ہمارے معاشرے میں درندگی کیوں بڑھ رہی ہے؟

ہمارے معاشرے میں درندگی

ہمارے معاشرے میں درندگی کیوں بڑھ رہی ہے؟

(رضا علی)

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں بے دردی سے قتل ہونے مشعل خان نے اس سوتی ہوئی قوم کو پھر جھنجوڑ دیا ہے- عام طور پر میں ایسی کوئی ویڈیو نہیں دیکھتا لیکن جہاں میں نے یہ خبر پڑھی وہاں موجود ویڈیو پرکلک کر دیا- مشعل خان کی لاش پرجولوگ پھٹوں سے ضرب لگا رہے تھے وہ ساتھ ساتھ الله اکبر کا نعرہ بھی لگا رہے تھے۔ یہ ایک عجیب منظر تھا۔ اس بات کی کیا تک بنتی تھی؟ ایک نہتے آدمی پر بیس لوگ اگر ڈنڈے برسا رہے ہوں تو اس سے الله کی کبریائی کا کیا تعلّق؟ پھر میرے ذھن سے ایک دوسرا منظر گزرا جس میں ایک قصائی جانور کی گردن پر چھری چلا رہا ہے اورساتھ ساتھ الله اکبر بھی کہ رہا ہے۔

مشعل خان کا قتل کوئی پہلا واقع نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک درندگی کچھ دن پہلے لاہور میں ہوئی جہاں ایک چودہ سالہ لڑکے کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں اور اس کا عضو بھی کاٹ دیا گیا- لڑکی کے باپ کو یہ شک تھا کے یہ لڑکا اس کی بیٹی کے ساتھ کوئی عشق معاشقہ کر رہا ہے- لیکن اس نے اسے دو تھپڑ مار کے یہ دھمکی نہیں دی کے آئندہ دیکھا تو ٹانگیں توڑ دوں گا، بلکہ درندگی کی ایک مثال قائم کر دی- یہاں بھی ایک انسان کے ساتھ انسانوں کا رویہ اپنانے کے بجاۓ کسی جانور کی طرح کا سلوک کیا گیا۔

تیسرا واقعہ اب کچھ پرانا ہو گیا ہے لیکن شمع اور شہزاد نامی ایک کرسچین جوڑے کو توہین اسلام کے نام پر پہلے بے دردی سے مارا پیٹا گیا اور پھر زندہ بھٹی کی آگ میں پھینک دیا گیا۔ یہ بھی ایک دل دہلا دینے والی اور ایک غیر انسانی مثال تھی- یہ تو پڑھا تھا کے قیامت کے دن الله ظالموں کو دوزخ کی آگ کا مزہ چکھائے گا لیکن یہ کون سے لوگ ہیں جنہوں کے قیامت سے پہلے قیامت برپا کر دی اور وہ حساب کتاب اور جزا سزا جو الله نے دینی تھی اپنے ہاتھوں میں لے لی؟ کیا یہ توہین نہیں ہے؟ کیا یہ شرک نہیں؟

ان ساری مثالوں میں جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کے انسان کو انسان کے بجائے یا تو جانور یا کسی غیر جاندار چیز کی طرح کا سلوک کیا گیا ہے- جیسے کسی سانپ کو ڈنڈوں سے مارتے ہوے کوئی اس کے جذبات کے بارے میں نہیں سوچتا یا اس کے گھر والوں پر کیا گزرے گی، بلکہ سوچ صرف یہ ہوتی ہے کے کہیں یہ ہمیں نہ ڈس لے۔ انسانوں کو زندہ جلانے والوں نے بھی انہیں انسان نہیں بلکہ کسی لکڑی کے ٹکڑے کی طرح آگ میں پھینک دیا جیسے وہ تو جلنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہوں یا انہیں آگ کا کوئی احساس نہ ہو۔

رضا علی، صاحب تحریر

نکولس ایپسلے (Nicolas Epsley) کی کتاب مائنڈ وائز (Mindwise) اس موضوع پر اچھی روشی ڈالتی ہے۔ نکولس ایک سائیکولوجسٹ ہے اور یہ کتاب لکھنے کا مقصد اس سوال کو واضح کرنا ہے کے ہم پرائے ذہنوں (other minds) کو کیسے سمجھتے ہیں- تیسرے چپٹر میں وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کے ہم دوسرے انسانوں سے انسانیت کیسے چھینتے ہیں، جسے dehumanization کہا جاتا ہے۔ اس کی بہت سے مثالیں ہیں جیسے کہ جنگ میں جب کوئی بم گراتا ہے تو وہ یہ نہیں سوچ سکتا کے جن پر یہ گرے گا وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی خاندان ہیں، انہیں کوئی تکلیف بھی ہوگی، بلکہ جنگی ذہنیت ان دشمنوں کو صرف ایک ٹارگٹ میں بدل دیتی ہے۔ ایسے ہی جب کسی کو ٹارچر کیا جاتا ہے تو انسان دوسرے انسان کو اپنے جیسا نہیں سمجھ سکتا- آپ کو یا تو نفرت، یا اپنی قوم کی محبّت، یا اپنی ڈیوٹی کو اس کی انسانیت سے اوپر رکھنا ہوتا ہے۔ ورنہ اگر اسے آپ اپنے جیسا سوچنے اور محسوس کرنے والا انسان سمجھ لیں تو آپ خود صدمے کا شکار ہو جائیں۔

