مشعل تو کب کی بجھ چکی ایک مشال باقی تھا: اب آپ اپنے قتل کا انتظار کیجئے

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

مشعل تو کب کی بجھ چکی ایک مشال باقی تھا: اب آپ اپنے قتل کا انتظار کیجئے

(یاسر چٹھہ)

مشعل بجھ گئی۔ بھائی علی ارقم پشتون ہیں۔ کہتے ہیں وہ جسے مشال کہا لکھا جا رہا ہے وہ دراصل مشعل تھا۔ پشتو زبان بولنے والے اپنی vocal cords سے مجبور مشعل کو مشال کہنے پر ہی قادر ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ کہ مشعل کو ہم صرف مشال کہہ پاتے ہیں صرف پشتو سے ہی کب مخصوص ہے۔ ہم سب مشعل کو مشعل کہنے کی نہ صرف لسانی صلاحیت سے بے بہرہ ہوچکے بلکہ یہ توازن کتنی جگہوں پر اور بھی اور کب کا بگڑ چکا۔ ہم کب کے اندھیرے مٹانے والی چیزوں کے ہجے تک بھول چکے۔ ان سے رہنمائی کیسے لیں۔

مقتل سج چکا ہے۔ اس مقتل کو سجانے، اس کی چار دیواری گرانے کا فعل صالح تو اپنا اندھیرا پھیلاتا جا رہا تھا۔ ہم چینخ رہے تھے۔ آپ صالحین اور معتدل مسلمان سنتے کب ہیں۔ آپ تو فوری طور پر بغیر سنے، بغیر دیکھے، بغیر پرکھے، مضامین خیال کو بغیر پڑھے نتائج پر پہنچنے کی استعداد پا چکے۔

کبھی کتاب میں پڑھا تھا کہ یقین کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی قسم ہوتی ہے کہ سنی سنائی پر یقین باندھ لیں۔ کہنے والا بڑا معتبر شخص تھا۔ وہ کہتا ہے کہ دوسری قسم اپنی آنکھ سے دیکھنے کی قسم ہے، اسے اس نے عین الیقین کہا۔ تیسری قسم خود اسے تجربے کی جزئیات کے اندر سے گزر آنے کی بنیاد کا سچ ہے۔ اس سچ کو اس معتبر شخص نے حق الیقین باور کرایا۔ ساتھ ہی میں کہا کہ حق الیقین سب سے افضل ہے۔ لیکن یہ تیسرا درجہ بڑی جدوجہد اور بصیرت و بصارت سے میسرہوتا ہے۔
لیکن افسوس ہمارے عہد پر ایک بہت بڑا سانحہ آن پڑا ہے۔ ہمارے اس عہد میں جو سانحہ آن پڑا ہے وہ وجودیاتی اور وجودی بنیادوں کی چولوں کو ہلا کر رکھ دینے سے متعلق ہے۔ ہمارے اس عہد میں حق الیقین کے انتہائی جدوجہد سے عبارت درجہ کی بہ آسانی، بغیر کسی محنت کے، بغیر کسی گواہی کے کی مدد کے، بغیر کسی جرح کے میسر ہو گیا ہے۔ اب کسی پر الزام دھریے۔ الزام دھرنا جرم کرنے کے برابر ہوگیا ہے۔

یہ نامعقول راقم بہ لحاظ پیشہ تدریس سے وابستہ ہے۔ اسے وقتا فوقتا اس کے مخلص دوست مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ کچھ موضوعات پر مت بولا کرو۔ ناچیز کو ان کے خلوص پر کوئی سوال نہیں ہوتا۔ وہ اتفاق کرتا ہے کہ وہ اپنے اخلاص کی سچی زمین پر کھڑے ہوکر بتاتے ہیں کہ “رک جاؤ، آگے مت بڑھو!” گو کہ یہ جانتا ہوں کہ سوال کرنے کی عادت مروائے گی۔ پھر بھی سوال کر بیٹھا کہ کیوں چپ رہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ، “مر جاؤ گے!” تو کہا کہ کیا پہلے زندہ ہیں۔ ان میں سے ایک نے تفصیل دی کہ ، “میں فلاں فلاں جگہ بیٹھا تھا۔ کسی “افسر” کے ساتھ….” خالی جگہیں بھر لیجئے گا، وہی افسر تھا جو آپ کے گمان میں آن چکا ہے۔ تو بات جاری رکھتے ہیں کہ ” وہ کہہ رہا تھا آج کل ہم بلاسفیمی پر بہت حساس ہوئے ہیں۔ اور وہ آپ کے اس … کا فلاں فلاں ڈاٹ کام بہت آگے بڑھ رہا ہے۔ کہیں بلاسفیمی کے نرغے میں نا آ جائے۔”
ہم تک یہ پیغام بالواسطہ پہنچا۔ مان لیا کہ ہمارے گرد کے سارے پتے جن سے سلامتی اور امن مانگنا تھا وہیں سے پہلے ہی محض ہوا نہیں بلکہ ہوائیاں چھوڑی جا رہی ہیں۔

