کلاسیکی موسیقی پر ہندوستانی یا پاکستانی لیبل

کلاسیکی موسیقی پر ہندوستانی یا پاکستانی لیبل

(اطہر مسعود)

وطن عزیز میں موسیقی پر لکھنے والے اصحاب کو چند بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : اول وہ جنھوں نے ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر کسی نہ کسی حد تک فن موسیقی کی تعلیم حاصل کی لیکن بوجوہ ریاض اور پبلک پرفارمنس جاری نہ رکھ سکے اور اس شعبے میں تصنیف و تالیف ان کا تخصص قرار پایا۔ ان اصحاب میں جناب رشید ملک (تمغۂ حسن کارکردگی بعد از مرگ) اور جناب سعید ملک سر فہرست ہیں؛ دوم وہ جنھوں نے موسیقی سیکھنے کے بعد ہر قسم کی سماجی اور مالی دشواریوں کے باوجودفن کی دنیا میں خود کو بطور گائیک منوایا اور ’’استاد ‘‘ کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور متعددمعیاری کتب تالیف کیں۔ ایسے اصحاب میں استاد بدرالزماں (تمغۂ حسن کارکردگی) اور قاضی ظہور الحق کے نام اہم ترین ہیں؛ سوم چندایسے ’’فاضل‘‘ اصحاب بھی ہیں جو اپنے تئیں فاضل بہ معنی learned خیال کرتے ہیں تاہم اُن کی تحریریں پڑھ کر سنجیدہ قاری انھیں فاضل بہ معنی extra سمجھتا ہے اور معروف انگریزی شاعر الیگزنڈر پوپ ( ۱۶۸۸ء۔۱۷۴۴ء) کے الفاظ میں بے اختیار کہہ اٹھتا ہے :

Fools rush in where angels
fear to tread

پروفیسر شہباز علی کا شمار بھی اُن معدودے چند مردانِ باہمت میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے شوق ، محنت اور لگن سے نہ صرف اپنے عہد کے جید اساتذہ سے عملی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی بلکہ ساتھ ہی اس پر تصنیف و تالیف کو بھی آگے بڑھایا۔ حال ہی میں آپ کی نئی کتاب’’ کیا صورتیں ہوں گی‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے برصغیر کی موسیقی پر چند ماہرین کے لکھے ہوئے ’’معلومات افزا اور نایاب مضامین‘‘ کو بہ حسن و خوبی جمع کیا ہے ۔ اس سے پہلے سر سنسار کے نام سے موصوف کی پہلی کتاب۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی تھی جو متعدد کلاسیکی اور نیم کلاسیکی فنکاروں کے فن و شخصیت پر لکھے ہوئے اُن کے اپنے مضامین کا مجموعہ تھی۔ مستند معلومات اور دلکش انداز تحریر والی اس کتاب کو محکمۂ ثقافت و امور نوجواناں حکومت پنجاب کی طرف سے ۲۰۰۷ء میں خصوصی انعام سے بھی نوازا گیا۔ نیز اِسی برس یعنی ۲۰۰۷ء میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونااس امر کی دلیل ہے کہ ہمارے ہاں موسیقی پر لکھی گئی معیاری کتب کی مانگ بہر حال موجود ہے ۔
کسی علم یا فن کے حوالے سے اہم مضامین کی ترتیب و تدوین یا محض جمع آوری بھی ایک علمی خدمت ہے لیکن ہمارے ہاں عموماً اسے کمتر درجے کا علمی کام قرار دے کر اُس جائز اہمیت سے بھی محروم کردیا جاتا ہے جس کا یہ کام ، اگر معیاری انداز میں انجام دیا گیا ہو ، بجا طور پر حقدار ہوتا ہے۔ پروفیسر شہباز علی برصغیر کی موسیقی پر اردو اور انگریزی زبانوں میں لکھی گئی اہم کتب پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُن کے تبحر علمی سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسیقی کے موضوع پر اِن زبانوں میں لکھی ہوئی شاید ہی کوئی کتاب اُن کے مطالعہ سے بچ رہی ہو۔ بیسویں صدی کے دوران اردو زبان میں لکھی گئی چند اہم کتب سے وقیع مضامین کا انتخاب کر نے کے بعد انھیں کتابی صورت میں یکجا پیش کر کے شہباز صاحب نے قارئین اور محققینِ موسیقی دونوں کے لئے ایک اہم علمی خدمت انجام دی ہے جس کے لئے وہ بجا طور پرمبارکباد کے مستحق ہیں۔
زیر نظر کتاب’’ کیا صورتیں ہوں گی ‘‘میں گذشہ صدی کے پانچ اہم مؤلفین خان محمد افضل خان، ایم اے شیخ ، رفیق غزنوی ، قاضی ظہور الحق اور شاہد احمد دہلوی کے برصغیر کی موسیقی کے مختلف پہلوؤں پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے جو اُن حضرات کی اپنی کتب یا کسی مجلے میں شائع ہوئے تھے۔ ان کتب یا مجلات کی تاریخ اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے ان کی تألیف کا زمانہ تقریباً ستر برس پر محیط ہے۔ یوں ہمیں مرتب کی ژرف نگاہی کی بھی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ اپنے گہرے مطالعے کی بنا پر ستر برس کے عرصے میں شائع ہونے والی سینکڑوں نہیں تو درجنوں کتب میں پانچ انتہائی اہم مضامین منتخب کر کے قارئین موسیقی کے لئے یکجا پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