اس لئے سب سے پہلے اسے آپ کسی جانور یا بے جان چیز کی طرح mindless تصوّر کریں- جیسے چپل سے کاکروچ مارتے ہوئے آپ یہ نہیں سوچتے کے اس نے مستقبل کے بارے میں کیا خواب دیکھے ہوں گے، اسی طرح روانڈا کی قبائلی جنگ میں ہوٹو نے ٹوٹسی کو کاکروچ تصوّر کر کے ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا- پھر وہ یہ کہتا ہے کے دوسرے کو mindless تصوّر کرنے میں فاصلے کا بہت ہاتھ ہے- یہ ذہنی فاصلہ ہے- جتنا آپ دوسرے سے اپنے اپ کو قریب محسوس کریں گے اتنا ہی اسے اپنا جیسا سمجھیں گے۔ جتنا وہ آپ سے الگ ہو گا جیسے کے قوم قبیلے ملک مذہب رنگ نسل اور جنس، اتنا ہی ذہنی فاصلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جنگ میں فوجی کے لئے دور سے مارنا آسان ہوتا ہے لیکن آمنے سامنے مارنا مشکل، کیونکہ طبعی فاصلہ ذہنی فاصلہ بن جاتا ہے- پاکستان میں ہونے والے واقعات میں بھی آپ کو یہ فاصلہ نظر آئے گا- لبرل اورمذہب پرست کا فاصلہ، مسلم اورغیرمسلم کا فاصلہ، محب وطن اور غدّار کا فاصلہ، امیر غریب اور طاقتور اور کمزور کا فاصلہ-

لیکن جب آپ ان درندوں سے ملیں تو وہ آپ کو اپنے ہی جیسے عام انسان نظرآتے ہیں- خوش مزاج، مہمان نواز، بردبار اور ذمہ دار لوگ- پھر یہ درندگی انہوں نے کیسے کر دی؟ ایک ہی وقت میں یہ فاصلہ اپنے ہم نواؤں سے اتنا کم کیوں اور اوروں سے اتنا زیادہ کیسے؟ پال بلوم (Paul Bloom) جو ایک سائیکالوجی کا پروفیسر ہے اپنی کتاب اگینسٹ امپتھی (Against Empathy) میں ہمدردی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے- وہ ہمدردی کو برا نہیں سمجھتا بلکہ اس کی جو تعریف کرتا ہے اس میں وہ ایک تنگ نظری کا نام ہے۔ یعنی کے اگر میں آپ کا دکھ محسوس کر سکوں تو ٹھیک ورنہ آپ بھاڑمیں جائیں- پاکستانیوں کو اکثر کشمیر کا دکھ کراچی سے، فلسطین کا اپنے پڑوسی سے اور برما کے مسلمان کا اپنے کرسچین سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ جس کا دکھ محسوس ہوگا، اسی سے ہمدردی ہوگی- اس لئے پال بلوم ہمدردی کے مقابلے میں رحمدلی compassion کو بہتر سمجھتا ہے- یہ ذات، نسل، زبان، مذہب اور ملک کی پابند نہیں- ہمدردی میں اپنی بیٹی پر آنکھ اٹھانا دوسرے کے بیٹے کی آنکھیں پھوڑ دینے سے بڑا جرم ہے- ہمدردی میں اپنے مذہب کی توہین دوسرے کے بہیمانہ قتل سے بڑا جرم ہے۔

ہمدردی میں اپنے ایک کی جان دوسرے کی سو جانوں سے بڑھ کر ہے۔ اسی لئے وہ جذباتی بنیادوں پر ہمدردی سے بہترعقل اورانصاف کی بنیادوں پر استوار رحمدلی اور احترام اور خیال رکھنے کو بہتر سمجھتاہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں بھی ایک نئے سرے ان باتوں کے بارے میں سوچنا ہوگا، کہیں ہم اپنوں کی ہمدردی میں اوروں کے لئے درندے نہ ہو جائیں۔