک فطری یا فطرتی انسان کی بجائے ایک social constructبنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے تصورات کی بھرمار ہے جو بنیادی طور پہsocial constructsہیں لیکن انہیں فطری بنا کر پیش کیا جاتا ہے تا کہ’ اپنے نظریہ‘ کا پیٹ بھر سکے۔ یہ تصورات یاالفاظ یا سیگنی فائرز یا دال لفظی بھی ہو سکتے ہیں اور غیر لفظی بھی۔ مگر انسانی ابلاغ کا زیادہ تر دارومدار لفظی ہے اس لئے ہم verbal signsکا ہی سہارا لیتے ہیں یا ان کا شکار ہوتے ہیں۔ ان لفظی سائنز کے مدلول (signifieds) اوراشیا کی فہم سے ابلاغی رشتوں کی فطرت اور فہم مشروط ہے۔ لسانی نظام ایک کھلا میدان ہے جس سے la paroleتشکیل پاتا ہے۔ ہماری گفتگو کی becomingاپنے ماحول میں موجود اشیا کی نسبت سے تشکیل پاتی ہے۔زبان کسی ثقافت میں موجود انسانی رشتوں کی طرح کام کرتی ہے او ر اس میں غیرلسانی سائنز کی موجودگی اس کے گرد موجود ثقافتی محل وقوع ہی کے سبب ہے۔ لسانی اور معاشرتی ساختوں کا رشتہ، اس نسبت سے، جدلیاتی ہے۔ انسانی sense اس essenceسے متشکل ہوتی ہے جو جدلیاتی تجربے میں موجود ہو۔ہماری سماجی ساختوں میں تنوع لسانی سائنز میں تغیر کا اہتمام کرتا ہے۔کسی بھی طبقاتی کشمکش میں سائنز کے دال و مدلول رگڑ کھاتے ہوئے بقائے دوام کی جنگ لڑتے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ سائنز پھیل جاتے ہیں اور باقی سکڑ جاتے ہیں۔( ایسے ہی جیسے سرمایہ دارانہ نظام کے سائنز وسعت اور طاقت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اور عام یا کمزور انسان کے سماجی حقوق سکڑتے جاتے ہیں)۔طبقاتی کشمکش میں زبان کسی فطری عمل کی بجائے ایک سماجی و سیاسی کھیل کا مدلول بنتی ہے جس میں لفظوں کے کھلاڑی اپنی اپنی چالوں سے اپنے گولز اور مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ All is well that ends wellپہ عمل کرتے ہوئے کامیابی تجسیم کی جاتی ہے۔ ان لفظوں کی اپنی اپنی وردیاں، جبے، عبائیں، لباس ہوتے ہیں جو ان کی قومیت ، نسل،رنگ، طبقہ اور نظریہ کے ترجمان ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ سائنز اپنے نظریات کی خدمات پہ مامور ہوتے ہیں۔
متون(Texts) مذہبی ہوں یا سیاسی، کالے جادو کے بارے ہوں یا میڈیا ئی ڈسکورس، اوباما کی تقریر ہو، سیاسی گروہوں اور فرقہ واریت کی لسانی لڑائی ہو،کوشش کی جاتی ہے کہ اثر انگیز لسانی سائنز کا انتخاب و انسلاک کیا جائے تا کہ اپنی آئیڈیالوجی یا طاقت کو طمطراق حاصل ہو جائے۔ لفظ افراد کی خواہش کے تابع ہوتے ہوئے محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے (ارادی )معنی کی خدمات بھی سر انجام دیتے ہیں اور اس طرح کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہوتا محسوس ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ اور دلیل یہ ہے کہ ایک قبیلے کا فرد اپنے ماحول میں جب اپنی ضروریات و خواہشات کی تکمیل ہوتے محسوس کرتا ہے تو اپنے ماحول اور معنیاتی نظام پہ اعتبار کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ الفاظ اور ان کا معنیاتی نظام انسان کی صرف ذہن سازی ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے ماحول میں نظریاتی بنیادوں کو بھی استحکام بخشتے ہیں۔اس طرح خواہش ، لسانی سائن اور تکمیل کی ایک تکونی شکل بنتی ہے جوانفرادی ذہنی ارتقاء کا باعث بنتی ہے۔ تکمیل چونکہ اطمینان بخش ہوتی ہے اس لئے اس کا cathartic پہلو ضرورت یا نظریہ ضرورت بن کر عزیر تر ہوجاتا ہے۔تکمیل و اطمینان معروضی حالات کی پروردہ محض انفرادی خواہش ہی نہیں بلکہ نفسیاتی ضرورت کا روپ اختیار کر کے ہر اس سائن کی طرف راغب ہوتی ہیں جو ان کو حرکی توانائی بخشے۔انسانی ارتقا میں متحرک سائنز کا مخزن طاقت رہی ہے اس لئے خاص و عام نفسیاتی طور پہ کسی ایسے ڈسکورس کا سہارا لیتے ہیں جس کا استعمال تکمیلیت کا ضامن ہو۔ جیسے مقدمہ جیتنے کے لئے’’ اچھے ‘‘وکیل کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی آئیڈیالوجی کے اطلاق کے سلسلے میں طاقت ورلسانی سائنز کے ڈسکورس کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر معاشروں میں سکندر نام معتبر ہے۔ اس لئے ، ایسے معاشروں میں ہر وہ نام معتبر ہے جو طاقت کا نمایندہ ہے۔اس روایت کے چلن اور تقلید میں معاشرے میں موجود سائنز کو اپنی خواہش کے مطابق نئے معنی پہنا دیے جاتے ہیں۔ اقدار میں تغیر و تبدل انہی verbal اور non verbal سائنز کے مرہون منت ہے ۔ یہاں تک کہ برہنگی کے سائنز جو کبھی ’شجرِممنوعہ ‘کے نشانات تھے اب کشش کے سائنز بن چکے ہیں اور کشش میں پھر ایک سماجی dialogicاور dialectic ،اورنفسیاتی رشتہ فائل اور مفعول، فاتح اور مفتوح کا بنتا ہے جو بعد ازاں جذباتی استحصال کا سبب بھی بن سکتاہے ۔ مثال کے طور پہ پورنوگرافک فکشن کے محرکات وہ نہیں ہوتے جو ایک سنجیدہ ادبی ناول کے ہوتے ہیں، پورنوگرافک ڈسکورس میں لسانی سیاست کا استعمال کرتے ہوئے دلچسپی پیدا کی جاتی ہے اور مقبول ثقافت کے رجحانات کی کاشت کے پس منظر میں سرمایہ داری بول رہی ہوتی ہے۔ یہاں سے جمالیات اور اس کے سائنز پہ سوال اٹھتا ہے کہ جمالیات کے سائنز سب کے لئے یکساں ہیں؟اور کیا جمالیات کے سائنز کی تعبیر کے سلسلے میں کسی نظریاتی دلچسپی کا کوئی عمل دخل نہیں؟پورنوگرافک ادب بھی اسی طرح لسانی سیاست کا شکار ہے اوریہ لسانی اور سیمائی کھیل tellingاور showingدونوں کے بل بوتے پہ کھیلا جاتا ہے۔ سسپنس، ہیجان، جذبات انگیز ڈسکورس ایک’ پھر؟‘ پہ دال کرتے ہیں اور یہ’ پھِر ‘ قاری یا سامع کو انجام کی طرٖ ف کھینچتا چلا جاتا ہے۔ جب قاری کے قدم اپنی حقیقی جڑت سے اکھڑ جاتے ہیں تو وہ ڈسکورس کے اثرات قبول کرتے ہوئے کم و بیش اسی ردِعمل کا اظہار کرتا ہے جو مصنف کی خواہش ہوتا ہے۔ اس طرح مصنف اور قاری کے درمیاں ایک فاعل اور مفعول کا رشتہ طے پاتا ہے جو مصنف کو ایک کولونیل یا سامراجی اور استعماری طاقت فراہم کرتا ہے۔ اب مصنف کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کس حد تک طاقت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ مصنف کے لاشعور میں یہ خیال موجود ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ جو کچھ وہ کہنے جا رہا ہے قاری نہیں جانتا۔ یہاں،چونکہ ،ظاہرہے جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوتے اس لئے جاننے والا جانتا ہے کہ وہ جو بھی کہے گا اسے بھلا جھجھک شرفِ قبولیت بخشی جائے گی۔ مشہور رومانوی شاعر کولرج بھی اسی قسم کے رشتے کا قائل تھا۔ اس کا تصور Willing Suspension of Disbelief اس قسم کے رشتے کی دلیل ہے۔

1 Comment

  1. واہ بہت علمی گفتگو پر مبنی مضمون ہے ….فرّخ ندیم کی قابلیت کا میں قائل ہوں ….

Comments are closed.