ریاست سیاست کی مخالفت کب بند کرے گی؟

عاصم سجاد اختر

ریاست سیاست کی مخالفت کب بند کرے گی؟
از، عاصم سجاد اختر

جنرل ضیاء الحق کی جانب سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء سیاست پر پابندی لگائے جانے کو اب تقریباً 35 سال ہوچکے ہیں۔

اس پابندی کی منطق نہایت سادہ تھی۔ 1947ء کے بعد کی ساڑھے تین دہائیوں تک طلباء نے سیاسی زندگی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ کیمپسوں میں وہ اپنے مسائل اور سیاسی چیلنجز کے حل کے لیے اکٹھے ہوتے، کیمپس سے باہر مقبول تحریکیں پیدا کرنے میں مدد دیتے، کئی تو زمانہ طالبِ علمی کے بعد بھی سیاسی جدوجہد سے منسلک رہتے۔

مگر اپنے پیشروؤں کے برعکس ضیاء دور میں طلباء سیاست پر پابندی لگنے کے بعد پلنے بڑھنے والی پاکستانی نسل کا مجموعی رویہ بالکل بدل چکا ہے پھر چاہے بات کیمپس کی ہو یا معاشرے میں نبھائے جانے والے کردار کی۔

یہ نظریہ کہ سیاست عوامی مفاد کا تحفظ کرنے والی ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے، اِس پابندی کے بعد تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ زیادہ تر طلباء یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست سے دور ہی رہنا چاہیے، اپنی تعلیم اور کیریئر پر توجہ دینی چاہیے، اور ان سرگرمیوں سے دور رہنا چاہیے جن میں چند منفی عناصر طلباء کو اس لیے مصروف رکھتے ہیں تاکہ اپنے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔

سیاست کو ایک خود غرضی پر مبنی سرگرمی اور ’ہر شخص اپنی فکر خود کرے‘ والی سوچ ہمارے معاشرے میں گہرائی تک جڑ پکڑ چکی ہے۔

اس طرح دیکھیں تو سیاست، خاص طور پر ترقی پسند سیاست کو جرم قرار دے کر قدامت پسند قوتوں کو پروان چڑھانے کے فوجی حکومت کے مقاصد بڑی چالاکی سے حاصل کر لیے گئے۔

حالیہ دنوں میں بڑے عہدوں پر موجود شخصیات، مثلاً سینیٹ چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست مخالف چالوں کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے طلباء یونینز کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاست مخالف نظریات ہمارے معاشرے میں اس قدر گہرائی تک پیوست ہوچکے ہیں کہ خود طلباء کو بھی ایسے کسی اقدام کے لیے راضی کرنا پڑے گا۔ کیمپسوں میں حریف طلباء گروہوں کے درمیان پنجاب یونیورسٹی جیسے تصادم سیاست مخالف نظریات کی خود ہی تصدیق کردیتے ہیں۔

عام طلباء کو الزام نہیں دیا جاسکتا کہ وہ سیاست کو تمام مسائل کی جڑ کیوں سمجھتے ہیں، کیوں کہ انہیں گھر میں، اسکول میں اور میڈیا کے ذریعے یہی کچھ تو سکھایا گیا ہے۔ حقیقت میں ان طاقتور لابیوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں سیاست مخالف رویوں کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں۔

طلباء اور معاشرے کے اندر سیاسی سرگرمیوں کے صحتمند جمہوری کلچر کی بحالی کے لیے یہ پہلا قدم ہے۔

آئیں پنجاب یونیورسٹی کی مثال لیتے ہیں۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ وہ واحد طلباء تنظیم جس پر ضیاء حکومت نے پابندی نہیں لگائی تھی، وہ اسلامی جمعیتِ طلبہ تھی۔ نتیجتاً جمعیت نے کئی کیمپسوں میں تقریباً اجارہ داری قائم کرلی اور اپنے ‘اسلامائزیشن’ کے ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے اکثر اوقات وہ طاقت کا استعمال کرتی تاکہ کیمپسوں میں ثقافتی روایات کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔

کچھ معاملات میں دوسری طلباء تنظیموں نے بھی ایسے ہی سخت گیر ہتھکنڈے استعمال کرکے جمعیت کے لیے مشکلات کھڑی کیں، اور اپنے اپنے برتری کے نظریات کو فروغ دیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال کراچی یونیورسٹی کے کیمپس میں اے پی ایم ایس او کی ہے۔ جو بھی گروہ بالادست ہوتا، وہ ہاسٹل وارڈنز اور انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں کے ساتھ خفیہ تعلقات بنا کر کیمپس ‘اسٹیبلشمنٹ’ کا حصہ بن جاتا۔

پنجاب یونیورسٹی میں حالیہ تصادم کی وجہ یہ ہے کہ جمعیت اور انتظامیہ کے گٹھ جوڑ کو چیلنج کرنے کے لیے نئے طلباء گروہ سامنے آگئے ہیں۔ ان میں سے کئی نئے گروہ لسانی بنیادوں پر مجتمع ہیں کیوں کہ زیادہ سے زیادہ غیر پنجابی طلباء سرکاری نوکریوں کے حصول کے لیے مطلوبہ ڈگریوں کے لیے لاہور آرہے ہیں۔

مگر جہاں یہ جمعیت کی اجارہ داری کو خطرے میں ڈال رہی ہیں وہیں یہ نئی جماعتیں خود بھی زیادہ ہمہ گیر سیاست کی علمبردار نہیں ہیں۔

یہ اکثر اپنے مفادات کو ‘دوسروں’ کے مفادات سے نہایت مختلف قرار دیتی ہیں۔ خود کو دوسروں سے اس طرح ممتاز کرنا حیران کن نہیں ہے اگر ہم یہ دیکھیں کہ لاہور اور اسلام آباد میں غیر پنجابیوں کو کس طرح تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

صرف اگر پنجاب یونیورسٹی میں پولیس کے ایکشن کو ہی دیکھیں تو یہ بات سمجھ آ جاتی ہے۔ 196 گرفتار طلباء میں سے 180 بلوچ اور پختون ہیں۔ تمام طلباء پر انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

لسانی تقسیم کو بڑھا کر اور طلباء کو دہشتگرد قرار دے کر ریاست کیمپس میں تشدد کے کلچر کو بھی بڑھاوا دیتی ہے اور اس تاثر کو بھی کہ طلباء کو ایک ساتھ جوڑنے والے کوئی اجتماعی مفادات نہیں ہوتے اور وہی ریاست پھر یونیورسٹی کیمپسوں میں ‘انتہاپسندی’ کو قابو کرنے سے مخلص ہونے کا دعویٰ بھی کرتی نظر آتی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ یہ طاقتور ڈنڈا لہرانے والے صرف ریاستی اہلکار نہیں ہیں جو طلباء اور نوجوانوں میں موجود سیاست مخالف بیانیے سے آگے بڑھنے کو مشکل بناتے ہیں۔ کئی اساتذہ خود بھی سیاست کی مذمت کرتے ہیں اور اس میں دلچسپی لینے والوں کے خلاف ایکشن کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسا کرتے ہوئے وہ ڈکٹیٹر کے ورثے کو آگے بڑھاتے ہیں اور 12 کروڑ نوجوانوں پر مشتمل اس ملک کے کیمپس اور معاشرے کے جمہوری بنیادوں پر استوار ہونے کو مزید مشکل بناتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 جنوری 2018 کو شائع ہوا۔ لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