مسلم لیگ (ن) کی پلی بارگین، مفاہمت والے، اور ٹوبہ ٹیک سنگھ

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

(نعیم بیگ)

مفاہمت ختم، سبق سکھا دیں گے! میاں صاحب مودی کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں تو کشمیریوں پر کیا گزرتی ہوگی؟
ہم نے کبھی فوج کے خلاف بات نہیں کی!
ایسا نہیں ہو سکتا کہ ملک تباہ ہو جائے اور میں خاموش رہوں
(آصف علی زرداری شریک چیئرمین پیپلز پارٹی)

یہ وہ جلی سرخیاں ہیں جو ملک کے سب سے بڑے اخبار نے اپنی ۲۸ دسمبر ۲۰۱۶.ء کی اشاعت میں لگائیں۔ بظاہر ان خبروں میں جس دکھ اور درد کی لہر ہے وہ قوم کا سرمایہ ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوپاتا؟ کیوں کہ ہم ابھی تک ان سیاسی نعروں سے نہیں نکل سکے؟ مسٹر زرداری خود اختیارکردہ جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آ چکے ہیں؛ اور ۲۷ دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی نویں برسی پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے روایتی سیاسی نعروں پر اکتفا کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی واپسی بہر صورت ایک اچھا اقدام ہے جس سے جمہوری روایات کو جن سنگین خطرات کا سامنا تھا اورہے، سے نہ صرف نجات ملنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں، بلکہ خود زرداری کی متوقع گرفتاری کو پارلیمنٹ کا مضبوط سہارا مل جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے چار مطالبات کی جو مانگ نون لیگ کو دے رکھی ہے اس پر بلاول گزشتہ کئی ایک ہفتوں سے سیاسی جلسوں میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام کر رہے تھے لیکن عوامی سطح پر شنوائی نہیں ہوئی؟

شنیدن ہے کہ عمران خان کی سولو فلائیٹ بنام پانامہ لیکس پر حکمرانوں پر خوف کے جو گہرے سائے منڈلا رہے تھے اور کئی ایک محاذوں پر شکست ہونے کے خطرات کے پیشِ نظر نون لیگ نے بظاہر اپنے حریف پیپلز پارٹی کے اعلیٰ ایوانوں میں میثاقِ جمہوریت کی دہائی دی تھی۔ جس پر پیپلز پارٹی نے بھی فوری مفادات کے حصول کے پیشِ نظر چار مطالبات سامنے رکھ دیئے تھے۔ یہ وہ لمحات تھے جہاں بیک وقت کئی ایک نتائج سامنے آنے کی صورت بھی تھی۔
پی ٹی آئی کی بدقسمتی کہ فوج اور عدالتِ عظمیٰ کے چیفس آگے پیچھے اپنی ملازمت مدت پوری ہونے پر خوف کی اَن دیکھی فضا کو ہوا میں تحلیل کر گئے۔ ایسا ہوتے ہی حکمران غیر مرئی خوف سے نکل آئے۔ عمران خان کی وقتی خاموشی ( عدالت کی اگلی پیشی ) تک پیپلز پارٹی نے حکمرانوں کو اقتدار کی سولو فلائٹ سے روکنے کے لئے اپنے شریک چیرمین کی جلاوطنی کو خیر آباد کہتے ہوئے میدان میں آنے کا عندیہ دیا۔
یہاں مسئلہ یہ تھا کہ ایشوز کیا ہونگے؟ کیا مہنگائی پر عوام اٹھیں گے؟ کیا سماجی ومعاشرتی بے انصافی پر قوم کھڑی ہو سکتی ہے؟ کیا حکومت کے خلاف پانامہ اور دیگر کرپشن کیسز پر شور مچانے سے انقلاب آ سکتا ہے؟ (یہاں انقلاب سے مراد پیپلز پارٹی کی حکومت ہے)۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ وہ ایشوز ہیں جس کا حل اب اس سماج کی سرکردہ اکائیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں نے انفرادی طور پر خود ہی ڈھونڈ لیاہے۔