احمد وقاص گواریہ کے وہ لفظ نہیں بھولتے جو بقول ان کے انہوں نے اپنی گمشدگی کے دنوں میں سے ایک دن سنے تھے۔ یہ لفظ کسی چھوٹے لیکن بڑے بن گئے ہوئے افسر نے اپنے سے بڑے لیکن بہت ہی بڑے بن گئے ہوئے افسر کے سامنے کہے تھے۔ کہتے چلیں کہ سنی بات ہے، حق الیقین نا ہونے کی بناء پر ابھی تک خوش گمان ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن وہ خود کو “سابقہ گمشدہ شخص” کہنے والے احمد وقاص گورایہ کہتے ہیں کہ پہلے افسر نے دوسرے سے کہا، ” سر، باہر بہت شور مچ گیا ہے، ان بلاگروں پر بلاسفیمی نا ڈال دیں۔” اس کے بعد ڈیفنس ڈاٹ پی کے نے مخصوص وضع قطع کے لوگوں کو کچھ ایسا با خبر انداز کا شربت پلا دیا کہ یہ پوچھنے کی ضرورت وقت کا زیاں لگی کہ، بھئی کیا پی کے ہو؟”

ایک نئے مہلک اور غلیل سے نکلی شیشے کی آتشیں گولی کی طرح کنٹرول سے باہر ہتھیار کو سرکاری بیانیے کے اسلحہ خانہ میں جگہ مل چکی تھی۔ بس اب سوشل میڈیا کے اعتدال پسند مسلمان حق الیقین کے درجے پر پہنچ چکے تھے۔ اب بہ ظاہر قانونی رستے کے ماننے والے اعتدال پسند، گمشدگان کی سرعام پھانسی سے کم سزا کے علاوہ کسی طور پر بھی کم کسی بات کو سننے کو تیار نا تھے۔ ہمارے وہ طلباء جنہیں ہم اتنی محبت اور محنت سے سوچنے کی عادت ڈالنے کی تربیت دیتے رہے تھے، وہ ہماری فیس بک پوسٹوں کے نیچے فلاں کو پھانسی دو، ڈھمکاں کو پھانسی دو کے ہیش ٹیگوں (hash tags) کے ساتھ ہم پر بوچھاڑ کرتے جا رہے تھے۔ ہمارے رفیق ہائے کار بھی پروفیسر کم اور prophesy-er زیادہ بن چکے۔ گویا سب طرف آگ برابر کی لگی ہوئی تھی۔ اللہ پناہ!

مشعل تو بجھتی جا رہی تھی۔ اب سرکاری بیانیے کے طوفان نے وجودی تھپیڑا مارا تھا۔ کل رات جیو ٹی وی پر شاہزیب خانزادہ نے اپنے پرائم ٹائم شو میں ایک تحقیقی ادارے کے مطالعے کا حوالہ دیا ہے۔ تفصیل یہاں روزنامہ جنگ کے کی اس رپورٹ پر ملاحظہ ہوسکتی ہے۔

تحقیقی مطالعہ کہتا ہے کہ بلاسفیمی کے 80 فی صد سے زائد الزامات جھوٹے ثابت پوئے ہیں۔ مزید یہ کہ 1987 کے بعد سے الزامات کے لگانے میں تیز رفتاری آئی ہے۔

سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات و مرتبہ اپنے ذاتی مفادات کے تاجروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ راقم تو ان کی شفاعت پر امیدیں باندھے تھا۔ اپنے گناہوں پر نادم، مگر شفاعت سے آس تھی۔ مجھے خوف آنے لگا ہے کہ ہم کہیں طائف والے تو نہیں۔ ہمارے اندر کے بھیڑیئے رحمت العالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارفع ترین مقام و مرتبہ کو محض ایک نئے ناقابل تسخیر ہتھیار کے طور پر برت رہے ہیں۔ اسلام کی تجربہ گاہ یہ وطن، بلاسفیمی کے نامعقول ہاتھوں میں چلے جانے سے ایک دوزخ بنتا جا رہا ہے۔ اسلام کے قلعے کہے جانے والے میرے وطن کو آگ کا گڑھا بنایا جا رہا ہے۔

میں اور آپ اپنے قتل کا انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ یا تو اپنے ذہن کو سوچنے کی نجس حرکت سے باز رکھنا ہوگا؛ منھ میں انگلیاں دبا کر ناخن چباتے پوئے چپ رہنا سیکھنا ہوگا، یا پھر قطار میں سیدھے ہوجائیے اور اپنے قتل کی باری آنے کا انتظار کیجئے! یاد رکھئے گا ہمارے وطن کی ہجومی عدالت کے انصاف کی حسابیات میں الزام مساوی ہوچکا ہے جرم کی سرزدگی کے۔ بس آپ آنکھیں بند کر لیجئے۔
البتہ انہیں جو لاٹھی پتھر والے اعتدال پسند ہیں ایک درخواست کرتے ہیں کہ اگلی بار جب آپ کسی کو “بلاسفیمی کے الزام کے جرم” میں قتل کرنے چلیں تو ایک بار کچھ لمحوں کے لئے دھیان کر لیجئے گا کہ کیا واقعی اس نے بلاسفیمی کی ہے؟ (اگلے سوال پھر کہ آپ نے سوال کرنا بھی مساوی بہ جرم کردیا ہوا ہے۔) سوال بہت چھوٹا سا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس پر چند ثانیے غور کر لینے سے ہمارا یہ وطن اور یہ دنیا دوزخ بننے سے ایک قدم پیچھے آ سکیں۔

پس تحریر: مشعل کو جلائیے، مشال کو نہیں۔ کچھ روشنی پائیے اور اپنی آنکھیں واپس مانگئے۔ ہم نے کب سے اپنی آنکھیں اور سوچ ادھار دے دیں ہیں۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