ہائے میری عمر لگ گئی مشال کو بڑا کرنے میں

ہائے میری عمر لگ گئی مشال کو بڑا کرنے میں۔
علامتی تصویر

ہائے میری عمر لگ گئی مشال کو بڑا کرنے میں

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ، عامر حسینی اور جبران ناصر جیسے دیگر سماجی کارکنان کے نام

(تسینم عابدی)

ہوائے وحشتِ دل تیز چل رہی ہے بہت
ردائے ہجر مرا سر کھلا نہ رہ جائے

آپ سب پر سلامتی ہو آپ سب حقیقتا فعال سماجی کارکن ہیں میں اور میرے جیسے گمنام سے شاعر و ادیب یا ٹیچرز تو بس زبانی جمع خرچ کرتے رہتے ہیں الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھے رہتے ہیں اور اب تو فیس بک جسے آلہ قتل بنادیا گیا ہے اسی سے ہم عدالت اور مسیحائی کی امید بھی کر رہے ہیں بظاہر تو قنوطیت پسند لگتے ہیں لیکن شاید اس قنوطیت کی راکھ میں کچھ رجائیت کی چنگاریاں بھی موجود ہیں جب بھی برے حالات کی ہوا چلتی ہے یہ امید کی دبی ہوئی چنگاریاں بھڑک اٹھتی ہیں ظاہر ہے کہ اس پر ہم جیسوں کا مذاق ہی اڑایا جاسکتا ہے۔

ضیاءالحق (بلکہ ظلمتِ باطل ) کے زمانے سے لکھ رہے ہیں کبھی غزلوں کی شکل میں کبھی نظموں کی شکل میں کبھی کالم نویسی کی صورت میں ۔۔۔۔مگر بھلا ہو اس سوشل میڈیا کا کہ جس نےاب گم نام سپاہیوں کے مرنے پر ہم جیسے بے نام لوگوں کی بھی تشہیر کردی ۔۔جب سے قلم اٹھایا ہے ضمیر کی دستک ہر گھڑی مصروف رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔کسی کے کعبہ وجود پر جب بھی کوئی ابرہہ حملہ کرتا ہے میرے الفاظ کے ابابیل مجھے بیقرار رکھتے ہیں۔

سنا تو یہی تھا کہ بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا جرم بھی اگر کوئی کرے تو قانونی چارہ جوئی کے لئے ایک طریقہ اپنایا جاتا ہے پولیس ، قانون نافذ کرنے والے ادارے ، عدالت وکیل جج سب ہی کسی سازشی انداز کے بغیر کار روائی کرتے ہیں مگر شاید یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں کیونکہ اب تو کچھ اور ہو رہا ہے ہر ملزم مجرم بن چکا ہے اسے اپنی صفائی میں کچھ کہے بغیر بس اس کے عزیز و اقربا کو یہ خبر پہنچا دی جاتی ہے کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے ۔۔۔۔۔بلوچ رہنما ہوں یا بلاگرزثمر عباس ہو یا شاہجہاں سالف یا کوئی اور سر پھرا کامریڈ ہو سب ہی کسی ایسے گناہانِ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں کہ اب ان کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کی جاسکتی۔

میں ایک سالف کی ہی منہ بولی ماں نہیں ہوں ہرمظلوم اسیر اور مجبور نوجوان کے لئے وہی ممتا کا جذبہ رکھتی ہوں جو ایک چاہنے والی ماں کے دل میں ہونا چاہئے سالف میں اور دیگر گمشدگان میں بس فرق یہ ہے کہ اس نے مجھے چاہا محبت کی اور ایک ماں کی طرح احترام کیا۔ میں ان گمشدگان کی بے گناہی کی کبھی دعویدار نہیں رہی مگر میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کس قانون کے تحت وہ غائب کر دئے گئے ہیں مشعل کے واقعے کے بعد میری بے تابی بڑھ گئی ہے معلوم ہے کیوں؟ مشعل کی ماں کے الفاظ میرے کان میں گونجتے رہتے ہیں، ہائے میری عمر لگ گئی اس کو بڑا کرنے میں۔