کتاب کا عنوان’’ کیا صورتیں ہوں گی‘‘ اس میں شامل ایک مضمون سے لیا گیا ہے جو مرتب کے استاد گرامی قاضی ظہورالحق کی تالیف ہے۔ برصغیر کی موسیقی کے حوالے سے ’’گرو شک پرم پرا‘‘ کی ایک تہذیبی و ثقافتی حیثیت مسلم ہے ۔پروفیسر صاحب نے بھی اسی روایت کی پیروی میں اپنے تعلیمی و اشاعتی ادارے کا نام ’’قاضی ظہورالحق سکول آف اورئینٹل میوزک ‘‘رکھا ہے اور زیر نظر کتاب اس ادارے کے اشاعتی پروگرام کی غالباً پہلی کڑی ہے ۔ کتاب میں شامل قاضی صاحب کا مضمون کلاسیکی اور فلمی موسیقی کی دنیا سے اُن کی پچاس سالہ وابستگی کی یادداشتوں پر مبنی ہے اور بعض شخصیات ، واقعات ، فنی مباحث اور موسیقی کے بارے میں تاریخی اور جغرافیائی معلومات کے حوالے سے خاصے کی چیز ہے۔

قاضی صاحب اور محمد افضل خان کے مضامین کے علاوہ کتاب میں شامل بقیہ تینوں مضامین برصغیر کی موسیقی کی ترویج میں مسلمانوں کا کردار از ایم اے شیخ ، کلاسیکی موسیقی پر ہندوستانی یا پاکستانی لیبل از رفیق غزنوی اور پاکستانی موسیقی : مسلمانوں کی موسیقی کی روشنی میں از شاہد احمد دہلوی ، جیسا کہ اُن کے عناوین سے ظاہر ہے ، کم و بیش ایک ہی موضوع کا احاطہ کرتے ہیں ۔ یہ موضوع قیام پاکستان کے بعد پہلی ڈیڑھ دو دہائیوں تک یا بہ الفاظ دیگر جب تک محترم زیڈ اے بخاری کسی نہ کسی حیثیت میں ثقافتی یا نشریاتی اداروں سے وابستہ رہے ، خاصا گرم رہا۔ زیر نظر کتاب میں شامل رفیق غزنوی اور شاہد احمد دہلوی کے مضامین تو کم و بیش انہی برسوں میں لکھے گئے جب کہ ایم اے شیخ صاحب کا مضمون قدرے بعد کی تالیف ہے۔

اگر چہ ان تینوں مضامین میں بالخصوص اور اگر بقیہ دو مضامین بھی شامل کرلیں تو بالعموم کیا صورتیں ہوں گی میں تکرارِ مطالب کا احساس ہوتا ہے لیکن موضوع کی اہمیت کے پیش نظر قابل قبول ہے۔ رفیق غزنوی کے مضمون کا اصل عنوان پاکستانی موسیقی کا ڈھونگ تھاجسے مرتب نے بدل کر کلاسیکی موسیقی پر ہندوستانی یا پاکستانی لیبل کے عنوان سے کتاب میں شامل کیا ہے۔ غزنوی صاحب کے مضمون کا لہجہ خاصا تند و تیز ہے جب کہ پاکستانی موسیقی : مسلمانوں کی موسیقی کی روشنی میں از شاہد احمد دہلوی کا لہجہ نسبتاً دھیما ہے جس کی جملہ وجوہات سمجھنا چنداں مشکل نہیں ۔ غزنوی صاحب نے زیڈ اے بخاری صاحب کو بجا طور پر تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔ مزید کئی اصحاب بشمول جناب احمد بشیر( بحوالہ آپ بیتی دل بھٹکے گا ) بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان میں موصوف کے ماتحتوں اور کسی نہ کسی بہانے چیک کے خواہشمند آرٹسٹوں کے علاوہ کوئی بھی جناب زیڈ اے بخاری کے ’’نابغہ‘‘ اور’’ عبقری ‘‘ ہونے کا ڈھنڈورچی پہلے تھا ، نہ اب ہے۔ نوزائیدہ مملکت میں ثقافتی پالیسیوں کی غلط بنیاد رکھنے والوں میں جناب بخاری سر فہرست ہیں۔
’’
کیا صورتیں ہوں گی‘‘ پر بحث سمیٹتے ہوئے یہ نشاندہی کرنا لازم ہے کہ یہ کتاب ’’ترتیب‘‘ کے زمرہ میں آتی ہے نہ کہ ’’تالیف‘‘۔ لہٰذا سرورق پر پروفیسر شہباز علی صاحب کا نام بہ طور ’’مرتب ‘‘ آنا چاہیے تھا نہ کہ بہ طور ’’مؤلف‘‘! اسی طرح صفحہ ۷ پر پروف ریڈنگ کی یہ غلطی بھی ضروررفع ہونے کے لائق ہے جہاں خان محمد افضل خان کو ’’ایم اے ، پی سی ایس‘‘ ہونا بتلایا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ متحدہ ہندوستان میں PCS یعنی Provincial Civil Services کے ساتھ ساتھ ایک اور کیڈر بنام PES یعنی Provincial Education Services بھی ہوتا تھا جس سے اُس دور کے بڑے نامور اساتذہ وابستہ رہے ہیں۔ خان محمد افضل خان بھی اُن میں سے ایک تھے ۔ امید ہے آئندہ ایڈیشن میں ان تسامحات کی اصلاح کر لی جائے گی۔

کتاب کے آ خر میں دی گئی فہرست کے مطابق موسیقی پر جناب شہباز علی صاحب کی ایک اور کتاب اسباق موسیقی بھی زیر اشاعت ہے ۔ ہمیں اس کتاب کا شدت سے انتظار رہے گا۔