برصغیر پاک و ہند کا مسلم دور اور فنون لطیفہ

اصغر بشیر، لکھاری
Asghar Bashir

برصغیر پاک و ہند کا مسلم دور اور فنون لطیفہ

از، اصغر بشیر

انسانی علم کے ابتدائی گہوارہ ایتھنز میں جب افلاطون نے اپنی مثالی فلاحی ریاست کانظریہ اپنی کتاب ‘‘ری پبلک’’ میں پیش کیا تو اس نے فنون لطیفہ کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ محض نقالی کا عمل ہے اور اصل نقل سے ہمیشہ بہتر ہوتی ہے لہٰذا اس کی مثالی ریاست میں فنون لطیفہ بشمول شاعری کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

افلاطون کے شاگرد ارسطو نے اس کا جواب اسی علمی، اخلاقی اور سماجی معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب ‘‘بوطیقا ’’ میں دیتے ہوئے کہا کہ فنون لطیفہ در اصل فطرت کے عمل کی نقالی نہیں بلکہ عملی شکل ہے جس کو دوبارہ تخلیق کیا جاتا ہے اور یہی نقالی کا عمل بالآخر ایک اپنی نئی فطری جگہ حاصل کر لیتا ہے۔ اس طرح ارسطو افلاطون کے نظریہ کے بالکل برعکس تصور دیتا ہے کہ فنون لطیفہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھار کر انسان کو اپنی زندگی میں رنگینی پیدا کرنے کا موقع دیتے ہوئے اس کے لیے ممکنات کے نئے در وا کرتے ہیں۔ یہ فنون لطیفہ ہی ہوتے ہیں جو انسانی زندگی کے سماجی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور تخیلاتی ماحول کو پروان چڑھاتے ہیں۔ فنون لطیفہ کا تعلق انسان کے ساتھ مختلف حالتوں اور صورتوں میں عمر کے ہر مرحلےمیں رہتا ہے۔

فنون لطیفہ کسی خاص گروہ کی جمالیاتی حِس کا بہترین اظہار ہوتے ہیں۔ کسی خاص علاقے کے فنون لطیفہ اس علاقے کے لوگوں کی ذہنیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ مزید براں یہی فنون لطیفہ اس علاقے کے لوگوں کا ورلڈ ویو اور ذہنی پیراڈائم بنانے اور ظاہر کرنے میں بہت مدد گار ہوتے ہیں۔ چند علاقائی اضافوں کے علاوہ پوری دنیا میں موسیقی، مصوری، سنگ تراشی، شاعری اور رقص کو بنیادی فنون لطیفہ گردانا جاتا ہے۔ اسی طرح فرانس میں کوکنگ فنون لطیفہ کا حصہ ہے تو برصغیر پاک و ہند میں عمارات کو فنون لطیفہ کے حوالے سے خاص اہمیت رہی ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں فلم کو بھی فنون لطیفہ میں شامل کیا جاتا ہے۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلم دور میں کس طرح فنون لطیفہ نے ترقی کی اور اس ترقی کا معیار زندگی پر کیا اثر پڑا اور یہ ترقی معاشرتی ارتقاء پر کس طرح اثر انداز ہوئی۔ اس سلسلے میں یہ نقطہ نظر بھی قابل غور ہے کہ کیا ہم اپنے فنون لطیفہ کو اپنا کر اور اس کو بنیاد بنا کر اقوام عالم میں قابلِ عزت مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر یہ عظمت رفتہ کا نشہ افیون کی طرح ہمارے رگ و پے میں سرائیت کر کے ہمیں خواب غفلت میں سلائے ہوئے ہے؟

تاریخ پر ایک نظر واضح کر دیتی ہے کہ اگرچہ بَرّ صغیر پاک و ہند میں مسلم دور کا آغاز بہت پہلے سے ہو گیا تھا مگر یہ مغلیہ خاندان تھا جس نے فنون لطیفہ کی طرف خاص توجہ دی۔ مختلف مغل شہنشاہوں کے دور میں مختلف فنون نے ترقی کی۔ اس سلسلہ میں پہلا واقعہ 1549 میں ہمایوں (1530-56) کے دور میں پیش آیا جب اس نے دو ایرانی مصوروں کو داستانِ امیر حمزہ کو تصویری شکل میں پیش کرنے کو کہا اور انہوں نے یہ کام قریباً 1400 کپڑے پر بنی ہوئی بڑی پینٹنگز کے ساتھ مکمل کیا اور اس طرح ہندوستان میں مصوری کی ایک باقاعدہ روایت کا آغاز ہوا۔


مزید دیکھیے: جب ہم اُردو میں غلط انگریزی بولتے ہیں


بادشاہ اکبر (1556-1605) کا دور فنون لطیفہ کے لحاظ سے کافی زرخیز ثابت ہوا ۔ اسی کے دور میں فن تعمیرات اور فن خطاطی اور دوسرے اسلامی فنون ایرانی، ترکی اور ہندوستانی امتزاج سے اک نئی شکل میں پیدا ہوئے۔ فن تعمیرات میں سب سے قدیم مغل یاد گار بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ ہے جو کہ اکبر کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس مقبرے کو میرک مرزا گیاس نے ڈیزائن کیا تھا اسی طرح اسی کے دور میں آگرہ میں موجود لازوال مغل تعمیرات اکبر کے دور میں ہوئیں۔ اکبر نے فتح پور سیکری کے نام سے ایک شہر آباد کیا تھا جس کا زیادہ تر حصہ مغلیہ تعمیرات کی خصوصیات کا حامل تھا۔ یہ شہر 1585 میں ترک کر دیا گیا ۔ اسی طرح اکبر نے مقامی پینٹرز تیار کرنے کے لیے ایک اکیڈمی بھی بنائی جس میں ایرانی پینٹرز مقامی لوگوں کو تربیت دیتے تھے۔

