بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ، پر اس کہانی کو اب کیا ہوا؟

ایک روزن لکھاری
نورین زہرہ

بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ، پر اس کہانی کو اب کیا ہوا؟

(نورین زہرہ)

بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ ایک جزیرے پر ایک کشتی پھنس جاتی ہے۔ کشتی میں صرف بچے ہی بچے ہیں۔ جدید زندگی کی سہولتوں، نظام اور تہذیب سے دور۔ عقل و شعور میں کمسن۔ پہلے تو بچے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ پھر جزیرے پر اتر کر جائزہ لیتے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ کچھ وقت کھیل کود کر خود کو بہلا لیتے ہیں۔ لیکن جب گھنٹوں گزرنے کے بعد بھی کوئی داد رسی کو نہیں آتا تو احساس ہوتا ہے کہ خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔

بھوک لگی تو طاقتور بچے نے لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے سب کو ساتھ ملا لیا۔ لکڑیاں، ڈنڈے، نوکیلی اشیا جمع کیں اور جانور کا شکار کر ڈالا۔ بھوک مٹی تو خوف بھی جاتا رہا۔

پھر اس کھیل میں مزا آنے لگا۔ جس جانور کا شکار کیا اس کا سر ایک پول نما ڈنڈے پر ٹانگ دیا اور سب نے مل کر چاروں جانب ایک دائرے کی صورت میں رقص شروع کر دیا۔۔۔ اچانک کسی نے آواز لگائی، مارو اس موذی کو مارو، کہ دوسرے نے آواز میں آواز ملائی گردن کاٹو، تیسرا چلا اٹھا خون بہاؤ۔۔۔ باقی سب کے قہقہے بلند ہوئے۔

رقص میں تیزی آتی گئی ،زمین پر پیروں کی دھمک گونجنے لگی، سب ہم آواز ہو کے نعرے لگاتے جاتے مارو مارو، گردن کاٹو خون بہاؤ ۔۔۔ ایک سماں سا بندھ گیا، سب پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس کے بعد شکار، شکار نہ رہا، ایک خون کی پیاسی رسم بن گیا۔ پول پر ٹنگے جانور کے خون آلود سر پر مکھیاں بھنکتی رہیں، کسی نے آواز لگائی ارے یہ تو مکھیوں کا سردار ہے۔ سب دیوانہ وار قہقہہ لگانے لگے۔

یہ 1954 میں چھپے برطانوی ادیب ولیم گولڈنگ کے مشہور ناول “لارڈ آف دی فلائز” کی کہانی ہے جس میں مصنف کا مقصد معاشرتی تہذیب سے کٹ جانے کی صورت میں انسان کے رویے اور کردار پر اثرات کی عکاسی کرنا ہے۔ گولڈنگ کے مطابق ریاست کے وجود کے بغیر انسان کو تہذیب میں باندھنا ناممکن ہے۔

گولڈنگ کا کہنا کہ انسان اس وقت تک مہذب ہے جب تک کہ اس کو قانون، سزا اور احتساب کی صورت میں جدید معاشرے کی اقدار نے اپنے اندر باندھ کر رکھا ہو۔ جہاں اس کا ربط ان چیزوں سے ٹوٹے گا، اس کا رشتہ تہذیب سے بھی ٹوٹ جائے گا۔ وہ ایک بے قابو جارحیت سے بھرپور ہجوم کے جیسا رویہ اختیار کر لے گا۔ ایسے میں انسان گندگی میں اترتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اس کا باطن پول پر ٹنگے بھنبھناتی مکھیوں والے اس جنگلی جانور کے سر کی مانند تعفن زدہ نہ ہوجائے۔

وہ مفروضے پر مبنی 1954 کا ایک جنگل تھا۔ یہ دو ہزار سترہ کے شہری مرکز کی ایک درسگاہ ہے۔ وہاں کمسن شعور سے نابلد بچے تھے۔ یہاں عاقل و بالغ اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ نوجوان ہیں۔ وہاں شکار بھوک مٹانے کا بہانہ تھا، یہاں خون کی پیاس بجھانے کے سوا کچھ اور نہیں۔ وہاں بے زبان جانور کو ڈنڈوں سے ہانکا جا رہا تھا، یہاں زبان رکھنے والے ایک جیتے جاگتے انسان کو ہانکا گیا، مکوں سے، لاتوں سے، ڈنڈوں سے، یہاں تک کے اس کا دم نکل گیا۔ لیکن پھر بھی بس نہ ہوئی۔۔۔ کیوںکہ وجد تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔

مارو ماور، کاٹو مارو، خون بہاؤ

1954 میں گولڈنگ کی کہانی میں اٹھائے گئے سوالات 2017 میں گڈ مڈ سے ہونے لگے ہیں۔ آج تو ریاست بھی ہے، قانون بھی، درس و تدریس بھی اور جدیدیت بھی۔۔۔ تہذیب کہاں ہے؟

ایسی کون سی کڑی ہے جو دو ہزار سترہ کے جدید انسان کے خون کی پیاس کو تہذیب کے بند میں باندھ سکے؟

آج کے دور کا مکھیوں کا سردار کون ہے؟

___________

مصنفہ، نورین زہرہ کا خصوصی شکریہ؛ یہ تحریر “ہم سب” ڈاٹ پی کے پر بھی شائع ہوئی۔

About نورین زہرہ 1 Article
نورین زہرہ براڈکاسٹ صحافی ہیں۔ آج کل جیو نیوز سے بطور سینئر نیوز پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کی حاصل شدہ تعلیم و زیر نظر مطالعہ میں تنوع، ان کی سوچ میں توازن کی صورت میں جھلکتا ہے۔ پہلے انگریزی زبان میں ڈان ڈاٹ کام کے لئے لکھتی رہی ہیں، لیکن اب کہتی ہیں کہ، مجھے گفتگواگر عوام سے ہے تو اردو کو وسیلہ اظہار بنانا ہوگا۔ آس پاس کے دنیا کو دیکھتی ہیں تو حالات و حیات کی الجھتی ڈوروں کے بگاڑ کا نوحہ کہتی ہیں۔