اب معاشی ضروریات کے تحت عوامی نچلی اور درمیانی سطح تک کرپشن کوئی معانی نہیں رکھتی۔ جرائم کی تیزی سے بڑھتی ہوئی رفتار، سٹریٹ کرائم اس بات کی غمازی کرتے ہیں۔ انتہائی شریف اور باکردار لوگ بھی اپنی معاشی ضروریات کو جیسے تیسے نیم کرپشن، مٹھائی کے نام پر (آپ اسے بے ایمانی اور جھوٹ کہہ سکتے ہیں) اور ٹیکس چوری سہولیات دینے کے وعدے وعید و انفرادی چوری سے حل کر لیتے ہیں۔

رہا سماجی انصاف، تو وہ اب اس معاشرے میں بے معنی ہو گیا ہے۔ عام آدمی نے صورتِ حال سے سمجھوتا کرتے ہوئے یا تو خود انتقام لینا شروع کر دیا ہے یا پھر صبر سے کام لیتے ہوئے کسی مناسب موقع پر مخالف کو زِک یا نقصان پہنچانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق روزانہ پاکستان بھر میں اندازا دس افراد خودکشی کرتے ہیں۔ عام متوسط طبقے نے عدالتوں میں جانا چھوڑ دیا ہے۔ ہاں البتہ اعلیٰ مالی و کارپوریٹ مفادات کے لئے بڑی عدالتیں حاضر ہیں جہاں پیسے کی ریل پیل سے وکلاء حضرات ، کلائنٹ دونوں خوش ہیں۔ باقی رہا پانامہ اور دیگر کرپشن، عوام نے ایک نفسیاتی سطح پر اس خیال کو تجسیم کر دیا ہے کہ جب انہیں وقت ملے گا وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ جب سماجی صورتِ حال اس نہج پر ہو تو کھوکھلے سیاسی نعرے کوئی معانی نہیں رکھتے۔

یہ بد عنوانی ، بد نظمی اور سماجی سطح پر انارکی کی پہلی منزل ہے جو عمومی طور پر سماج میں سرائیت کرتے ہوئے اسے ایک معاشرے میں بدلتی ہے جہاں نفیساتی سطح بے حس اور غیر انسانی اخلاقیات سے گریز معاشرہ جنم لیتا ہے۔ عمرانی علوم اور عالمی سیاسی رحجانات کے ماہرین اس بات پر متفق ہو رہے ہیں کہ دنیا کے کئی ایک نئے ممالک میں ابتدائی انارکی کی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے جہاں اصولِ عمرانیات کے تحت حکومتیں اپنے وجود کی موجودگی میں فیل ہو چکی ہیں۔ ان میں لاطینی امریکہ کے ممالک ایشیا کے کئی ایک ممالک جن میں برما، ہندوستان ، پاکستان، فلپائن اور مڈل ایسٹ کے کچھ خلیجی ممالک ( جو فی الحال اپنی نیم سنجیدہ معاشی مستحکم قیادت کی وجہ سے محفوظ ہیں) اور یورپی ممالک میں ترکی شامل ہیں۔ انارکی میں مبتلا دوسری سٹیج میں مغربی، مشرقی اور وسطی افریقہ کے کئی ایک ممالک بشمول سومالیہ، لیبیا، شام ، عراق ، فلسطین، افغانستان وغیرہ شامل ہیں جہاں سماجی زندگی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں بوجہ جنگ و جدل، اور جانی و مالی عدم تحفظ لوگ ملک چھوڑ کر دربدر ہوچکے ہیں۔