جہانگیر (1605-1627) نے اپنے دور سلطنت میں فنون لطیفہ پر خاص اثر ڈالا وہ فنون لطیفہ کو تخیلاتی عمل کی بجائے زندگی کے لیے ضروری شے تصور کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے پینٹنگز میں تصوراتی بیانات کے بجائے اپنی زندگی کے واقعات کو کینوس پر اتارنے میں ترجیح دی۔ منصور اور منوہر اس دور کے مشہور مصور تھے۔ اسی طرح اس نے ریت کے پتھروں کی بجائے ماربل کے استعمال کو تعمیرات کا حصہ بنایا۔ اس کی تعمیرات کی تعداد اگرچہ محدود ہے لیکن اس کا اثر بہت گہرا ہے۔

شاہ جہان (1628-58) نے تاج محل بنوا کر مغلیہ فن تعمیر کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ اسی طرح اس نے دہلی میں لال قلعہ بنوایا اور دوسرے فنون کو بھی بام عروج عطا کیا۔ مغلیہ فنون لطیفہ کا دورِ عظمت جو ہمایوں سے شروع ہوا تھا وہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت تک آکر ختم ہو گیا۔ اسی دور میں مغلیہ اکیڈمی کو بھی ختم کر دیا گیا اور بہت سے فنکار مغل دربار چھوڑ کر علاقائی درباروں سے جڑ گئے۔

مغلیہ دور کی یاد گار تعمیرات نہ صرف فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ چند یاد گار تعمیرات یہ ہیں۔ بادشاہی مسجد لاہور جو کہ اورنگ زیب نے 1671 میں بنانے کا حکم دیا تھا اور یہ 1673 میں مکمل ہوئی تھی۔ اسی طرح نولکھا محل جس کی 1631میں تعمیر شروع ہوئی اور 1633 میں مکمل ہوئی چونکہ اس پر لاگت نو لاکھ آئی تھی اس لیے اس کا نام نو لکھا محل پڑ گیا۔

اسی طرح اعتماد الدولہ کا مقبرہ جو کہ آگرہ میں واقع ہے یہ 1622 سے 1628 کے درمیان تعمیر ہوا اس کو بے بی محل اور تاج محل کا ابتدائی نمونہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نور جہاں نے اپنے باپ مرزا گیاس بیگ کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسی طرح لاہور قلعہ، شالیمار باغ، مسجد وزیر خان، قلعہ آگرہ، مسجد وزیر خان، اور شاہ جہان مسجد ٹھٹھہ اپنے دور کی عظیم یادگاریں ہیں۔ اسی طرح یونیسکو نے برصغیر پاک و ہند میں جن مقامات کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جو برصغیر پاک وہند کے مسلم دور کی یاد گار ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک خاص علاقے اور دور کے فنون لطیفہ میں اس دور کے سماجی ، سیاسی، اخلاقی، مذہبی، اجتماعی اور معاشرتی عوامل کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اسی لیے بہتر ہوگا کہ مغلیہ دور میں پنپنے والے فنون لطیفہ کو اسی دور کے عوامل کی رو سے دیکھا جائے کیونکہ اگر کسی عمل سے اس کے محرکات الگ کر دیے جائیں تو اس عمل کے نتائج بدل جاتے ہیں بالکل اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مغل خاندان تیمور اور چنگیز خان کی اولاد میں سے تھا جنھوں نے سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک جنوبی ایشیا، ایشیائے کوچک، اورمشر ق کے کچھ علاقوں پر حکومت کی۔ مغلوں کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ایک وسیع آبادی والے ملک میں ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں ان کی عظمت حاوی ہو کیونکہ جب ذہن کو قابو کر لیا جائے تو جسم خود بخود قیدی ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے تعمیرات سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ پس تعمیرات کے ذریعہ نہ صرف انہوں نے اپنے وجود کا احساس دلایا بلکہ ہندوستانی وایرانی تہذیب کے ملاپ سے اک نئی تہذیبی شکل رونما ہوئی جس سے مختلف پس منظر رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ پس برصغیر پاک و ہند کی مسلم دور کے فنون لطیفہ کو اس دورکے حکمرانوں کا اپنی شناخت کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیے جو مشترکہ تہذیبی رنگ لیے ہوئے ہے۔

آج جبکہ زندگی کے تقاضے بدل چکے ہیں، دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے جس میں اپنی نسل قوم اور علاقے پر فخر کی بجائے مشترکہ انسانی اچھائیوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور کسی بھی انسانی مسئلے سے مل کر مقابلہ کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ماضی کی عظمت  گم شدہ سے جڑے رہنا یقیناً بری حالت کو بد ترین حالت میں بدلنے میں بڑا مدد گار ثابت ہوگا۔ کامیاب قوموں کے لیے ماضی ہمیشہ سے ایک صراط مستقیم کا ذریعہ رہا ہے۔ یقیناً قومیں اپنے آج کا ماضی سے مقابلہ کرکے اپنے ارتقاء کا جائزہ لیتی ہیں۔ لیکن وہ قومیں جو اپنے آپ سے اور اپنے وجود کے ادراک سے محروم ہوتی ہیں ان کے لیے ماضی ہمیشہ سے ایک افیون کی طرح رہا ہے جو حال میں پائی جانے والی تمام تکالیف سے شافی سکون دیتا ہے اس لیے نہیں کہ یہ علاج کردیتا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ احساس کو مار دیتا ہے، تخیل کو تباہ کر دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کو ماضی کے طور پر زندہ رکھا جائے اور حال کو حال کے طور جیا جائے۔