وزیراعظم کا جامعہ نعیمہ میں خطاب اور متبادل بیانیہ۔۔۔ اداریہ

وزیر اعظم کا جامعہ نعیمہ میں خطاب

وزیراعظم کا جامعہ نعیمہ میں خطاب ہوتا ہے۔ آپ علماء سے دہشت کے مخالف متبادل بیانیے میں آگے آنے اور اسلام کے امن کے بیانیہ میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ وزیراعظم اپنے خطاب میں کہتے ہیں کہ مذہب اسلام اپنی اصل میں امن پسند ہے اور یہ امن و سلامتی کا پیغام ہے۔ لیکن بین الاقوامی اور قومی سطح پر یہ پیغام شدت پسندوں کے ہاتھوں چڑھ گیا ہے، جس سے اسلام کی غلط شبیہ سامنے آر ہی۔
سوال بہت سے بنتے ہیں کہ اسلام کا مذہب کب سے شدت پسندوں کے ہاتھ لگا؟ کیا اسے شدت پسندوں کے ہاتھوں میں سونپنے کے لئے ریاست جہاد افغانستان کے تناظر میں اسلام کی اور جہاد کی کون سی جہت کو بروئے کار لائی؟ کس وقت سب سرکاری دانشوروں، علماء اور حکومتی عمال کو جہاد و قتال کے فرض کے بذمہ ریاست ہونے کی فقہی تعلیمات کو پس پشت ڈالنا ہی عین حکمت لگا؟ اس وقت کس طبقہ معاشرت سے اسلام کے کس رخ کو عوام کی نظروں کے بالکل سامنے جہاد کے پراجیکٹ میں شمولیت کی درخواست کی گئی تھی؟ اسی طرح سنہ 1989 سے جہاد کشمیر کے پراجیکٹ کو شروع کرنے کے لئے اسلام اور جہاد کا بیانیہ کس نے اور کن کے حوالے کیا؟ آج بھی جہاد کا بیانیہ کیا ہے، اور کس کے حوالے ہے؟ کیا ہم عوام، ہماری حکومت، ہماری پوری معاشرت و ریاست اپنے ماضی کے کٹے شعور کے فیصلوں کے چنگل میں نہیں پھنس گئی؟

کیا یہی وجہ نہیں کہ ہم نے ایسے بار بار کے ایڈ ہاک بنیادوں پر کئے گئے سرکاری فیصلوں، جن کی حمایت میں ہماری اسی ذہنیت کی اثر و نفوذ کی حامل روایتی اردو پریس اور دیگر ابلاغ عامہ کے ذرائع نے بھی بغیر چوں چراں “سہولت کار” کا کردار ادا کیا، اس کے طفیل اپنی ایسی دو تین انسانی پیڑھیاں (generations) تیار نہیں کردیں ہیں، جن کے لئے آج جہاد اور دہشت گردی گڈمڈ ہوگئے ہیں؟ آج حالات بدقسمتی سے کچھ اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ ریاست کی عملداری اور صرف اسی کے پاس (coercion) کے اختیار ہونے کی رائے رکھنے کا سماجی سرمایہ (social capital) ہمارے پاس موجود نہیں۔ آج ہم اپنے ہزاروں جگر پارے بارود اور چھروں کے ہاتھوں کھو چکنے اور لاکھوں روحیں کچلے جانے کے بعد بھی واضح الفاظ میں دہشت کردی کو برا کہنے کی آوازوں کو بھی سن نہیں پاتے۔
وہی “اگر، مگر، لیکن، یہ، وہ” ۔۔۔ جیسے الفاظ ہمارے بیشتر علماء اور ان کے متاثرین کرام سے سنتے ہیں۔ اہم قومی و معاشرتی معاملے پر واضح پیغام دینے کی بجائے ہمارے لوگ اپنے کئی دھائیوں کے ریاستی و سیاسی فلسفے سے تعمیر شدہ ضمیر اور نئے گردن زدنی والے حالات میں توازن قائم کرتے رہتے ہیں: ایسا توازن جس کا کوئی سرا قابو کرنا خواب و خیال ہی ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ رمضان کی مہنگی ٹیلی ویژن ٹرانسمشنوں میں ہمیں تزکیہ نفس کے فضائل بتانے والے، اور خدا کی راہ میں ہمیں وقت لگوانے کی تبلیغ و دعوت کرنے والے اہم علماء کرام بھی خدا کی مخلوق کے سڑکوں، بازاروں اور سرحدوں پر غریبوں کی اولاد کے جسموں کے چیتھڑے اڑنے پر بھی خاموشی کی معاشرتی، سماجی، ملکی اور دینی بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں، مگر جہاں کہیں خلع و طلاق کے معاملات ہوں تو وہاں ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ افروز ہونے میں عین فرض کی ادائیگی کا ثواب جانیں؟