پاکستان کا ایک بڑا سنجیدہ اور مخلص دانشور طبقہ ان گہرے اندیشوں سے اٹی فضا میں بگولوں کی طرح اڑتی ہوئی دھول اور ٹاپوں کی آواز سن رہا ہے، جہاں مملکت خداداد میں انارکی کی دوسری سٹیج کے برپا ہونے کی امکانات نظر آ رہے ہیں ۔ایسے میں اگر فوری طور پر ملکی ،سیاسی و حکومتی سطح پر راست اقدامات نہیں کئے گئے تو خارجہ پالیسی کی ناکامی، عالمی تنہائی ، پڑوسیوں کی چیرہ دستیوں اور معاشی انتظام و انصرام میں لئے گئے بے کار قرضوں کی واپسی اور مملک کے ٹینجیبل اثاثوں کو عالمی اداروں کے پاس رہن کر دینے سے ہم کسی بھی عالمی تادیبی کاروائی سے نہ بچ سکیں گے اور انارکی اس حد تک پھیل جائے گی جہاں سے ریاست کی واپسی ناممکن ہو جائے گی۔ ہماری سرزمین کا طرہ امتیاز ہے کہ ہم فارغ وقت میں لہو رونے اور رلانے میں یدطولٰی رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے عام انسانی فہم و ادراک کی چیزیں بھی ہماری قیادت کو نظر نہیں آتیں۔

سی پیک میں چین کی سرمایہ کاری اور روس کی شرکت کی خواہش ہماری جغرافیائی حدود میں نئے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاسی پارٹیاں کئی ایک دھائیوں سے اٹھنے والی بدبودار اور بوسیدہ مفاہمت یا مخالفت سمیت سیاسی شعبدہ بازیوں سے باہر نکلیں۔ (جس کا امکان ابھی نہیں )۔ حقیقی ایشوز پر ایماندارانہ طرزِ فکر کے ساتھ اپنے تھنک ٹینک بٹھائیں، عوامی سطح پر اندرون ملک سیاسی امکانات کا جائزہ لیں۔ نون لیگ اگر یہ سمجھتی ہے کہ زرداری کی آمد سے وہ پلی بارگین کی پوزیشن میں آ جائے گی تو ان کے فکری و سیاسی توازن پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔

منافقت ، جھوٹ اور سچ کو چھپانے کی طرزِ معاشرت گزشتہ کئی دھائیوں سے ہماری قومی جڑیں کھوکھلی کر چکی ہے۔ راقم کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حکمرانوں سے لے کر نچلے طبقے کی عوام تک سب ان اخلاقی برائیوں میں ملوث ہیں، جس نے سماج کے حقیقی چہرے کو مسخ کر رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر ہماری بات پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ معاشرے کا چہرہ دیکھنے کے لئے حالیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا واقع چشم کُشا ہے۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً دو کروڑ سے زائد خواتین و حضرات شراب نوشی کرتے ہیں۔ جن میں ہر طبقہ فکر کے لوگ بشمول مذہبی زعماء بھی شامل ہیں ، جو اندازاً دس سے گیارہ فیصد آبادی ہے۔ جبکہ اقلیتیں موجودہ آبادی کا صرف تین فیصد ہیں۔ ان اعداد و شمار کو عالمی میڈیا بھی پرکھ چکا ہے، وال سٹریٹ جرنل کے ٹوبہ ٹیک سنگھ واقع پر طویل مضمون نے پاکستان کے گٹر سے ڈھکنا اٹھا دیا ہے۔ جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی منافقت اور جھوٹ پر مبنی سماج کا اصلی چہرہ سامنے آیا ہے۔

ایسی صورت میں اصلی شراب پر پابندی کو ختم کرکے اس سارے معاملہ کو بجائے مذہبی قالین کے نیچے دبا دیا جائے، کسی نئے ریگولیٹری و معاشی ادارے کے حوالے کر دینے سے کم از کم دو پہلوؤں پر مثبت نتائج سامنے آئیں گے ایک تو یقینی طور پر ٹیکسیشن کا عمل فروغ پائے گا۔ غیر ملکی انفرادی ٹورزم کی ابتدا ہوگی اور دوسرے سماجی طور پر جو ہے جیسا ہے کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔ اس عمل کے تحت درست اعداد و شمار، درست ملکی تاریخ، تعلیمی نظام کی تشکیلِ نو بھی ممکن ہے لیکن ایسا کون کرے گا؟ کیا موجودہ یا متوقع سیاسی قیادت سماجی سطح پر یہ انقلابی قدم اٹھا سکتی ہے یہ آج کا ملین ڈالر سوال ہے۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