ہمیشہ متجسس، جنونی اور پاگل رہو

ہمیشہ متجسس، جنونی اور پاگل رہو

ہمیشہ متجسس، جنونی اور پاگل رہو

(بینش عباس زیدی)

مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم مشال کو اب دفنایا جا چکا ہے لیکن یونیورسٹی میں اس کے کمرے میں ابھی بھی کمیونزم کے بانی کارل مارکس اور کیوبن انقلاب کے رہنما چے گوویرا کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ اس کے کمرے کی دیوار پر ان کے قول درج ہیں جن میں سے ایک پر لکھا ہوا ہے ‘ہمیشہ متجسس، جنونی اور پاگل رہو’۔
مشال کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ہر چیز کے بارے میں کھل کے بات کرتا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کس ماحول میں رہ رہا ہے اور شائد اس نے اسی کی سزا پائی۔
میں نے مشال کے قتل کی وڈیو اس کی موت کے دو روز بعد دیکھی، سخت دل نہیں ہوں اس لئے اپنے آنسو نہیں روک پائی۔اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والے مشکل سے100تھے لیکن اس پورے کرائم سین کو دیکھنے والے ایک ہزار تھے۔ سنا ہے پولیس کافی دیر پہلے پہنچ گئی تھی لیکن جائے وقوعہ سے کافی دور کھڑی رہی۔ شائد اس کے مرنے کا انتظار کر رہی تھی۔
مشال کی موت پر پاکستان میں کہیں احتجاج ہورہا ہے تو کہیں لوگ خاموش ہیں، ڈر کے مارے نہیں صرف اس وجہ سے کہ کیا فائدہ شور کرنے کا احتجاج کرنے کا یہاں کب کسی کو انصاف ملا ہے؟
مشال کے والد سے کسی رپورٹر نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو انصاف کی امید ہے تو انہوں نے بڑے صبر سے جواب دیا کہ یہاں پہلے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو انہیں ملے گا!
مشال کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جب اپنے بیٹے کی انگلیاں چومیں تو وہ ٹوٹی ہوئی تھیں۔ جن انگلیوں پرالله ایک، آخری رسول ایک، نماز پانچ سکھائیں۔ وه ٹوٹی ہوئی انگلیاں اور جوان لاش اس ماں نے کس دل سے دیکھی ہوگی۔ بڑی مضبوط ہیں مشال کی والدہ جو اب تک زندہ ہیں!
مشال پر ڈھائے گئے ظلم کی کہانی دنیا بھر میں سنی گئی، ہیومن رائٹس کمیشن اور اقوام متحدہ نے اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ معاملہ جب بین الاقوامی سطح تک پہنچ گیا تو ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر بھی جوں رینگ گئی۔
ہمارے وزیر داخلہ کا فرمانا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون نہیں چلے گا، یہ والے ڈائیلاگ تو پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان بھی بول چکے ہیں جن کی حکومت خیبر پختون خوا میں ہے۔
مشال کے قتل کے دو روز بعد وزیر اعظم بھی بول پڑے کہا کہ ‘کسی کو قانون ہاتھ میں لینے نہیں دینگے اور پوری قوم یکجہتی کا مظاہرہ کرے’۔
معذرت کے ساتھ وزیر اعظم صاحب، مگر ایسے کتنے واقعات ہوچکے ہیں جب یہ وحشی قوم قانون اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے، اور یکجہتی کا مظاہرہ بھی کر چکی ہے۔
یکجہتی ظلم کرنے کی
یکجہتی ظلم ہوتا دیکھ خاموش رہنے کی
وزیر اعظم صاحب آپ کی جنونی قوم نے 2010میں سیالکوٹ میں مغیث اور منیب کو ناکردہ جرائم کی سزا پر خود ساختہ فیصلہ سنا کے سر عام تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔
اور زیادہ پرانی بات تو نہیں یہ قاتل قوم نومبر 2014 میں ایک مسیحی جوڑے کو توہین رسالت کا الزام لگا کر اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کے جلا چکی ہے۔ 24 سالہ شمع حاملہ تھی جسے روئی سے لپیٹ دیا گیا تا کہ اس کا کام جلدی تمام ہو، 1200آدمیوں کے ہجوم نے ان دونوں میاں بیوی کی ٹانگیں توڑ دیں تا کہ وہ بھاگ نہ سکیں۔
یہ ریاست اسلام کے نام پر بنی تھی۔ اور اسلام ہمیں برداشت، صبر اور محبت کا درس دیتا ہے، لیکن یہ اسلام کے کیسے داعی ہیں جو مدعی بھی خود اور منصف بھی خود ہیں۔
ہم ایک ایسی خونی قوم بن چکے ہیں کہ جس کی پیاس صرف نہتے خون سے ہی بجھتی ہے۔ شدت پسندی ہمارے ذہنوں میں سرایت کر چکی ہے، چاہے وہ کوئی مدرسہ ہو یا پھر کوئی تعلیمی درس گاہ، کچھ بھی اس سے محفوظ نہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔
نوٹس تو پہلے بھی بہت سے واقعات کا لیا گیا تھا، کیا ہوا ان کا؟
دن گزرتے گئے اورلوگ بھولتے گئے
اب سب مشال کے قتل کو بھی بھول جائیں گے، تب تک جب تک یہ خونی اور جنونی قوم کسے نئے مشال کو نہیں ڈھونڈ لیتی! تجسس انہیں نہیں، جنونی یہ ہوچکے پر رنگ دوسرا کہ خونی کہلانے کو فخر کریں۔ خدا ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے۔