ہمارے قومی بیانیے کے کون کون سے ذرائع ہیں؟ دستور پاکستان بطور خاص ریاستی حکمت عملی کے رہنما اصول (Directive Principles of Policy)، داخلی سلامتی کی پالیسی (NISP)، پلاننگ کمیشن کا ویژن 2025، تعلیمی پالیسی، اور اس کی روشنی میں (افسوس روشنی کا لفظ کہاں استعمال کرنا پڑا ہے) بننے والے تعلیمی نصابات وغیرہ، کیا ان اہم قومی دستاویزوں میں آپسی ربط و انطباق ہے؟ ان پر عملدرآمد کی نیت تو ایک اور سوال ہوسکتا ہے۔
مزید یہ کہ کیا قومی بیانیہ صرف مذہبی دہشت پسندوں سے ہی خطرے میں ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ صرف نظر مت کیجئے کہ بیانیہ پر مسند انصاف پر بیٹھنے والے بھی کچھ کم اثر نہیں کر رہے۔ بیانیہ کے متعلق بہت سارا علمی کام موجود ہے، (اب علماء کو مزید مکلف نا کیجئے) اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ  کیا ریاستی و حکومتی ادارے پہلے سے موجود متبادل بیانیہ کی سفارشات پر عمل کرنے کی ذہنی اور نیت کی استعداد رکھتے ہیں؟ ہمیں وطن عزیز کی منزل کا عصر حاضر کی روح اور مستقبل شناسی کو بنیاد بناتے ہوئے واضح نقشہ پیش کرنا ہوگا۔ اور اس منزل پر پہنچنے کے لئے زاد راہ کا سیاسی انداز سے تعین کرنا ہوگا، اور خود قیادت و سیادت کی ذمہ داری لینا پوگی۔

ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ ریاستی و حکومتی اداروں میں موجود افرادی قوت کو پہلے کسی نئے عظیم بیانیے کا قائل کرنا پڑے گا، کیونکہ جس بیانیے کو صرف شدت پسندوں تک محدود سمجھا جا رہا ہے، بدقسمتی سے اس بوڑھے برگد کی جڑیں کہیں زیادہ گہری ہیں۔ ہمیں کڑوے سچ کو سننا، برداشت کرنا اور اس کے حل تجویز کرنا ہونگے۔ حقائق سے چشم پوشی کسی مسئلے کا حل فراہم نہیں کرسکتی۔ دستور پاکستان کو ہمارا سیاسی محاورہ بننا ہوگا، اسے کاغذ کا ٹکڑا کہنے والوں اور آئین سے پہلے جغرافیہ اور خطیر بجٹ کا ذریعہ بننے والے ملک کے نام کو خالی خولی سب سے پہلے رکھنے والوں کو حدود میں رکھنا ہوگا اور ان کے ذرائع ابلاغ میں سہولت کاروں کو نکیل ڈالنا ہوگی۔ آئین و قانون اور جمہوری اصولوں کی پاسداری میں ہی ایک پرامن پاکستان کی ضمانت پیش کی جاسکتی ہے۔

(اضافی جملہ: چار ایک روز پہلے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جس کو حکومت نے کالعدم قرار دیا ہوا ہے، ان کی جانب سے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں واقع Savour Foods کے عین سامنے ایک اسٹال لگایا گیا تھا۔ تبصرہ قاری کے ذمے)